سیاستمضامین

حجاب طالبات کی پسند کا معاملہ

یہاں سارا معاملہ ہے کہ ایک سیاست اور اس سے وابستہ تنظیمیں فیصلہ کرنا چاہتے تھے کہ لڑکیاں کب اور کیا پہنیں۔ اب ہوتی ہے بحث۔ حجاب پہننے الی لڑکیاں کہتی ہیں کہ پہلے تو کسی نے حجاب پہننے سے نہیں روکا تو اب کیوںروکا جاسکا ہے۔ ایک سوال جوڑا جاتا ہے کہ پہلے حجاب پہن کر لڑکیاں نہیں آتی تھیں اب کیو ںآرہی ہیں۔

رویش کمار

رواں سال 15؍ مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے فیصلہ صادر کیا کہ اسکولوں میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کرناٹک حکومت کا حکم درست ہے کیوں کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں 24درخواستیں دائر کی گئیں۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ نے 4؍ ستمبر سے 22؍ ستمبر کے بیچ دس دنوں تک سبھی فریقوں کی تفصیل سے سماعت کی۔ اب اس بینچ کا فیصلہ آیا ہے۔ سپریم کورٹ کے دو ججوں کی بنچ نے اس سوال پر غور کرنے کے لیے بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا ہے، کیو ںکہ فیصلے پر دونوں ججوں کی رائے منقسم ہے۔ جسٹس سدھانشو دھولیا کے حساب سے حجاب پر امتناع کا فیصلہ غلط ہے۔ جسٹس ہیمنت گپتا فیصلے کے حق میں ہیں۔ گزشتہ سال نومبر اور دسمبر سے یہ معاملہ طول پکڑتا ہے۔ جب دسمبر کے آخری ہفتہ میں اڈپی کا پی یو کالج حجاب پہن کر آنے والی لڑکیوں کو باب الداخلے پر رو ک دیتا ہے۔ اس کی مخالفت میں چھ لڑکیاں احتجاج کرتی ہیں۔ فروری آتے آتے یہ معاملہ جارحانہ شکل اختیار کرلیتا ہے۔ آٹھ اور نوفروری تک کرناٹک کے کئی حصو ںمیں حجاب کی حمایت اور مخالفت میں مظاہرے ہونے لگ جاتے ہیں۔ یہ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ میں بھیجا جاتا ہے۔ جسٹس رتو راج اوستھی کی بنچ11دنوں تک سماعت کرتی ہے اورر فیصلہ دیتی ہے کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ ہمیں اس واقعہ کے بار ے میں ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اگر حجاب کی مخالفت سماجی تبدیلی کے لیے تھی تو سماج کو اعتماد میں لے کر کی گئی یا زور زبردستی کی گئی۔ کیا آپ کسی فرقہ کو پاکستان بھیج دینے کے نعرے کے ساتھ سماجی تبدیلی کرسکتے ہیں؟
ان دنوں ایک ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں حجاب کی حمایت کرنے والی لڑکیوں پر پولیس لاٹھی چارج کرتی ہے۔ ہمارے معاون نہال قدوائی 18؍ فروری کی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ منڈیا پولیس سے پوچھا کہ ان لڑکیو ںکے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیوں کررہی ہے تب پولیس نے انکار کردیا۔ لیکن جب لاٹھی چارج کا یہ ویڈیو بھیجا گیا تب تحقیقات کی بات کہی جانے لگی۔ تب یہ معاملہ کرناٹک ہائی کورٹ کے نوٹس میں بھی لایاگیا کہ پولیس حجاب پہننے والی لڑکیوں کو ڈرادھمکارہی ہے۔ اس دن ہائی کورٹ میں ریاستی حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل کہتے ہیں کہ جہاں جہاں کالج ڈیولپمنٹ کمیٹی نے حجاب کو ڈریس کوڈ میں شامل کیا وہاں حجاب پر پابندی نہیں ہے۔ حکومت 5؍ فروری کے اپنے احکام کو اور بہتر طریقے سے پیش کرسکتی تھی۔ 5؍ فروری کو بنگلورو سے ہمارے معاون نہال قدوائی رپورٹ بھیجتے ہیں کہ اڈپی کے ایک پری یونیورسٹی کالج سے یہ تنازعہ شروع ہوا تھا مگر اب ریاست کے کئی اضلاع میں پھیل گیا ہے۔ اڈپی کے کندن پورہ میں دائیں بازو نظریہ کی طالبات حجاب کی مخالفت میں جلوس نکالتی ہیں۔
