طنز و مزاحمضامین

تنقید نگاری سے توبہ

محمد خالد اختر

مجھے کتابوں پر ریویو لکھنے میں ملکہ حاصل ہے۔ اور میں انہیں پڑھے بغیر ہی ریویو لکھ سکتا ہوں۔ یہ خدا کی دین ہے جس طرح بعض لوگ شاعر یا پیدائشی مختصر افسانہ نویس ہوتے ہیں۔ غالباً میں ایک پیدائشی تبصرہ نگار ہوں۔ پچھلے دو، تین سال کے عرصہ میں میں نے ادیب سازی کے سلسلہ میں جو کام کیا ہے وہ آپ سے پوشیدہ نہ ہوگا۔ میرا ریویو کرنے کا طریقہ یہ ہے۔
”خیالِ نو“ کا ایڈیٹر جو میرا دوست ہے مجھے کتابیں ریویو کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ میں ان کو اِدھر ا±دھر الٹ کر کسی صفحہ کو کھول کر دو تین سطریں پڑھتا ہوں۔ مثلاً:
اس نے کہا ”چائے کی پیالی پیﺅ!“
بھورے خان نے کہا ”شکریہ میں ابھی ابھی لیمن پی کر آیا ہوں“
اور پھر کتاب کو بند کرکے اس پرتین چار صفحے کاریویو گھسیٹ دیتا ہوں۔ اگر کتاب ذرا اہم ہوئی تو میں اسے اپنے بھانجے کو (جو آٹھویں جماعت میں تعلیم پا رہاہے ) پڑھنے کے لیے دے دیتا ہوں اور رات کو سوتے وقت اس سے کہتا ہوں کہ مجھے اس کا پلاٹ سنائے۔ اگر اس کے پلے کچھ نہ پڑا تو سمجھ لیتا ہوں کہ کتاب فی الواقعی ہائی بروے ہے اور اپنے ریویو میں اسے وقیع اور عالمانہ بتاتا ہوں۔ اب تک یہ طریقہ بہت کامیاب رہا تھا۔ کتنا کامیاب آپ کو اس شہرت سے اندازہ ہوسکتا ہے جو اس سلسلے میں مجھے حاصل ہے۔ خودمیرے ریویوں پر ریویو لکھے جاچکے ہیں۔ اور مجھے ادب کا ہونہار ترین نوجوان نقاد تسلیم کیا جاچکا ہے۔ ”خیالِ نو“ جو اس وقت اردو ادب کی آواز ہے۔ اپنے ہر شمارے میں میری تصویر کے نیچے یہ چھاپتا ہے۔ ”مسٹر شداد پشمی اردو کے ہونہار ترین نوجوان نقاد“ وغیرہ وغیرہ۔
لیکن چند دنوں سے اسی تنقید نگاری کی بدولت میں ایک عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ ریویو ئنگ اتنی پر خطر بھی ہوسکتی ہے۔ میرا خیال تھا کہ یہ سب گلابوں کی سیج ہے، اب اس کے خطرات مجھ پر کھلے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مصیبت کی وجہ سے حالات اس قدر نازک صورت اختیار کرچکے ہیں کہ کتابیں ریویو کرنا تو رہا ایک طرف، میں نے گھر سے باہر نکلنا بھی ترک کردیا ہے اور اب کراچی چھوڑ کر کسی اور جگہ کوچ کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں …. وہ جگہ ہے نا جہاں ….. وہ کیا مصرعہ ہے۔ ہم زباں کوئی نہ ہو۔۔۔ اور میزباں کوئی نہ ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔ ٹھیک اسی جگہ میں جانا چاہتا ہوں۔ صرف وہ جگہ اب مجھے راس آ سکتی ہے۔ کیا کوئی صاحب مجھے اس کا اتہ پتا بتاسکتے ہیں کہ وہ کہاں ہے؟
مصیبت کا آغازیوں ہوا کہ ”خیالِ نو“ کے ایڈیٹر نے مجھے ایک ناول ریویو کرنے کے لیے دیا۔ میرا بھانجا کہیں باہر گیا ہوا تھا اور پھر میں سمجھا کہ ناول اتنا اہم بھی نہیں ہے۔ (اس کا مصنف کوئی غیر معروف شخص تھا) میں نے درمیان سے ایک صفحہ کھولا اور پڑھنے لگا۔
”میں پاگل ہوں۔۔۔ میں پاگل ہوں“ عبد الشکور نے اپنے کپڑے پھاڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ اس کے دوست حکیم عبد العلی نے اس کو اس سے باز رکھنے کے لیے کشمکش کی۔
