سیاستمضامین

حسینہ واجد کی پارلیمانی انتخابات کی تیاریاپوزیشن قائدین‘ مذہبی علماء ۔ لیبر رہنماؤں کی گرفتاریاں

سلیم مقصود

بنگلہ دیش اور شمال مشرقی ہند کی ریاست تریپورہ کے درمیان 1224 کلو میٹر کی ایک ریلوے لائن قائم کی گئی ہے جس نے اگرتلہ اور کلکتہ کے1581 کلو میٹر کے 31 گھنٹوں میں طئے ہونے والے فاصلے کو10گھنٹوں میں گھٹادیا گیا ہے۔ اس ریلوے لائن کا تعلق آسام سے بھی ہے۔ جس کے چیف منسٹر ڈاکٹر ہیمنتا بسواس شرما ہیں جنہیں مسلمانوں سے سخت چڑ ہے۔ اس لائن سے آسام کا فاصلہ بھی462 کلو میٹر تک کم ہوجائے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت کے اس اقدام سے ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا ا ور بنگلہ دیش کی تجارت چٹو گرام کے سمندری راستے سے ہونے کے بجائے اس راستے سے سود مند ہوگی۔ اس کی تعمیر میں ہندوستان نے392.52 کروڑ روپے بنگلہ دیش کو دیئے ہیں۔ 2022ء میں ہندوستان سے بنگلہ دیش میں اناج ‘ چینی پیاز اور مکئی برآمد کی گئی ۔ ہند۔ بنگلہ دیش تجارتی تعلقات میں اس لائن سے اضافہ تو ہوگیا لیکن شمال مشرقی ہند کی ریاستوں کے تعلقات مینمار اور بنگلہ دیش سے بہتر نہیں ہیں ۔آسام اور تری پورہ میں بنگلہ دیشیوں اور مغربی بنگال کے رہنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ اڈوانی کے دور میں اس علاقے کے دو کروڑ بنگلہ دیشیوں کی غیر قانونی پناہ گاہ تصور کیا جاتا تھا۔ ایسی صورتحال میں اس لائن سے دونوں جانب عام ا ٓدمیوں کی آمدورفت کس طرح ممکن ہوسکے گی؟ جب کہ مودی حکومت اس علاقہ میں سیاحوں کی تعداد میں اضافے کا دعویٰ کیا ہے ۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش دونوں وزرائے اعظم میں تو قربت پائی جاتی ہے لیکن ان ممالک کے عوام میں کوئی تہذیبی ‘ تجارتی اور سیاحتی رابطہ قائم نہیں ہے۔ مینمار ‘ سری لنکا ‘ مالدیپ ‘ نیپال اور بھوٹان کے بعد بنگلہ دیش ہی ایک ایسا پڑوسی ملک ہے جو مودی حکومت کے نظریات اور ثقافتی امور کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ گزشتہ انتخابات کے وقت بنگلہ دیش کی عوام نے مودی کے دورے کی سخت مخالفت کی تھی۔ مذہبی اور سیاسی قائدین نے سخت احتجاج بھی کیا تھا ‘ حسینہ واجد کی حکومت نے ان لوگوں کی گرفتاری عمل میں لائی تھی ۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اور خود حسینہ واجد نے اس عوامی مخالفت کے باوجود بھی مودی حکومت کے ساتھ اپنی والہانہ قربت کا اظہار کیا تھا جس کے سبب دونوں ملکوں کی عوام میں ایک بے تعلقی و تنفر پیدا ہوگیا۔
حسینہ واجد نے اپنے مخالفین اور لیبر پارٹیوں کے خلاف مودی حکومت کے نقش قدم پر چل کر ہی بعض بدظن کردینے والی کارروائیاں کیں اور مودی ہی کی طرح 7جنوری2024ء کے عام انتخابات سے قبل تمام مخالفین کے خاتمے میں مصروف ہوگئیں۔ ان کی حکومت نے جو غیر انسانی اور سخت رویہ اختیار کررکھا ہے‘ عالمی سطح پر اس کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ حال ہی میں امریکی صدر بائیڈن نے سختی سے ان سے کہا ہے کہ وہ جنوری2024ء انتخابات سے قبل حزب مخالف کے قائدین کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند کردیں اور بنگلہ دیش میں جمہوری ماحول پیدا کریں۔ مگر مودی نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کرلی۔
بنگلہ دیش کی ہائیکورٹ نے9؍نومبر2023ء کو بنگلہ دیش کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگادی ہے۔ ہائیکورٹ کے وکلاء نے حسینہ واجد کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنوری2024ء کے چناؤ سے قبل ملک میں سیاسی کشیدگی پیدا کرنا چاہتی ہے۔ سب سے شرمناک بات تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش جیسے 170ملین مسلم آبادی کے ملک کی ہائیکورٹ نے2013ء میں جماعت اسلامی پر یہ کہہ کر پابندی لگادی تھی کہ وہ ملک کے سیکولر قوانین پر مبنی دستور کی خلاف ورزی کررہی ہے۔ 2014ء اور2018ء کے انتخابات لڑنے پر بھی پابندی لگادی گئی تھی۔ جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ میں ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست داخل کردی تھی مگر اس عدالت کے اس وقت کے جج عبدالرحمن نے اس کی یہ درخواست مسترد کردی۔
