حضرت قاضی سید شاہ غلام سرور بیابانی الرفاعی القادری (اول)
حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز کے فرزند حضرت قاضی سید شاہ غلام سرور بیابانی الرفاعی القادری(اول) رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز بتاریخ 27 ذی الحجہ 1258 ہجری مطابق 1843 ء میں موضع قاضی پیٹ میں تولد ہوئے۔ آپ کی والدہ محترمہ آپ کی پیدائش کے سات دن کے بعد ہی انتقال کرگئیں۔

سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی
موظف پرنسپل گورنمنٹ جونیر کالج ورنگل
حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز کے فرزند حضرت قاضی سید شاہ غلام سرور بیابانی الرفاعی القادری(اول) رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز بتاریخ 27 ذی الحجہ 1258 ہجری مطابق 1843 ء میں موضع قاضی پیٹ میں تولد ہوئے۔ آپ کی والدہ محترمہ آپ کی پیدائش کے سات دن کے بعد ہی انتقال کرگئیں۔ گیارہ سال کی عمر تک آپ اپنے نا نا حضرت میر قربان علی صاحب کلکٹر کریم نگر کے مکان میں پرورش پائے۔
آپ ابتدائی تعلیم مولوی عبد اللہ رفاعی صاحب اور اعلی تعلیم مولوی مفتی بدر الدین صاحب ، مولوی سرور شاہ صاحب اور مولوی شاہ علی مہاجر مدنی صاحب جیسے جیّد علماء دین وصوفیاء کرام سے حاصل فرمائی۔ شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل فرمائی۔ آپ کافی ذہین تھے۔ آپ نے سیکڑوں کتابوں کا مطالعہ کیا۔ آپ کے پاس زخیرہ الفاظ بہت زیادہ تھا۔ آپ وعظ میں عمدہ سے عمدہ الفاظ استعمال فرماتے۔ آپ اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں نمایاں تھے اور سلام میں پہل فرمایا کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی فرمایا کرتے۔
کسی کو نصیحت کرنی ہوتو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگان دین کے احوال سنا کر بڑی نرمی سے نصیحت کرتے تھے تاکہ سننے والے کا دل مجروح نہ ہو۔ دور دور کے رشتہ داروں کو بھی قریبی عزیز تصور کرتے اور ان کی مہمان نوازی کرتے۔ آپ نہایت ہی سادہ لباس کرتہ،لنگی پہنتے اور سر پر پیلے رنگ کے ململ کا عمامہ باندھتے اور کاندھے پر رومال ہوتا۔ آپ نے اپنے والد محترم کی خواہش پر اپنے ماموں حضرت میرتراب علی صاحب کی صاحبزادی سےصرف 13 سال کی عمر میں نکاح مسنونہ فرمایا۔
پہلی زوجہ محترمہ کے انتقال کے بعد 36 سال کی عمر میں دوسرا نکاح فرمایا اور ان کے انتقال کے بعد تیسرا نکاح 49 سال کی عمر میں فرمایا۔ آپ کو سات (7) صاحبزادے اور چھے(6) صاحبزادیاں تھیں جن سے آپ بے حد محبت کیا کرتے تھے۔ آپ بڑے صاحبزادے حضرت سید شاہ غلام افضل بیابانی رحمت اللہ علیہ کو بڑے حضرت میاں کہہ کر بلاتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ سخت بیمار ہوئے۔ آپ کے والد قدس سرہ سے یہ برداشت نہیں ہوا اور آپ کی صحت اور عمر کی درازی کے لئے سجدے میں سر رکھکر اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعاء فرمائی کہ آپکی عمر بیٹے کو لگ جاے۔
اللہ تعالی آپ کو صحت عطا فرمایا۔ اس واقعہ کے تقریبا چھ ماہ بعد آپ کے والد محترم کا انتقال ہوگیا۔ انتقال سے کچھ دیر پہلے آپ کو بلاکر اپنی زبان آپ کے منہ میں دیدی اور چوسنے کے لئے کہا۔ علم باطن اور ولایت کے اعلی درجات سے سرفراز فرمایا۔ اور فرمایا کہ میرا بیٹا میرے راستے پر ہے۔ چالیس سال کی عمر میں میری حالت پر پہنچیگا۔ آپ عبادت میں بڑے انہماک سے مصروف رہتے ، احسان کی کیفیت ہوتی۔ نماز میں قیام، رکوع ، سجدہ اور قائدہ کافی طویل ہوتے۔ بالعموم آپ وجدانی کیفیت میں ہوتے اور جذب کی حالت میں جنگلوں میں نکل جاتے تھے۔