”کپڑے مت پھاڑو میاں عبد الشکور“ میاں عبد العلی نے کہا ”قمیض“ جو تم پہنے ہوئے ہو میری ہے۔“ میں نے کتاب کو ایک اور جگہ سے الٹا۔ یہاں اس قسم کے نادر جواہرات جڑے تھے۔ اگر عبد الشکور اپنے تحت الشعور کو کسی طرح اپنے لاشعور میں مدغم کرسکتا ہے تو اس کی نفسیاتی الجھنوں کا خاتمہ ہوجاتا۔ اس کو خود بخود ملازمت مل جاتی اور اس کے دفتر کا سپرنٹنڈنٹ خود بنفسِ نفیس ملازمت کو طشت پر رکھے اس کے پاس حاضر ہوتا۔ اس کے مکان کا پچھلے دو ماہ کا کرایہ خود بخود ادا ہوجاتا اور اس کے قرض خواہ اس کی خوش طبعی سے متاثر ہوکر اپنے پچھلے قرضے مانگنے کی بجائے اسے اور قرضہ دینے پر اصرار کرتے۔ مگر افسوس کہ عبد الشکور محض دس جماعتوں تک پڑھا تھا۔ افسوس اس نے ڈاکٹر سگمنڈ فرائڈ کی کتاب سائیکالوجی آف نیوراسس نہیں پڑھی تھی۔ افسوس اس نے آندرے زید نہیں پڑھا تھا۔ افسوس وہ بصد کوشش جمیز جائس کی اولیسس کو ایک صفحے سے آگے پڑھنے میں کامیاب نہ ہوا تھا اگر وہ کم از کم ”اولیسس“ ہی آدھی تک مطالعہ کر لیتا تو اس وقت اس کی نفسیاتی اور جسمانی حالت اس قدر قابل رحم نہ ہوتی اور چاننان اس سے یوں بے وفائی نہ کرتی، اب وہ اس طرح محسوس کر رہا تھا جیسے وہ پاگل ہوجائے گا جیسے اس کے پاگل ہوجانے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے۔۔۔
یہ کافی تھا اور میں کتاب کو بند کرکے اس پر ریویو لکھنے بیٹھ گیا۔
پندر منٹ میں میں نے ریویو لکھ ڈالا چھ صفحے کا ریویو۔ اس میں میں نے لکھا کہ اس ناول میں مصنف محترم ذوالفقار خان نے ایک بے کار تعلیم یافتہ نوجوان کے جذبات کی فرائڈین نقطہ نظر سے تجزیہ¿ نفسی کرنے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس میں زیادہ کامیاب نظر نہیں آتے۔ پھر بھی ان کی اس کوشش کو ناکامیاب بھی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کی ہوبہو عکاسی کرتے ہیں مگر ان کی رومانیت پرستی سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ان کی کردار نگاری کی تکنیک خارجی نہیں بلکہ داخلی ہے، یعنی وہ اپنے کرداروں کے چھپے چھدرے تحت الشعور جو اس ناول کا ہیرو ہے اپنے کپڑے پھاڑ کر چلاتا ہے۔ میں پاگل ہوں، میں پاگل ہوں۔ تو ہمیں صاف طور پر اس میں مصنف خود بولتا ہوا نظر آتا ہے محترم ذوالفقار خان میں ایک عیب یہ ہے کہ وہ کرداروں کو باہر سے ٹٹولتے ہیں اور ان کے بارے میں گہرائی سے نہیں لکھتے، لیکن امید ہے کہ اپنی اگلی کتاب میں وہ اس کے بالکل برعکس تکنیک استعمال کریں گے۔ ان کی پہلی ہی کتاب سے سب کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور ادبی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ سب نے محسوس کیا ہے کہ ایک نیا ادیب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوچکا ہے۔ جس کی ادبی کاوشوں سے اردو ادب کو چار چاند لگنے کی توقع ہے۔
