ڈاکٹر محمد صفوان صفوی
گزشتہ دنوں فرقہ پرست حکمراں جماعت نے تاریخ کے نصاب میں ترمیم و تنسیخ کرکے ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی جو مذموم اور ناپاک کوشش کی ہے وہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے۔اگرچہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ان لوگوں سے پہلے بھی اس قسم کی حرکتیں ہوتی رہی ہیں لیکن اب کی معاملہ ذرا زیادہ سنگین ہے کیوں کہ یہ حقائق کی پردہ پوشی کا معاملہ ہے۔ اب سے پہلے ملک کے مختلف مقامات اور اسٹیشنوں کے ناموں اور دلی کے مشہور مغل گارڈن کے نام تبدیل کرنے سے ان کے ناپاک عزائم بالکل طشت از بام ہوچکے ہیں اور اب تاریخ کی کتاب میں تبدیلی کرنا اور اس کی جگہ خودساختہ تاریخ کو داخل کرنا کوئی معمولی جرم نہیں ہے ۔آخر اردو اور مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے ناموں کو ہی کیوں تبدیل کیا جاتا ہے۔صاف ظاہر ہے کہ وہ ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کرنا اور مسلمانوں کے کارناموں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں اور ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ملک ان کے آبا و اجداد کی جاگیر ہے ،وہ جو چاہیں کریں، ہمیں یہاں رہنا ہے تو ان کے رحم و کرم پر رہنا ہوگا۔ لیکن اب پانی سر کے اوپر ہوچکا ہے۔ اہلِ علم اور ذی شعور طبقے کی طرف سے اس پر سخت احتجاج شروع ہوگیا ہے لیکن اب صرف احتجاج سے کام چلنے والا نہیں ہے بلکہ اس قسم کی نازیبا حرکتوں پر قدغن لگایا جانا چاہیے ورنہ یہ اور دِلیر ہوجائیں گے اور یہ سلسلہ مستقل جاری رہے گا۔مانتا ہوں کہ ان کی ان حرکتوں سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے، ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کی حیثیت کوئی پانی پر بنائے ہوئے نقش کی سی نہیں ہے، لیکن اس قسم کی چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزیوں سے ملک کی اتنی بڑی اقلیتی جماعت کو مسلسل پریشان کیا جانا کوئی معمولی گستاخی نہیں ہے جسے معاف کردیا جائے اور اس کا کوئی نوٹِس نہیں لیا جائے۔ ایسے لوگوں کو سبق سکھانا بہت ضروری ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ہو رہا ہو بلکہ برسوں کے نا آسودہ خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہوں کیوں کہ جس دن سے ان کو ایوان میں اکثریت حاصل ہوئی ہے اسی دن سے اس قسم کی حرکتیں ہو رہی ہیں اور دن بدن ان میں اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے۔بابری مسجد قضیہ اور کشمیر کے معاملے کو دیکھ لیجئے ان کا ہر کام ایسا ہوتا ہے جو مسلم اقلیت کے دانت میں درد پیدا کردے۔ایک دو معاملوں میں ان کی فوری کامیابی نے انھیں مغرور بھی بنا دیا ہے اور اب وہ زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ یہ سب کر رہے ہیں، وہ شاید یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کی تبدیلی سے وہ مستقبل کے ہندوستان کی تصویر بدل سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو چند سالوں کے بعد ہندوستان یا تو ہندو راج ہوگا یا یہاں کی دوسری اقلیتیں ان کی تہذیبی غلام ہوجائیں گی اور ملک میں جابجا بکھرے ہوئے مسلم کلچر کے نقوش مدّھم پڑجائیں گے۔استغفر اللہ۔ایں خیالست و محالست وجنوں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ان کے خواب ، خواب ہی رہیں گے حقیقت نہیں ہوسکتے۔نہ ہندوستان کی تاریخ کو اب افسانہ بنایا جاسکتا ہے اور نہ مسلمانوں کے آثار ہی مٹائے جاسکتے ہیں۔ کیا گاندھی جی کے قتل کے بعد آرایس ایس پر لگی پابندی یا مغلیہ حکومت کے متعلق چند حقائق پر پردہ ڈال دینے سے ان دونوں کے کِردار بدل جائیں گے۔ کیا آنے والی نسل کو اس بات کا پتا نہیں لگ سکے گا کہ مودی جی اور ان کی پارٹی کا آر ایس ایس سے کیا رشتہ ہے اور ماضی میں اس کا کیا کردار رہا ہے۔اور پھر اس سلسلے میں یہ عذرِ لنگ پیش کیا جارہا ہے کہ یہ سب کرونا کی وبا کے بعد بچوں پر کورس کے دباﺅ کو کم کرنے کے لیے کیا جارہا ہے اسی کو کہتے ہیں عذر گناہ بدتر از گناہ۔ غور کیجئے کتنی اچھی وجہ بتاکر کتنا غلط کام کیا جارہا ہے اور کس دیدہ دلیری سے۔ یہ سب شاید اس انتقامی جذبے سے بھی کیا جارہا ہو کہ ان کے اقتدار میں مسلمانوں کا کوئی حصہ کیوں نہیں ہے۔ مسلمان انہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے، لیکن کیا کسی حکمراں جماعت کو اس کا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی مخصوص جماعت کی اذیت رسانی پر محض اس لیے مستعد رہے کہ اس نے اس کو ووٹ نہیں دیا ہے۔کیا ہندوستان میں جمہوریت اور آزادیِ رائے کی موت ہوچکی ہے کہ لوگ مقتدر جماعت کی جانب سے اس طرح کی خفیف الحرکاتیاں کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں، پھر بھی کچھ نہ کہیں۔تفو برتو اے چرخِ گرداں تفو !
عام طور پر اس طرح کے موقعوں پر ہم صرف ہنگامہ کرکے رہ جاتے ہیں اور مدّ مقابل اپنی مکر کی چالوں سے ہمیں مات دے جاتا ہے۔ اس لیے ہمارا مقصد صرف ہنگامہ کھڑا کرنا نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حقائق اکٹھے کرنے اور مناسب تدبیر اختیار کرنے سے ہی حل نکل سکتا ہے۔ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ تاریخ کے کن کن حصوں کو باہر نکالا گیا ہے اور اس کے درپردہ ان کے عزائم کیا تھے، ان کی بازیابی کی کیا صورت ہوسکتی ہے اور کن تدبیروں سے ان کی چالوں کو ناکام بنایا جاسکتا ہے۔اگر یہ نہیں کیا گیا تو محض ہنگامہ آرائی سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔اور یہ ہماری ایک اور شکست ہوگی۔