آپ کے مرید آپ کو پھر گھر لے آتے۔ آپ بوڑہ گٹّہ پہاڑ (عقب قاضی پیٹ ریلوے جنکشن) پر ایک عرصہ تک مصروف عبادت رہے۔ آپ وہاں صلوۃ اسرار پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھکو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور میں نے آپ کی قدم بوسی کا بھی شرف حاصل کیا۔ آپ کے بھتیجے نے کہا کہ وہ خواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوکر اپنی لکھی ہوئی نعت سنائی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی تعریف میں اشعار لکھنے کی ہدایت فرمائی تو آپ کے بھتیجے نے یہ اشعار تحریر کئے:
سن لی جو سنائی جو عشرہ کی رات
سمجھونگا نہ ہرگز کہ یہ ہے بات کی بات
سب کچھ ہے میرے دل میں مگر اے سرور
حیران ہوں لکھوں آپ کی میں کون سی بات
ہے رتبہ سرور سے وہ سرور (ﷺ) آگاہ
جو قریب ہے داور سے داور آگاہ
ہوتے ہیں جو مقبول خدا اے توفیق
اس شان کے ہوتے ہیں وہ ماشآء اللہ
آپ اکثر حیدرآباد میں تشریف فرما ہوتے تو مریدین اور عقید تمندان کثیر تعداد میں جمع ہوتے۔ لوگوں کو تعجب ہوتا کہ اس قدر لوگ کیسے جمع ہوتے ہیں ۔ دراصل مقبولیت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے کوشش سے کچھ نہیں ہوتا۔ بحیثیت ایک جیّد عالم دین، مفتی، صوفی بزرگ آپ کافی مشہور تھے۔ آپ کی دعاء بہت جلد قبول ہوتی تھی۔ اس لئے آپ سے مشائخ، علماء دین اور عام لوگ کثیر تعداد میں آتے اور فیض پاتے تھے۔ علماء دین سے علمی مذاکرے بھی ہوتے تھے۔ آپ علماء دین اور صالحین کی کافی قدر کرتے اور نوابوں اور عہدے داروں سے عام لوگوں کی طرح سے ملتے۔
جب شیخ الاسلام حضرت انوار اللہ خان صاحب فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ آپ سے ملنے آئے تو آپ نے ان کا استقبال کیا اور اپنے بازو میں بیٹھنے کی جگہ دی۔ اور جب رخصت ہونے لگے تو ان کو سواری تک پہنچایا۔ چونکہ آپ نہ صرف حیدر آباد دکن میں ہی نہیں بلکہ تمام ہندوستان میں مشہور و معروف تھے اس لئے کافی لوگ آپ کے پاس فیض پانے آتے اور آپ کی خانقاہ شریف میں ٹہر جاتے اور بعض لوگ آپکے پاس مہینوں رہکر فیض یاب ہوتے۔
ان کے رہنے اور کھانے کا انتظام خانقاہ شریف میں ہوتا۔ ان کے علاوہ قریبی اور دور کے رشتہ دار بھی کافی جمع ہوتے تھے۔ ان سب کے کھانے رہنے کا انتظام آپ خود فرماتے۔ چونکہ ان ہی دنوں قاضی پیٹ ریلوے اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا تھا ریل کی سہولت ہونے سے کافی لوگ اس سہولت کا استفادہ کرتے ہوئے تشریف لایا کرتے تھے۔ سماع سے آپ کو بہت رغبت تھی۔ آپ سماع میں کافی محویت سے بہت دیر تک تشریف فرما ہوتے۔ دوران سماع آ پ کی آنکھوں سے اشک مسلسل رواں ہوتے۔ آپ نہایت درجہ کے صابر تھے۔
ایک دن آصف جاہی خاندان کی جانب سے درگاہ شریف میں نیایز مقرر تھی۔ اسی دن آ پ کے جوان سال اور چہیتے فرزند حضرت امین بیابانی رحمت اللہ علیہ کا انتقال ہوا۔ یہ خبر سن کر نواب افسر الملک بہادر ، آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر نیاز شریف ملتوی کرنے کی اطلاع دی جسے آپ نے منظور نہ کیا اور نیاز ادا کرنے کی ہدایت فرمائی۔ مرزا عظیم بیگ نے کہا کہ ایک دفعہ آپ صحن درگاہ شریف میں مولسری کے جھاڑ کے نیچے تشریف فرما تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ یکا یک آپ آسمان کی طرف دیکھنے لگے ۔