مگر ذوالفقار خان کو سنبھل سنبھل کر بڑھنا ہوگا۔ ابھی انہیں فعل نگارش کے متعلق بہت کچھ سیکھنا ہے اور نفسیات کی سب کتابوں کا مطالعہ کرنا ہے۔ ان کے ناول سے گمان ہوتا ہے کہ عبد الشکور نے (جو غالباً مصنف خود ہی ہے ) ابھی تک ”سائیکالوجی آف نیوراسس“ نہیں پڑھی آندرے ڑید نہیں پڑھا میں محترم ذوالفقار خان سے پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ اگر انھوں نے خود اپنے اقرار کے مطابق نہ فرائڈ کو پڑھا ہے نہ آندرے ڑید کو اور نہ جائس کو تو پھر انھوں نے پڑھا کیا ہے، کیا ان کتابوں کے مطالعہ کے بغیر وہ ہمیں کیسے کوئی ٹھوس یا جامد تخلیق دے سکتے ہیں۔ راقم الحروف نے خود ان تینوں مصنفوں کو ہائی اسکول ہی میں پڑھ ڈالا تھا۔ اس زمانے میں شاید ذوالفقار خاں پتنگ اڑاتے ہوں گے یابہرام ڈاکو عرف بے وفا مجاہد کی قسم کے ناولوں سے اپنی راتوں کی نیند حرام کرتے ہوں گے۔۔۔ محترم ذوالفقار خان چینی کلاسیکل مصنف چنگ پھنگ پھوں سے بے حد متاثر معلوم ہوتے ہیں ( یہ نام میں نے اسی وقت فرضی گھڑلیا تھا) اور انھوں نے اپنے ناول کے پلاٹ کے سلسلہ میں مسٹر چنگ پھنگ پھوں کے ناول ”چیکو! چیکو“ سے کسی حد تک استفادہ کیا ہے۔
کچھ اس قسم کے الفاظ تھے میرے ریویو کے۔ لفظوں کے کچھ ہیر پھیر کے ساتھ میں اس موضوع کے متعدد ریویو پہلے کرچکا تھا اور ایڈیٹر ”خیالِ نو“ کہ یہ ریویو حوالہ کردینے کے بعد میں اس کے اور محترم ذوالفقار خان کے متعلق سب کچھ بھول گیا۔
جب یہ ریویو ”خیالِ نو“ میں چھپا تو اس سے تین چار روز بعد مجھے محترم ذوالفقار خان کا خط موصول ہوا۔ جس میں انھوں نے میرے حوصلہ افزا ریویو کا شکریہ ادا کیا تھا اور مجھے یقین دلایا تھا کہ انھوں نے چنگ پھنگ پھوں کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ اور اگر ان کے ناول کی مسٹر چنگ پھنگ پھوں کے ناول سے کچھ مشابہت ہے تو اسے محض اتفاق پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ آگے چل کر انھوں نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ آیا میں ان کو مسٹر چنگ پھنگ پھوں کے پبلیشر کے پتے سے آگاہ کرسکتا ہوں۔ جس سے عظیم چینی مصنف کے ناول ”چیکو“ کا انگریزی زبان کا ایڈیشن دستیاب ہوسکے۔
میں نے جواباً لکھ بھیجا۔ ”چیکو چیکو تو میں نے اصل چینی زبان میں پڑھا تھا۔ جہاں تک مجھے علم ہے ابھی ناول کا انگریزی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا۔“
میرا خیال تھا معاملہ یہیں پر ختم ہوجائے گا۔ دوسرے دن میں ابھی بستر سے نکل کر شیو ہی کر رہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں سمجھا شاید دودھ والا ہوگا۔ منہ صابن کے جھاگ میں لتھڑا ہوا ہاتھ میں برش۔۔۔ اس حلیہ میں میں نے دروازے کو تھوڑا سا کھول کر محتاطِ انداز میں باہر سر نکالا۔
”کیاآپ ہی شداد پشمی ہیں!“ ایک کھپے دار مونچھوں والا خطرناک شکل کا انسان دروازے کے پاس کھڑا تھا۔
”ہاں! مجھے یہی کہاجاتا ہے۔۔۔ دوست احباب صرف پشمی کہتے ہیں“ میں نے مسکرانے اور خر خرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ”آپ کی تعریف؟“ کیسے آنا ہوا؟“
”میں ذوالفقار خان ہوں اور آپ کے حوصلہ افزاریویو کا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں۔“
میں اس کو اچھے اخلاق میں شمار نہیں کرتا کہ مصنف لوگ بالکل ہی تبصرہ نگار کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑ جائیں اور خط و کتابت پر اکتفا نہ کرکے اس کے گھر کا کھوج جانکالیں۔ میں ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ صبح ہی صبح ذوالفقارخان کی قسم کے مصنف کو اپنے دروازے کے باہر کھڑا دیکھنا کسی تبصرہ نگار کے دلی سکون میں اضافہ کا موجب نہیں بن سکتا۔ میں نے صابن کی جھاگ میں سے اپنے جبڑے چیر کر اس پر یہ ظاہر کیا کہ میں اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا ہوں۔