حجاب کے جواب میں کچھ طالبات بھگوا پٹی پہن کر مظاہرہ کرتی ہیں۔ مسلم طالبات بھی حجاب پہن کر مظاہرہ کرنے لگ جاتی ہیں۔ زیبا شیرین کہتی ہیں کہ سُلی ڈیلس، بلی بائی کو دیکھیے، مسلم خواتین کی آن لائن بولی لگائی جارہی ہے۔ حجاب پر امتناع بھی اسی کا حصہ ہے، کیو ںکہ ہندوتوا گروپ مسلم خواتین کو نیچا دکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ حجاب پہن کر آنے والی لڑکیوں کو اسکول میں آنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حجاب اتار کر اسکول آئیں۔ یہ منظر اپنے آپ میں شرمناک تھا۔ میں جانتا ہوں کہ اگر کسی خاتون سے سرے بازار دوپٹہ اتارنے کے لیے کہا جائے تو آپ بالکل پسند نہیں کریں گے۔ یہاں جو ہوا وہ وقار کے ساتھ کھلواڑ تھا نہ کہ سماجی تبدیلی کی تحریک، کیوںکہ یہ دھمکاکر اور جبراً کیا جارہا تھا۔ نفرت کی آندھی میں آج کے ہندوستان کے لوگوں کو کچھ بھی غلط نہیں لگا۔ یہ بات تاریخ نوٹ کرے گی۔ آپ کسی کو بے پردہ کرکے سماجی تبدیلی نہیں لاتے ہیں۔
یہاں سارا معاملہ ہے کہ ایک سیاست اور اس سے وابستہ تنظیمیں فیصلہ کرنا چاہتے تھے کہ لڑکیاں کب اور کیا پہنیں۔ اب ہوتی ہے بحث۔ حجاب پہننے الی لڑکیاں کہتی ہیں کہ پہلے تو کسی نے حجاب پہننے سے نہیں روکا تو اب کیوںروکا جاسکا ہے۔ ایک سوال جوڑا جاتا ہے کہ پہلے حجاب پہن کر لڑکیاں نہیں آتی تھیں اب کیو ںآرہی ہیں۔
وزیراعظم نے اپنی پارٹی کے ایم پی پرویش ورما کے بیان پر کچھ نہیں بولا ہے جس میں انہوں نے ایک فرقہ کے سماجی بائیکاٹ کی بات کی تھی۔ ٹھیک اسی طرح کی بات کرناٹک میں بی جے پی کے رکن اسمبلی باسن گوڑا پاٹل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس مٹی کا کھاتے ہیں۔ پانی پیتے ہیں اور ملک دشمن کام کرتے ہیں۔ مدرسہ اور اردو اسکول بند کردیے جائیں۔ کنڑ سیکھیں یا پاکستان جائیں۔ ان بیانات سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کودنے والے مسلم خواتین میں سماجی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ورنہ ایسی زبان نہیں ہوتی۔ جب کسی کو پاکستان ہی بھیجنا ہے تو ان کے پہناوے کو لے کر ملک کی سیاست اور عدالت کا وقت کیوں برباد کیا گیا؟
یہ ایک کالج کا معاملہ تھا، لیکن جس تیزی سے کرناٹک کے کئی حصوں میں اسے جارحانہ مظاہروں میں تبدیل کیا گیا ظاہر ہے صرف ایک فریق کا ہاتھ نہیں ہوسکتا تھا۔ اسی دوران حلال میٹ کا معاملہ اٹھتا ہے۔ مذہبی میلوں سے غیر ہندو دکانوں کو ہٹانے کا معاملہ طول پکڑتا ہے۔ اسکولوں میں بائبل لے جانے کا تنازعہ اٹھتا ہے۔ ہندو جن جاگرن سمیتی، بجرنگ دل، شری رام سینا کا نام آتا ہے۔ ان کے قائدین بیان بازی کرتے ہیں۔ کیا ان کے کردار کو سازش کے طور پر دیکھا گیا؟ اس کی تحقیقات ہوئی؟ پرانی رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ کرناٹک حکومت نے الزام عا ئد کیا کہ حجاب پہننے کی مہم مبینہ طور پر پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے چلائی اور یہ سازش کا حصہ تھا۔ پولیس نے اس کی تحقیقات کی اور سربہ مہر لفافے میں رپورٹ دی گئی۔ ایسا کیا تھا کہ سربہ مہر لفافے میں رپورٹ کی ضرورت پڑی کیو ںکہ اس کے کچھ ماہ بعد تو حکومت نے پی ایف آئی پر امتناع ہی عائد کردیا۔ تب تو سارے حقائق بتائے گئے کہ ان کے کھاتے میں کتنا پیسہ ہے، کون کون لوگ ہیں، گودی میڈیا نے ایک ایک بات کو گھنٹوں دکھایا اور جلی حروف میں شائع کیا۔ پھر کرناٹک پولیس حجاب مہم میں پی ایف آئی کے کردار پر اپنی تحقیقات سربہ مہر لفافے میں کیوں حوالے کرتی ہے۔
ہم نے ساری باتیں نہیں بتائی ہیں ظاہر ہے وقت کی کمی ہے، لیکن اتنے سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ ہمیشہ ایک فرقہ کے تئیں نفرت کے طوفان سے گھرے رہے ہیں۔ اس کا فوقتاً فوقتاً اس طرح انتظام کیا جاتا ہے۔ اس سے وقت ملے تو اپنے شہر کے کسی سرکاری کالج کا حال دیکھ کر آئیے گا جہاں آپ کے نونہالوں کا مستقبل وشواگرو کے معیار کا بننا ہے۔
کیا حجاب لڑکیوں کو اسکول کالج تک جانے سے روکتا ہے؟ کیوں کہ کرناٹک کے کیس میں حجاب کی وجہ سے ہی لڑکیاں کالج تک پہنچ رہی تھیں۔ ہندوستان میں لڑکیوں کی تعلیم شروع ہی ہوتی ہے گھونگھٹ اور پردے کے ساتھ۔ بہت ساری لڑکیاں اسکول اسی وقت گئیں جب ان کے تانگے کو پردے سے چاروں طرف گھیر دیا گیا۔ گھونگھٹ نکال کر جانے کی اجازت ملی۔ اب اسکول کالج اور دفتر جانے کے معاملے میں گھونگھٹ کی ضرورت ختم ہوگئی ۔ سماج بھول گیا ہے، اب صرف کچھ گھروں میں بھڑبڑھاتے ہوئے جیٹھ جی آتے ہیں تبھی اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ گھونگھٹ کی پہچان ایک سماجی برائی کے طور پر ہوتی ہے، مگر اسی کے سہارے لڑکیاں پہلی سیڑھی چڑھتی ہیں۔ سماعت کے دوران سکھ لڑکیوں کا حوالہ دیا گیا کہ وہ سر ڈھنکتی ہیں۔ کرپان بھی لے کر جاتی ہیں۔ کوئی نہیں روکتا ہے۔ یہاں حجاب پہن کر لڑکیاں اسکول تو جارہی ہیں کیا یہاں پر حجاب اسکول جانے کی گیارنٹی نہیں ہے؟ وکیل میناکشی اروڑہ اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی کہ کمیٹی نے پایا کہ ڈریس کورڈ کو طالبات کو اسکول آنے سے رونے کی بجائے ان کی حصہ داری کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جب فرانس میں حجاب پر امتناع کی بات اٹھی تو میناکشی اروڑہ نے کہا کہ اس ملک میں بہت سختی سے سیکولر پالیسیوں پر عمل ہوتا ہے۔ وہاں کسی بھی مذہبی مظاہرہ کی اجازت نہیں ہے۔ کرناٹک کے سلسلے میں یہ بات اٹھی کہ حجاب پہننے سے روکنے کا برا اثر پڑرہا ہے۔ بڑی تعداد میں لڑکیوں نے اسکول جانا چھوڑدیا ہے۔ اس کی تعداد پر تنازعہ ہوتا رہا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی بنچ سماعت کررہی تھی۔ کیا حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے؟ اس بڑے سوال کے تحت باقی سارے سوال آتے جاتے رہے۔