آپ کے چہرے کے اطراف ایک نور کا ہالہ سا بن گیا اور وہ بڑھتے بڑھتے پورے جسم پر محیط ہوگیا۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ کیفیت ختم ہوگئی۔ آپ نے درگاہ شریف کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ یہ سب انہی کا طفیل ہے۔ حیدر آباد میں حضرت درویش محی الدین قادری رحمت اللہ علیہ کی بھاوج منجھلی بی طاعون کے عارضہ میں مبتلاء ہوئیں تو ان کو بجائے کسی ڈاکٹر کے پاس لیجانے کے درگاہ شریف قاضی پیٹ آپ کے پاس لایا گیا۔ دوسرے روز صبح 8 بجے بغل میں تکلیف اور حرارت معلوم ہوئی اور بخار کی شدت سے بے ہوشی طاری ہوئی۔ حضرت درویش محی الدین قادری رحمت اللہ علیہ (جو آپ ہی کے داماد تھے) نے آپ سے کہا کہ میں آپ کے بھروسے مریضہ کو حیدر آباد سے یہاں لایا ہوں ۔ آپ کے پاس لانے کے بعد کسی ڈاکٹر کو حیدر آباد سے لاکر بتانا بڑی معیوب بات ہوگی۔
جب تک مریضہ صحت مند نہیں ہوجاتیں میں آپ کو گھر جانے نہ دونگا۔ آپ کو اسطرح سے مخاطب کرنا ٹھیک نہیں لگا اور آپ نے اللہ اللہ کہکر وہیں تشریف فرما ہوگئے۔ آپ وہیں بیٹھے مراقبہ کرنے لگے۔ اس پر حضرت درویش محی الدین قادری رحمت اللہ علیہ نے کہا کہ آپ آرام کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نہیں سورہا ہوں۔ در اصل آپ مریضہ کی صحت کے لئے دعاء میں مشغول تھے۔ گیارہ بجے مریضہ کو صحت ہوگئی۔ آپ نے مریضہ کے ہوش میں آنے کے بعد کیفیت دریافت فرما کر رخصت ہوئے۔ آپ جب بیمار ہوئے تو آپ کا علاج حکیم سید احمد، حکیم وحید الدین اور شاہی حکیم رحمت اللہ خان صاحبین نے تقریباً چھ مہنے تک آپ کا علاج کئے۔
جب حالت کافی تشویش ناک ہوگئی تو آپ جاگیر کے مکان سے درگاہ شریف کے احاطہ میں مکان میں منتقل ہوگئے۔ اس دوران سینکڑوں افراد آپ کے مرید ہوئے اور ہزار ہا لوگ آپکی مزاج پرسی کے لئے دور دور سے تشریف لاتے رہے۔ حضرت درویش محی الدین قادری رحمت اللہ علیہ بھی ان ہی دنوں آپ کے لعاب لگی ہوئی مصری کھا کر حلقہ ارادتمندان میں شامل ہوئے۔ بتاریخ 21 صفر المظفر 1331 ہجری مطابق 1913 ء بروز چہار شنبہ بعد مغرب بمقام درگاہ شریف قاضی پیٹ آپکا بعمر 73 سال انتقال پرملال ہوا ۔ آ پ کو آپ کے والد محترم کے پائنتی آپ کے مکان کی جگہ ہی سپرد لحد کیا گیا۔ آپ تقریبا” 58 سال سجادہ نشین و متولی کے عہدے پر فائز رہے۔
آپ کے پر پوترے حضرت قاضی سید شاہ غلام افضل بیابانی خسرو پاشاہ صاحب قبلہ مد ظلہ العلی فاضل جامعہ نظامیہ موجودہ سجادہ نشین و متولی بھی روزآنہ لنگر کا انتظام کرتے ہیں جس میں یتیم ، بیوائیں، غریب، نادار ، مسافر لوگ کھانا کھاتے ہیں۔ آپ نے سلسلہ بیابانیہ کی روایتوں کو قائم رکھا ہے۔ ہر جمعرات کو درگاہ شریف میں خدمت انجام دیتے ہیں طریقی شجرہ پڑھا جاتا ہے، ذکر کلمہ طیبہ ہوتا ہے۔
سلام کا نذرانہ ادا کیا جاتا ہے۔ محفل سماع منعقد ہوتی ہے۔ احاطہ درگاہ شریف میں حفظ قرآن شریف کا مدرسہ قائم ہے طلباء کے لئے رہنے اور کھانے کا انتظام مفت ہے۔ اکثر یہاں مفت طبّی کیمپ منعقد ہوتا ہے اور مریضوں کو دوائیں مفت دی جاتی ہیں۔ خصوصاً کرونا وباء کے دوران متاثرہ لوگوں کو بلا لحاظ مذہب و ملّت مفت ادویات دی گئیں۔ ہر سال 12 ربیع الاول کو سرکاری دواخانوں میں مریضوں کو میوہ جات حضرت سید شاہ محمد بختیار بیابانی صاحب ،جا نشین سجادہ نشین کی جانب سے تقسیم کئے جاتے ہیں۔
٭٭٭