میں نے کہا ”اخاہ۔ ذوالفقار صاحب۔ آیئے آیئے اندر تشریف لائیے۔ آپ کی کتاب۔۔۔ کئی حیثیت سے۔۔۔ غیر معمولی تھی۔۔۔“
وہ اندر آکر کرسی پر بیٹھ گیا اور میں ہاتھ میں برش پکڑے اس کے سامنے والے صوفے پر
”ہاں تو وہ آپ کی کتاب خوب تھی!“
”آپ شیو تو کرلیجئے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں جانتا تھا کہ اس شخص کی موجودگی میں میرے لیے شیو کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ شیو کرنے کے لیے دلی سکون اور روحانی اطمینان ضروری ہے ….. میرا خیال تھا کہ اس طرح شاید مجھے اس سے جلد چھٹکارا حاصل ہوجائے۔
”شیو کرلوں گا۔۔۔ آپ فرمائیے۔ اتنے سویرے سویرے ……“
”ہاں وہ چینی کتاب ”چیکو!چیکو“ آپ کے پاس ضرور ہوگی۔ آپ نے اپنے ریویو میں اس کا حوالہ دیا ہے۔۔۔ وہ نہیں تو چنگ پھنگ پھوں کا کوئی دوسرا شاہگار۔“
”وہ کتاب ”چیکو! چیکو!“۔۔۔ ہاں! مجھے یاد آیا میں کل ہی تو اسے پڑھ رہا تھا۔ مسٹر چنگ پھنگ پھوں۔۔۔ یہی نام ہے نا۔۔۔ اس وقت چین کے کلاسیکی روایت میں لکھنے والوں میں سب سے زیادہ ممتاز ہے، وہ جو میں نے آپ کی کتاب پر اپنے ریویو میں لکھا تھا کہ اس کی چنگ پھنگ پھوں کی کتاب سے مشابہت ہے۔۔۔ تو۔۔۔“
”آپ نے چینی زبان کب سیکھی تھی۔“ مسٹر ذوالفقار نے بات کاٹتے ہوئے، سنجیدگی سے کہا۔ ”غالباً اس وقت جب میں لکڑی کے گھوڑے پر سیر کیا کرتا ہوں گا“
میں نے اس سوال میں پیش زنی کو نظر انداز کرکے اتنی ہی سنجیدگی سے دور ایک مفکرانہ طور پر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ”غالباً ۱۹۲۸ ئٓ میں۔۔۔ میں اس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔
مسٹر ذوالفقار نے قطع کلامی کرکے مجھے مزید دروغ گوئی سے بچاتے ہوئے پوچھا ”آپ نے لن یوٹانگ کی کتابیں پڑھی ہیں۔ وہ سب تو انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں۔“
”میں نے جواب دیا۔ ہاں اچھا لکھتا ہے، مگر خارجی اسکول کا مصنف ہے میرا مطلب ہے اس میں داخلیت نہیں۔ پھر بھی برا نہیں۔ میں نے تو اس کی کتابیں اصلی زبان میں پڑھی ہیں۔ ترجمہ میں در اصل وہ بات نہیں رہتی۔“
”اور پنگ پانگ کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے“ ذوالفقار خان نے پوچھا۔
”اچھا لکھتا ہے“ میں نے جواب دیا۔ اگرچہ میں نے اس کا نام کبھی نہیں سنا تھا چین کی عوامی زندگی کا اس وقت وہ واحد عکاس ہے۔ مگر رومانیت پسندی اس کی تخلیقات میں جو خارجیت۔۔۔ اور۔۔۔ رومانیت کا رنگ لے آتی ہے۔ وہ میری رائے میں اس کی اصلی خوبیوں میں سے بہت کچھ منفی کرلیتا ہے۔ پھر بھی وہ اس وقت چینی ادب کا آندرے ڑید ہے۔۔۔“
”معاف کیجئے۔“ مسٹر ذوالفقار خان نے یک لخت ا±ٹھتے ہوئے کہا۔
”آٹھ بجے مجھے ایک ضروری کام پر جانا ہے۔ اب اجازت چاہتا ہوں۔ پنگ پانگ کے متعلق آپ کے ان ارشادات کو میں یہاں کے ہر ادیب تک پہنچانے کی کوشش کروں گا خاطر جمع رکھیئے اور ویسے جاتے جاتے یہ عرض کردوں کہ پنگ پانگ ایک کھیل کا نام ہے۔ جو گیند سے میز پر کھیلا جاتا ہے۔“
