حیدرآباد

درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اراضیات کے تعلق سے واضح تیقن دیا جائے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد

مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے الزام لگایا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں جس بڑے پیمانہ پر وقف جائیدادوں کی تباہی ہوئی ہے اور اربوں روپئے کی جائیدادوں سے مسلمانوں کو بے دخل اور محروم کردیا گیا ہے اس کی آزاد ہندوستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

حیدرآباد : صدرجمیعتہ علمأ تلنگانہ و آندھرا پردیش مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے الزام لگایا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں جس بڑے پیمانہ پر وقف جائیدادوں کی تباہی ہوئی ہے اور اربوں روپئے کی جائیدادوں سے مسلمانوں کو بے دخل اور محروم کردیا گیا ہے اس کی آزاد ہندوستان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے ایک بیان میں الزام لگایا کہ ریاست کے مسلمانو ں کو اس کا علم بھی ہے اور احساس بھی ہے۔ جس طرح ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کرتے ہوئے وقف بورڈ کو استعمال کیا گیا ہے‘ وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ اوقافی جائیدادوں سے محروم کئے جانے کے بے شمار واقعات ہوئے ہیں۔

وقف سروے کے مطابق ریاست میں 77,000ایکڑ سے زیادہ وقف اراضیات ریکارڈ میں ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ صرف سات ہزار ایکڑ اراضیات پر ہی اوقافی اداروں کا قبضہ ہے اور ان کو بھی بے شمار مسائیل اور مشکلات کا سامنا ہے۔

کس طرح منظم اور منصوبہ بند سازشیں کرتے ہوئے اوقافی جائیدادوں سے مسلمانوں کو محروم کیا گیا۔اس کے لئے صرف ایک واقعہ ہی بیان کردینا کافی ہوگا کہ حیدرآباد میں درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اراضیات سے مسلمانوں کو محروم کرنے کی سازش کو کس طرح روبہ عمل لایا گیا۔ وقف بورڈ نے اس اراضی کا مقدمہ تحت کی عدالت میں جیتا‘ ہائی کورٹ میں بھی جیت لیا۔ جس پر مسلمانوں میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ لیکن یہ مقدمہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

اس وقت کے وقف بورڈ نے کچھ دلچسپی دکھائی۔ مقدمہ کا ریکارڈ تیار کرنے کے لئے کئی عہدیداروں کو تعینات کیا۔ بطور خاص ایک ڈپٹی کلکٹر کا تقرر کیا گیا۔ لیکن ایک سازش کے تحت کچھ الزامات لگا کر چیف منسٹر کے حکم سے وقف بورڈ کے سارے ریکارڈ کو ایک کمرے میں بند کرکے قفل ڈال دیا گیا اور اس پر مہر لگا دی گئی۔اسپیشل ڈپٹی کلکٹر کو وقف بورڈ سے ہٹا کر چیف منسٹر کے دفتر میں تعینات کردیا گیا۔

اس سے ملک بھر میں وقف بورڈ کی بدنامی تو ہوئی‘ لیکن سارا ریکارڈ خطرہ میں پڑ گیا۔کیونکہ کئی برس گزر جانے کے بعد بھی اس روم کو نہیں کھولا گیا۔ نہیں معلوم کہ اس ریکارڈ کا کیا حشر ہوا۔ دیمک کھا گئی یا کاغذ کے کیڑے سلور فش اس کو چٹ کر گئے۔

جمعیتہ علما کے ساتھ دوسری تنظیموں نے بھی اس پر احتجاج کیا لیکن خود کو مسلمانوں کی ہمدرد ظاہر کرنے والی پارٹی کی حکومت اور اس کے قائدین پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ریکارڈ کو مہر بند کرنے کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ سپریم کورٹ میں بورڈ یہ مقدمہ ہار جائے۔ چنانچہ ہوا بھی یہی۔ سینکڑوں سال سے وقف میں موجود قیمتی اراضی سے مسلمان محروم کردئیے گئے۔ اس معاملت میں قائیدین اور ان کے سیاسی دلالوں نے کتنے ارب لوٹے اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔

اس کے علاوہ وقف بورڈ میں اب بھی دھاندلیوں کا سلسلہ جاری ہے جس کی روک تھام کرنے کی کسی میں ہمت اور حوصلہ نہیں ہے۔ مولانا حافظ پیر شبیر احمد نے کہا کہ اب جبکہ الیکشن قریب آرہے ہیں یہی قائدین مسلمانوں کے ہمدرد بن کر سامنے آرہے ہیں۔

وہ سیاسی جماعتوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ وقف جائیدادوں کی حفاظت و ترقی کے تعلق سے اپنی خلوص نیت کا یقین دلائیں اور یہ بھی واضح کردیں کہ درگاہ حضرت حسین شاہ ولی ؒ کی اراضیات کوپھر سے حاصل کرنے کے لئے وہ سپریم کورٹ میں اپیل کرنے والے ہیں یا نہیں۔

اس کے علاوہ وہ دوسری وقف اراضیات دوبارہ وقف بورڈ کو واپس دلانے کے لئے کیا کرنے والے ہیں؟ مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ وہ سیاسی قائدین کی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں اور سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کریں۔