مذہب

خصائص رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تمام انبیاء ورسل اللہ رب العزت کی بارگاہ سے منتخب حضرات ہوتے ہیں، وہ سب سے اعلیٰ وافضل ، بلند وبالا منصب پر فائز ہیں، وہ احکام خداوندی کو اللہ کے بندوں تک پوری دیانتداری کے ساتھ پہنچاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ انکو اپنے بندوں میں انفرادی شان عطا کرتا ہے اور اپنے مخصوص اعزازات وکمالات سے نوازتا ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

تمام انبیاء ورسل اللہ رب العزت کی بارگاہ سے منتخب حضرات ہوتے ہیں، وہ سب سے اعلیٰ وافضل ، بلند وبالا منصب پر فائز ہیں، وہ احکام خداوندی کو اللہ کے بندوں تک پوری دیانتداری کے ساتھ پہنچاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ انکو اپنے بندوں میں انفرادی شان عطا کرتا ہے اور اپنے مخصوص اعزازات وکمالات سے نوازتا ہے۔ ہر نبی ورسول اپنی خصوصی اوصاف وخصائص کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے ممتاز قرار پاتے ہیں۔ ہمارے نبی آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو سب سے زیادہ خصائص اور کمالات عطا ہوئے، آپؐ رسولوں کے سردار ہیں، سب سے پہلے شافع محشر ہونگے، سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے، آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ آپ تمام مخلوق کے لئے سراپا رحمت ہیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے آپؐ کو بعض ایسے کمالات وخصائص عطا کئے جو دوسرے کسی نبی ورسول کے حصہ میں نہیں آئے، مختلف مواقع پر آپؐنے بعض خصائص ، فضائل اور کمالات کا بطور تحدیت نعمت اظہار بھی فرمایا، چناچہ ایک موقع پر آپؐ نے چھ خصائص کا ـذکر کیا، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم قال فضلت علی الأنبیآء بست: أعطیت جوامع الکلم، ونصرت بالرعب، واحلت لی الغنائم، وجعلت لی الأرض طھورا ومسجدا، وارسلت الی الخلق کافۃ، وختم بی النبیون (مسلم، مسند احمد، ترمذی)

حضور ختمی مرتبت ؐ نے فرمایا کہ مجھے دوسرے نبیوں پر چھ چیزوں کی وجہ سے فضیلت عطا ہوئی۔ مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے۔ میری مدد رعب کے ذریعہ فرمائی گئی اور اموالِ غنیمت میرے لئے جائز قرار دئیے گئے، ساری زمین میری خاطر پاک کردی گئی اور سجدہ گاہ بنادی گئی۔ مجھے ساری اولادِآدم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا اور میرے بعد انبیاء کو بھیجنے کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ۔

پہلی چیز ’جوامع الکلم‘ یعنی جامع کلمات (مختصر الفاظ میں ڈھیر سارے معانی کو سمیٹنے کی صلاحیت)۔ اللہ رب العزت نے آپ کو سمندر کو کوزے میں بھرنے کا ایسا جوہر عطا فرمایا تھا کہ جب آپؐ لوگوں سے گفتگو فرماتے تو الفاظ میں ایسی جامعیت اور معنویت ہوتی کہ سامعین کے دلوں کو موہ لیتے۔ آپؐ کی گفتگو سے علم وحکمت ودانائی کے چشمے پھوٹ پڑتے ، آپ کا کلام بلاغت وفصاحت کے اعلیٰ معیار کا آئینہ دار ہوتا۔ مثلاً المؤمن مرآۃ المؤمن ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہے۔ لایلدغ المؤمن من جحر مرتین مومن کبھی ایک سوراخ سے دومرتبہ نہیں ڈساجاتا۔ (یعنی دومرتبہ دھوکا نہیں کھاتا) ۔ من لایرحم لایرحم: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیںکیا جاتا۔

دوسری چیز’ نصرت بالرعب‘ یعنی اللہ نے میرا رعب لوگوں کے دلوں میں ڈالا، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ رعب ودبدبہ نصرت الٰہی ہی کی ایک صورت تھی: عن علي ؓ قال: من رآہ بداھۃ ھابہ (ترمذی) جو شخص اچانک سرکارؐ کے سامنے آجاتا وہ مرعوب ہو جاتا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ؐ کے ساتھ نجد کی طرف ایک جنگ میں شریک تھے۔ ہم نے آپؐ کو یک وادی میں پایا، جہاں کانٹے دار درخت بہت تھے، آپؐ ایک سایہ دار درخت کے نیچے تشریف لے گئے، اپنی تلوار مبارک ایک شاخ سے لٹکادی، تمام لوگ وادی میں جدا جدا پھیل گئے۔ اس جگہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:

ان رجلا اتانی وانا نائم فاخذ السیف فاستیقظت وھو قائم علی رأسی فلم اشعر الا والسیف صلتاً في یدہ فقال لي: من یمنعک مني؟ قال: قلت: اللہ، ثم قال فی الثانیۃ: من یمنعک مني؟ قال: قلت: اللہ، قال: فشام السیف فھا ھو ذا جالس، ثم لم یعرض لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم)