”میرا مطلب طریقہ فکر کی مشابہت سے تھا۔ آپ سمجھتے ہیں نا۔۔۔ سبجیکٹیو (Subjective) طریق نہ کہ آبجیکٹیو (Objective) آپ سمجھتے ہیں نا۔“ میں نے بازو ہلاکر اسے اپنا مطلب سمجھانے کی کوشش کی اور اس کوشش میں برش سے اپنی ناک پر سفیدی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
”وہ کتاب تو آپ کے پاس ہوگی ہی بات یہ ہے کہ ہم نئے ادیبوں کو چینی ہی فنکاروں کے شاہکار پڑھنے چاہیے۔ نیپٹر روڈ پر ایک چینی دندان ساز آہ فنگ میرا دوست ہے میں اس سے اگلے ہی روز دو ڈاڑھیں نکلوا چکا ہوں“ مسٹر ذوالفقار خان نے حلق کھول کر اور انگلی ڈال کر مجھے نکلی ہوئی ڈاڑھوں کی جائے وقوع دکھانے کی کوشش کی۔ ”میرا ارادہ ہے کہ آہ فنگ کی مدد سے میں ”چیکو چیکو!“ کا اردو ترجمہ کروں۔ ورنہ آپ تو ہیں ہی۔“
”ہاں ضرور کیجئے۔ ہمیں اردودان طبقے کو چینی ادب سے روشناس کرانا چاہیے۔ ضرور کیجئے۔“ میں نے کہا۔
”اچھا تو مجھے وہ کتاب ایک دو دن کے لیے عنایت کردیجئے!“
”کون سی کتاب۔۔۔!“میں اس کتاب کے متعلق بھول گیا تھا۔
وہی چیکو!چیکو!“۔۔۔ چنگ پھنگ پھوں کا شاہکار۔“
”وہ کتاب۔۔۔ ہاں! میں نے خداجانے اس کو کہاں رکھ دیا ہے۔“ میں نے کہا پرسوں بھی تو وہ میرے پاس ہی تھی۔ دراصل یہ میرا بھانجا ہے نا۔۔۔ عجیب نا معقول لڑکا ہے۔ میری کتابیں یہاں سے اٹھاکر لے جاتا ہے اور بھینس کے آگے ڈال دیتا ہے۔۔۔۔“
”بھینس کے آگے!“مسٹر ذوالفقار نے کرسی پر سے ہڑ بڑاکر اٹھتے ہوئے احتجاج کیا۔
”ہاں بھینس کے آگے! یہ اس کی ”ہابیوں“ میں سے ایک ہے۔“
”مگر پنگ پانگ ایک چینی مصنف بھی تو ہے۔۔۔ آپ مذاق تو نہیں کر رہے۔“
”ذوالفقار صاحب ٹھہرئیے چائے تو پیتے جائیے“ مگر میرا ملاقاتی دروازہ کھول کر باہر جا چکا تھا۔
صابن میرے گالوں پر سوکھ چکا تھا اور ذوالفقار خان کے چلے جانے کے بعد مجھے ایک مبہم سا احساس ہوا کہ ریویوٹز کی حیثیت سے میرا کیریئر اب ختم ہوگیا ہے۔
مسٹر ذوالفقار خان اپنے وعدے کا پکا ثابت ہوا۔ قابل سے قابل ترین ڈھنڈورچی بھی اس خوبی سے اس کام کو سرانجام نہ دے سکتا جس خوبی سے اسے ذوالفقار خان نے کہا، ایک ہفتے کے اندر اندر شہر کا ہر ادنیٰ آدمی، کافی ہاﺅس کا ہر جرنلسٹ اس قصہ کو جانتا تھا اور ”پنگ پانگ“ کے متعلق میری رائے کو قہقہوں کے درمیان، ادبی محفلوں میں دہرایا جاتا تھا۔ کم از کم اردو کے دو ماہناموں ”صبح“ اور ”سکرین“ کے تنقید نگاروں نے طویل مقالوں میں میری خوب خبرلی (تنقید نگاروں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کاش ہم لوگوں میں یونین اسپرٹ ہوتا) مہینے کے اندر اندر ساری ادبی دنیا اس مذاق سے واقف ہوگئی تھی اور جب کہ تین ماہ بعد بھی لوگ مجھے دیکھتے ہیں تو ان کی باچھیں چرنے لگتی ہیں اور وہ مجھ سے پوچھتے، ہیں۔ ”پنگ پانگ“ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے!“ میرے لیے گھر سے باہر نکلنا دوبھر ہوگیا ہے۔
میرا دوست ”خیالِ نو“ کا ایڈیٹر اب مجھے اپنے رسالے کے لیے ریویو لکھنے کی دعوت نہیں دیتا۔ میں اب اس جگہ سے کوچ کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ اس جگہ جہاں ہم زبان کوئی نہ ہو۔ اور مہمان کوئی نہ ہو وغیرہ وغیرہ، اور وہاں ذوالفقار خان بھی نہ ہو!
٭٭٭