بنگلہ دیش کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ’’ بنگلہ دیش نیشنل پارٹی‘‘ (بی۔این۔پی) کے دو روزہ احتجاج میں ’’ بنگلہ دیش جماعت اسلامی‘‘ نے بھی حصہ لیا۔ حد تو یہ ہے کہ دو روز تک مسلسل سخت احتجاج کرنے والی حزب مخالف جماعتوں کے 139بڑے بڑے قائدین ‘ سرگرم لیڈران پر بھی عدالت نے مقدمہ عائد کردیا۔ ان پر یہ مضحکہ خیز الزام لگایا گیا کہ وہ پارلیمانی انتخابات سے قبل حسینہ واجد کی جانب سے منعقد اقدامات کی شدت سے مخالفت کررہے ہیں۔
بنگلہ دیش کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے مزید تین بڑے قائدین کو اس وقت پولیس نے حراست میں لے لیا جب انہوں نے حسینہ واجد کے ساتھ گفت و شنید کی درخواست کی تھی‘ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔
سیاسی جماعتوں اور مذہبی شخصیات کے علاوہ انہوں نے معاشی‘ تعلیمی ماہرین کو بھی نہیں چھوڑا ۔ سابقہ انتخابات میں انہوں نے بنگلہ دیش کے نوبل انعام یافتہ معاشی اور بینکی ماہر یونس صاحب کو بھی بہت ہراسیاں کردیا تھا۔ رواں سال انہوں نے کئی کمپنیوں کو بند ہوجانے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے اپنے فائدے اور اقتدار کی ہوس کو برقرار رکھنے کے لئے ملبوسات بنانے والی 3500 کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین ‘ مزدوروں کے روزگار کو تباہ کردیا‘ انہوں نے مزدوروں کے مطالبات کے خلاف ان کی مزدوری کی شرح کو56.25 فیصد تک بڑھادیا جب کہ ہر سال بنگلہ دیش کے مزدور55 بلین ڈالر کے ملبوسات تیار کرتے ہیں اور انہیں ہر ماہ8300 ٹکے (75ڈالر) کی مزدوری دی جاتی ہے۔ مزدوروں نے کمپنیوں کے منافع کے مطابق انہیں مزدوری میں تین گنا اضافے کا مطالبہ کیا تھا جو24,900 ٹکوں کے برابر ہوتا ہے۔ مگر کمپنیوں نے ان کی مزدوری میں صرف25فیصد اضافے کا اعلان کیا۔ اس ہتک آمیز اعلان سے مزدوروں میں تشدد پیدا ہوگیا ۔ پولیس نے 400 مزدوروں پر گولی چلادی جس میں ایک خاتون ورکر ماری گئی۔ پولیس کی اس بے رحمانہ حرکت سے 25ہزار مزدوروں نے ہڑتال شروع کردی اور پولیس پر بھی حملے کردیئے۔
حسینہ واجد نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے تنخواہوں میں تین گنا ا ضافے کے ان کے مطالبے کو سختی سے ٹھکرادیا جس سے ورکروں اور پولیس میں شدید تصادم ہوگیا اور فیکٹریوں کو تباہ کردیا گیا۔ حسینہ واجد نے ورکروں کی یونین سے بات چیت کرنے کے بجائے اپنی سیاسی جماعت عوامی لیگ کا ایک خصوصی اجلاس طلب کیا اور عین پارلیمانی انتخابات کی شروعات سے قبل مزدوروں کو دھکیاں دینی شروع کردیں۔ انہوں نے انہیں خوفزدہ کرنے کے لئے کہا کہ ’’اگر وہ کسی کے بھٹکانے پر گلی کوچوں میں ہڑتال کرنے لگیں گے تو ان کی ملازمتیں چلی جائیں گی‘ انہیں کام نہیں ملے گا‘‘ ۔ ان کے اس بیان یا دھمکی کے بارے میں ایک مزدور یونین کے لیڈر نے کہا کہ ان کے اس بیان سے انڈسٹریوں میں ڈر اور خوف کا ماحول پیدا ہوچکا ہے۔ سیکورٹی اداروں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ہڑتال کرنے والے مزدوروں کو زدوکوب کریں۔ 100 سے زائد یونین لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مودی حکومت کی طرح بنگلہ دیش کی حکومت نے دھمکی دی ہے کہ احتجاج یا مخالفت کرنے کی جرات کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انسانی حقوق کے ادارے (ہیومن رائٹس واچ) نے بتایا کہ بنگلہ دیش کی پولیس نے 10ہزار محنت کشوں کو حراست میں لے رکھا ہے۔ بنگلہ دیش کی سب سے معروف سیاسی جماعت بی ۔ این۔ پی کے ترجمان نے بتایا کہ اس کی جماعت کے5لاکھ کارکن مظالم کا شکار ہیں۔ بنگلہ دیش میں نہ کوئی سیاسی ‘ مذہبی ‘ لیبر لیڈر محفوظ ہے اور نہ مزدوروں کی کوئی یونین کام کرسکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں پارلیمانی انتخابات 7؍جنوری 2024ء کو ہوں گے ۔ حسینہ واجد ‘ مودی کی طرح چوتھی بار برسراقتدار ہونا چاہتی ہیں اور یہ اسی کام کی تیاری کررہی ہیں۔

a3w
a3w