ایک شخص میرے پاس آیااس حال میں کہ میں سو رہا تھا، اس نے تلوارہاتھ میں لے لی، میں جاگ گیا تو وہ میرے سر پر کھڑا تھا، مجھے اس وقت خبر ہوئی جب اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار آگئی وہ بولا اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے، میں نے کہا: اللہ! پھر دوسری بار اس نے یہی کہا میں نے کہا: اللہ! یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کرلی، دیکھو یہ وہی شخص ہے جو بیٹھا ہوا ہے پھر رسول اللہ ؐ نے اس سے کچھ تعرض نہ فرمایا۔ رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا رعب مشرکین پر اسطرح چھایا ہوا تھا کہ وہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تھے۔ بڑے بڑے بادشاہ آپؐ کے خطوط لے جانے والے قاصدین کی خوف کے مارے عزت کیا کرتے تھے۔

تیسری چیز ’احلت لي الغنائم‘ یعنی مالِ غنیمت اس امت کے لئے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حلال کردیا پچھلی امتوں کیلئے اموالِ غنیمت حلال نہیں تھا، دشمنانِ اسلام سے جنگ کے بعد حاصل شدہ مال امتِ محمدیہ کے لئے اللہ نے حلال قرار دیا اور دیگر انبیاء علیھم السلام کی امتوں کے لئے حلال نہیں تھا اس مال کو پہاڑ پر رکھ دیا جاتا تھا، آگ آتی اور اس مال کو جلادیتی تھی ، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: لَّوْلاَ کِتَابٌ مِّنَ اللّہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۶۸) فَکُلُواْ مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَیِّباً(سورہ انفال)اگر اللہ کی طرف سے پہلے ہی (معافی کا حکم) لکھا ہوا نہ ہوتا تو یقینا تم کو اس (مالِ فدیہ کے بارے) میںجو تم نے (بدر کے قیدیوں سے) حاصل کیا تھا۔ بڑا عذاب پہنچتا، سو تم اس میں سے کھائو جو حلال پاکیزہ مالِ غنیمت تم نے پایا ہے۔

چوتھی چیز ’وجعلت لی الارض طھوراًو مسجداً‘ یعنی ساری زمین میری خاطر پاک کردی گئی اورسجدہ گاہ بنادی گئی۔ امتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں کہیں بھی ہو اگر نماز کا وقت آجائے اور وہ پاک زمین پر نماز ادا کرلے گی تو نماز ادا ہوجائے گی، سابقہ امتوں کے لئے یہ سہولت اور رعایت نہیں تھی بلکہ ان کو عبادت کیلئے مخصوص عبادت خانوں میں ہی عبادت کرنا شرط تھا، اگر عبادت خانوں کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت کی جائے تو مقبول نہ ہوتی تھی۔

پانچویں چیز’ ارسلت الی الخلق کافۃ‘ یعنی مجھے ساری اولادِ آدم کی طرف رسول بناکر بھیجاگیا۔ سابق میں جتنے انبیاء ورسل علیہم السلام تشریف لائے وہ کسی خاص علاقہ ، خاص زمانہ یاخاص قوم کے لئے آتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کل جہانوں کے لئے سراپا رحمت اور رسول بن کر آئے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَنَذِیْراً(سورہ سبا) اور (اے رسول) ہم نے آپؐ کو تمام لوگوں کے لئے خوشخبری سنانے والا اور (اعمالِ بد سے) ڈرانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ حضورؐ کو کل جہانوں اور کل زمانوں کے لئے مبعوث فرمایا گیا، آپؐ سلسلہ انبیاء کو ختم کرنے والے رسول ہیں۔ حضور ؐ کا ارشادِ گرامی ہے: کان کل نبی یبعث الی قومہ خاصۃ وبعثت الی کل أحمر وأسود (مسلم) ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے جاتے تھے۔ مجھے سرخ وسیاہ تمام کی طرف مبعوث کیا گیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ نبی محتشم ؐ نے فرمایا: وکان النبي یبعث الی قومہ خاصۃ وبعثت الی الناس عامۃ (بخاری) مجھ سے پہلے ہر بنی خاص قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے۔ ’’ مسلم کا محمدعربی ؐ یہ اجارہ تو نہیں‘‘ کا تصور اسی لئے غیر مسلموں کے ذہنوں میں جاگزیں ہوا کہ حضورؐ تو تمام انسانوں کی رہنمائی کے لئے معبوث ہوئے ہیں۔ ان کی رحمت کا دائرہ صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کی رحمت کا دائرہ تو تمام انسانوں پر محیط ہے، انسان توانسان جانور تک بھی رحمت کے اس دائرہ سے باہر نہیں۔

