طنز و مزاحمضامین

دادا گیری

قیوم بدر

۸ جنوری ۲۰۱۸ ءکی شام حمزہ ہماری زندگی میں ایسے آیا
ع جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
اور میں ” دادا“ بن گیا اور اسی دن سے ”دادا گیری “ کررہا ہوں ۔
۸ جنوری ہمارے لئے اس معنیٰ میں بھی اہم دن ہے کہ بیس (۲۰) برس قبل اسی تاریخ کو میں شفقت ِ پدری محروم ہوا تھا بیس برس بعد اسی تاریخ کو ” حمزہ جاوید “ کی شکل میں اللہ نے مجھے پوتے سے نوازا جس سے گھر میں رونق ہے ۔
حمزہ دیکھتے دیکھتے تین برس کا ہو گیا اب برملا مجھے دادا کہتا ہے جس سے یقینی احساس ہوتا ہے کہ میں ” دادا “ ہوں ادب میں بھی۔
دادا بننے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ شرفاءہوں یا ” دادا“ سب کی الگ اہمیت ہے ۔
گھر کے افراد عام طور پر بوڑھوں کو غیر ضروری اور بے مصرف چیز سمجھ کر بچوں کو ان کے حوالے کرکے بری ہو جاتے ہیں۔ ظاہر ہے میری حیثیت اس سے الگ نہیں۔ ایسے میں پوتے کو لے کر باہر نکل جا نے ہی میں عافیت ہے لیکن اس میں ایک خطرہ ہے کہ عموماً دوست یار یا کوئی شناسا یہ کہہ کر مجھے نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا کہ آپ جیسے ادیب کو یہ زیب نہیں دیتا یہ آپ کیا کرہے ہیں !
داد گیری کرہا ہوں یہ کہہ کر اپنی پوزیشن بچانے کی کو شش کرتا ہوں
ایک دن مشہور شاعر احمد کمال حشمی سے ملنے کی خاطر گیا۔ ساتھ میں میرا بیٹا جاوید اور پوتا حمزہ بھی تھا میں نے کمال کو مخاطب کرکے کہا کمال صاحب اب آپ کا بچنا محال ہے ۔
یہ سہ طرفہ حملہ ہے ماضی ، حال اور مستقبل
میرا جملہ سن کر کمال مسکرا کر رہ گئے۔
اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیںکہ زندگی کا جو بھی شعبہ ہو ڈگری خصوصاًعہدہ اور دولت کی اہمیت مسلم ہے اور ان تینوں نعمتوں سے کوسوں دور ہوں تا ہم زندگی کے کچھ شعبوںمیں اللہ نے یقینا تو قیر بخشی ہے خصوصاًادب میں جو بہتوں سے ہضم نہیں ہوتا، ایسے میں ” دادا“ بن جانا الگ اعزاز کی بات ہے ۔
میرے ایک دیرینہ دوست ڈگری، عہدہ اور دولت میں مجھ سے بہت آگے ہیں۔ اب تو قرطاس و قلم سے بھی جڑ گئے ہیں چنانچہ ہم جیسوں کو تو خاطر ہی میںنہیں لاتے۔ ایک دن صبح کو چہل قدمی کے دوران ملاقات ہو گئی۔ ان کی گود میں دختر زادہ اور میری گود میں پسر زادہ تھا۔ ان کے ساتھ ہمارا ایک مشترکہ دوست صابرعلی بھی تھا میں نے صابر کو مخاطب کر کے کہا
اُدھر ناتی ، اِدھر پوتا تا لی ہو ، تالی ہو
میری بات سن کر موصوف بغلیں جھانکنے لگے ۔
میرے دل میں خیال آیا کہ انہیں ندافاضلی کا یہ شعر سنادوں کہ :
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں توکہیں آسماں نہیں ملتا
بہر کیف ! خوشی تو اس وقت بھی ہوئی تھی جب دختر زادہ اسد اقبال ، انیس اقبال اور شاہد اسلام مجھے نانا کہہ کر پکارنے لگے تھے اور یہ بھی کم اعزاز کی بات نہیں تاہم اس میں کچھ کمی کا احساس ہوتا ہے کہ اس میں انکار کی کیفیت مضمر ہے نا نا یعنی نہیں نہیں ! ایسے میں حمزہ دادا کہتا ہے تو سر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے میں ” دادا “ ہوں ۔
زندگی پانچ خانوں میں بٹی ہو ئی ہے۔ بچپن ، لڑکپن ، نو جوانی ، جوانی اور بڑھاپا سب کا اپنا رنگ انداز ہے، لیکن بچپن کی بات ہی الگ ہے۔ زندگی کا اصل لطف بچپن ہی میں دیکھنے کو ملتا ہے جسے یاد کرکے بڑھاپے میں عموماً آدمی کو رونا پڑتا ہے کہ
کوئی لوٹا دے مرے بیتے ہو ئے دن
لیکن یہ توقانونِ فطرت ہے کہ زندگی کے سفر میں جو دن گزر جاتے ہیں وہ پھر نہیں آتے۔۔۔۔۔۔۔ بڑھاپا اس معنیٰ میں سب سے درد ناک دور ہے کہ آدمی بھیڑمیں رہتے ہوئے بھی تنہا محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں بچے خصوصاًناتے پو تے غنیمت ہیں کہ ان کے بچپنے میں ہم اپنا بچپن تلاش کر لیتے ہیں۔ ان کی توتلی زبان ، ان کا چلبلا پن ، ان کی حرکات و سکنات ان کی معصوم شرارتوں میں ہم یقینی اس زمانے کو پا لیتے ہیں جس کی خاطر آخری دنوں میں ہمیں آنسو بہانا پڑتے ہیں۔ ایسے میں جب میرا پوتا حمزہ ” دادا“ کہتا ہے تو یقینی برتری کا احساس ہو تا ہے، لیکن جونہی حکم دیتا ہے کہ دادا گھوڑا بن جائیے تو اس کے حکم کی تعمیل میں مجھے گھوڑا بننا پڑتا ہے اور وہ شان سے میری پیٹھ پر چڑھ کر بالوں کو پکڑ کر کھنچتا ہے چل گھوڑا چل ۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میری تمام ”دادا گیری “ ہوا ہو جا تی ہے۔ تا ہم یہ غنیمت ہے کہ بچپن میں مولوی صاحب نے مجھے مرغا بنایا جوانی میں گدھا بننا پڑا ۔ شکر ہے کہ حمزہ مرغا یا گدھا نہیں بناتا اپنی آسانی کی خاطر گھوڑا بنا کر خوش ہو لیتا ہے ۔٭٭

a3w
a3w