سوال ہے کہ ایک عام ناظر تک یہ ساری باتیں کہاں پہنچتی ہیں وہی پہنچتی ہیں جو ایجنڈا اور پروپیگنڈا سے بھیجی جاتی ہیں۔ اتنی بحث اگر بے روزگاری اور مہنگائی کی معاشی وجوہات پر ہوجاتی تو ملک کی سیاست بدل جاتی۔ اس ملک کے نوجوانوں کو واٹس ایپ یونیورسٹی کے علاوہ کچھ کام بھی مل جاتا۔ گودی میڈیا کے اینکر اتنی محنت کرکے یہ ساری باتیں آپ کو نہیں بتائیں گے کیو ںکہ وہ چاہتے ہیں کہ آپ بس ہجوم بنیں رہیں۔ تا کہ آپ کو جب مرضی ہو جس سمت میں ہو ہانکا جاسکے۔ راجیو دھون نے ایک اور اہم بات کہی۔ حجاب پورے ملک میں پہنا جاتا ہے۔ یہ اسلام میں ایک مناسب اور قابل قبول عمل ہے۔ اور بجوائے ایمینویل کیس میں عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی عمل مناسب اور قابل قبول ہے تو اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔
وکیل احمدی کہتے ہیں کہ ریاست کا کام تنوع کی حوصلہ افزائی کرنا ہے نہ کہ رواجوں پر پابندی لگانا۔ اگر کوئی حجاب پہن کر اسکول جاتا ہے تو کوئی دوسرا کیوں بھڑکے؟ اگر یہ اکساتا ہے تو آپ کو اس کا حل کرنا ہوگا۔ ورنہ آپ کسی کو دھمکانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ جو طلباء مدرسوں تک ہی محدود تھے، اس خصوصی طبقہ کے طلباء کو قدامت پسندی سے نکل کر سیکولر تعلیم میں شامل کیا جارہا ہے تھا لیکن آج اگر آپ ان کے ساتھ اس طرح سے برتائو کریں گے تو کیا اثر ہوگا۔ انہیں مدارس میں واپس جانے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔
کپل سبل بھی کہتے ہیں کہ دفعہ 19 کے مطابق اگر لباس پہننا اظہار کا حصہ ہے تو اسی دفعہ کے تحت حد بھی تلا ش کرنی ہوگی جسے شائستگی اور اخلاقیات کی کسوٹی پرپررکھا جاسکے۔ اس لیے یہ دستوری سوال ہے۔ دشینت دوے بھی دھواں دھار بحث کرتے رہے۔ ان کی دلیل تھی کہ حجاب پہن کر کسی کے بھی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائی گئی ہے۔ عدالت کا ایک ہی مذہب ہے دستور اور اسی کی کسوٹی پر فیصلہ ہونا چاہیے۔ اقلیتی فرقہ کو حاشیہ پر رکھنے کا پیٹرن سا چل رہا ہے۔ اگر کچھ ملکوں میں حجاب پر امتناع عائد ہوا ہے تو امریکہ ملائشیا جیسے کئی ملکوں میں خواتین پہننا بھی چاہتی ہیں۔
جسٹس سدھانشو دھولیا ایک سوال اٹھاتے ہیں کیا ہم لازمی مذہبی رواجوں کو الگ کرکے صورت حال سے نہیں نمٹ سکتے؟ عدالت کا بنیادی سوال تھا کہ کیا حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہے اور جسٹس دھولیا پوچھ رہے ہیں کہ کیا اس سوال کے بغیر ہم اس معاملے سے نہیں نمٹ سکتے۔ یہ بہت ہی اہم سوال ہے۔ کیو ںکہ حجاب کے نام پر کشیدگی کے حالات بناکر اس کی جوابدہی سے بچنے کے لیے لازمی پہلو کا سوال پیدا کیا گیا۔ جسٹس دھولیا لکھتے ہیں کہ عدالت کے سامنے سوال یہ ہونا چاہیے کہ حجاب کی بنیاد پر کسی لڑکی کو تعلیم سے بے دخل کرکے کیا ہم اس کا بھلا کررہے ہیں؟ سبھی درخواست گزار حجاب کی مانگ کررہے ہی ں، کیا کسی جمہوریت میں یہ بہت بڑی مانگ ہے؟ یہ اخلاقیات، پبلک آرڈر کے خلاف کیسے ہے؟