چھٹی چیز ’وختم بي النبیون‘ یعنی میرے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ حضورؐ کی ختم نبوت کا ذکر قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں نہایت ہی جامع انداز میں کیا گیا، ارشاد خداوندی ہے: مَّا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِکُمْ وَلَکِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ (سورہ احزاب) محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں (یعنی ان پر سلسلہ نبوت ختم کردیا گیا) اور اللہ سب چیزوں کا جاننے والا ہے۔ آیت مذکورہ میں حضور ؐ کے آخری بنی ہونے کا اعلان کیا جارہا ہے اب حشر تک کوئی بھی منصبِ رسالت پر جلوہ افروز نہیں ہوگا۔ یہی عقیدہ روحِ اسلام ہے، یہی عقیدہ عظمتِ رسول ؐ کا آئینہ دار ہے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں: حضورؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ : ان مثلي ومثل الأنبیاء من قبلي کمثل رجل بنی بیتا فأحسنہ وأجملہ الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون: ھلا وضعت ھذہ اللبنۃ؟ قال: فأنا اللبنۃ، وأنا خاتم النبیین (بخاری، مسلم) گزشتہ انبیاء ورسل کے مقابلے میں میری مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک خوبصورت مکان تعمیر کیا اور اسے اچھی طرح سے سجایا، لیکن مکان کے کسی حصے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس مکان کو دیکھنے آئے اور اس کی خوبصورتی کی داد دینے لگے اور دریافت کیا کہ یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی؟ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: پس میں وہی اینٹ ہوں اور سلسلہ انبیاء کا اختتام کرنے والا ہوں۔حضرت جبیر بن مطعم ؓسے مروی ہے کہ تاجدارِ کائنات ؐ نے فرمایا: أنا محمد وأنا أحمد وأنا الماحي الذی یمحی بی الکفر وأنا الحاشر الذی الذی یحشر الناس علٰی عقبي وأنا العاقب الذی لیس بعدہ نبي۔(بخاری) میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ہی ماحی ہوں، ربِ کائنات نے میرے ذریعے کفر کو مٹایا، میں حاشر ہوں کہ لوگ روزِ محشر میرے بعد ہی قبروں سے اٹھائے جائیں گے، میں عاقب ہوں (عاقب کا مطلب ہے کہ) جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: انہ سیکون فی امتي ثلاثون کذابون کلھم یزعم انہ نبي وأنا خاتم النبیین لا نبي بعدی(ترمذی) میری امت میں ۳۰ اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہ بھی خصائصِ نبوی میں شامل ہے کہ حالتِ نماز میںاگر حضور ؐ کسی کو آواز دیں اور وہ حالتِ نماز میں آپؐ کا حکم بجالائے تو اس کی نماز میں خلل واقع نہیں ہوتا اور اسے نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں رہتی، حضرت ابو سعید ؓ بن المعلی روایت کرتے ہیں وہ نماز ادا کررہے تھے کہ آقا علیہ السلام نے انہیں آواز دی، وہ نماز ادا کرکے حاضرِ خدمت ہوئے تو تاجدارِ کائنات ؐ نے فرمایا: ما منعک ان تاتي؟ الم یقل اللہ :یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَجِیْبُواْ لِلّہِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُم(بخاری)مجھے جواب دینے سے تمہیں کس چیز نے روکا؟ (میں عرض پرداز ہوا کہ میں نماز پڑھ رہاتھا، فرمایا) کیا تم نے اللہ کا فرمان نہیں پڑھا(اے ایمان والو! جب (بھی) رسول تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتے ہیں تو اللہ اور رسول کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضرِ خدمت ہوجایا کرو۔

حضورؐ نبی بے مثال ہیں، ان کی ہمسری یا برابری کا تصور بھی کفر ہے، نہ کوئی حضورؐ کے مثل تھا، نہ کوئی ہے اور نہ آئندہ کوئی ہوگا۔ اگر کوئی شخص بیٹھ کر نوافل ادا کرے تو وہ آدھے ثواب کا مستحق ہوگا، لیکن حضورؐ کا بیٹھ کر نوافل ادا کرنا کھڑے ہوکر نوافل ادا کرنے کے برابر ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ بیٹھ کر نماز پڑھنا آدھی نماز کے برابر ثواب رکھتا ہے، لیکن میں نے دیکھا کہ ایک دن حضورؐ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے، مجھے اس پر حیرت ہوئی، آپؐ نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا: عبداللہ ابن عمرو ؓ مجھے بیٹھ کر نماز پڑھتے دیکھ کر تم حیرت میں کیوں پڑگئے؟ میں نے عرض کیا کہ آپؐ کا ارشادِ پاک ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنا آدھی نماز کے برابر ثواب رکھتا ہے جبکہ آپؐ بیٹھ کر نماز ادا فرمارہے تھے، آپؐ نے فرمایا: اجل ولکنی لست کاحد منکم (مسلم، ابوداود) تم نے ٹھیک سنا ہے لیکن میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں۔

بارگاہِ ایزدی میں دعاء ہے کہ وہ تمام اہل اسلام کے قلوب کو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی محبت سے سرشار فرمائے۔ آمین بجاہ طہ ویاسین۔
٭٭٭

a3w
a3w