سیاستمضامین

دو ہزار سال بعد آر۔ایس۔ایس کی دھرم یدھ کی تیاری

مسلمانوں اور پچھڑی ذاتوں کے قتل عام کا منصوبہ

سلیم مقصود

آر۔ایس۔ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے نہایت ہی فخر کے ساتھ کہا تھا کہ ساری دنیا میں ہندوستانیوں کو نہایت ہی عزت ووقار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں ہندوستانیوں کے اس اعزاز پر بہت فخر ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں2002ء کے گجرات مسلم کش فسادات میں شہید ہونے والے مسلمانوں کو قتل کرنے والوں کے عالمی اعزاز سے نوازے جانے والی ڈاکیومنٹری کا تذکرہ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہندوستان سے اربوں روپیوں کا غبن کرکے مغربی ممالک میں شان وشوکت سے زندگی گزارنے والوں پر وہ کتنا ناز کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات بھی نہیں بتائی کہ ہندوستان کے بدترین غیر محفوظ‘ غیر انسانی حالات سے گھبرا کر 10لاکھ باشندوں نے کن ممالک میں راہِ فرار اختیار کی۔ انہو ںنے یہ بھی نہیں کہا کہ ان کے بہت قریب بینک کار اور کروڑ پتی ‘ آر۔ایس۔ایس کے ان کے بہت ہی عزیز ساتھی جس نے خلیج میں مودی کو ایک باعزت مقام دلوایا تھا اور مندروں کے لئے وسیع زمین دان دلوائی تھی وہ اچانک کئی ’عربوں‘ کی کئی ارب دولت کے ساتھ کہاں غائب ہوگیا۔ بھگوت جی اور مودی کو آج کل اس کی یاد کیوں نہیں آتی؟ دہلی میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف ’’ گولی مارو‘ سالوں کو‘‘ نعرہ بلند کرنے والے انوراگ ٹھاکر کو مودی حکومت نے کس اعزاز میں مرکزی وزیر بنایا تھا۔؟ اس بات کا تذکرہ بھی بھاگوت نے اپنی تقریر میں نہیں کیا کہ فحاشی کے اڈے چلانے والی مرکزی وزیر کی بیٹی بھی ایسا لگتا ہے کہ اب پوری طرح اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلنے ان کے راستے پر گامزن دکھائی دیتی ہے۔ برطانیہ کے ہند نژاد وزیراعظم رشی سنک پر آر۔ایس۔ایس اور مودی کو شائد بہت غرور تھا۔ لیکن سابق وزیراعظم بوس جانسن ‘ سابق وزیراعظم لزٹرس کے دور میں برطانوی معیشت ‘ صنعتی ترقی‘ برآمدت ‘ زر مبادلہ کی قلت اور تجارتی موقف میں جو زوال پیدا ہورہا تھا اسے رشی سنک کے دور میں کوئی بہتری پیدا نہیں ہوسکی ۔ رشی سنک نے خود اپنے مقام کو بہتر بنانے کے بجائے مودی کے خلاف تیار کردہ بی بی سی کی ڈاکومنٹری پر نکتہ چینی کرکے مودی نے ان کی وزارت عظمی کی جو تائید کی تھی اس کا حق ادا کردیا۔ برطانیہ میں کرکٹ میاچ کے نتائج پر ہندوستانی نژاد باشندوں نے جو تباہی یہاں کے دو شہروں میں پھیلائی اس نے ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات برپا کرکے ہندوستانی طریقوں کی یاد تازہ ہوگئی۔ اس پر برطانیہ کے اصل باشندے اور مقامی انتظامیہ حیرت زدہ ہوگئی۔ مگر آر ایس ایس اور دیگر فرقہ پرست ہندو تنظیموں نے الٹا برطانوی حکومت سے مطالبہ کردیا کہ وہ ہندوؤں کے خلاف برطانیہ کے دو شہروں میں فساد برپا کرنے پر مسلمانوں کے خلاف کوئی ایکشن یا سخت کارروائی کرنے سے گھبرارہی ہے۔ برطانیہ میں خالصتان کے مسئلہ پر سکھوں کے خلاف سخت اقدامات کے ہندوستان کی شدت پسند ہندو تحریکوں کے مطالبے کو قبول نہیں کیا گیا۔ آسٹریلیا کی حکومت کا رویہ بھی یہی رہا۔ کینڈا میں ہندوستان کی بعض شدت پسند تحریکوں کا ’’متنفر جرائم‘‘ کا جرائم کا سلسلہ شروع ہوا تو ہندوستانی حکومت نے کوئی پرامن اقدامات کرنے کے بجائے یہاں مقیم ہندوستانی باشندوں کو متنبہ کیا کہ وہ محتاط رہیں۔ ہندوستانیوں کی اپنی غلط حرکات کے سبب مقامی باشندوں اور کینڈا کی حکومت نے ان کے خلاف سخت ترین رویہ اختیار کرلیا جس پر ناراض ہوکر ہماری وزارت خارجہ نے 25ستمبر2022ء کو کینیڈا کی حکومت کے خلاف سخت ترین ہدایت نامہ جاری کردیا اور کینیڈا کی حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ہندوستانیوں کے خلاف سخت فرقہ وارانہ واقعات کے خاتمہ کی کوئی کارروائی نہیں کرتی اور اس کے انصاف کا کوئی ثبوت بھی نہیں پایا جاتا۔ اوٹاریوکے مقام ’’ برامپ ٹون‘‘ میں خود ہندوستانی باشندوں کے فرقوں ککے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی۔ مودی حکومت ان کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے بجائے کینیڈا کی حکومت سے الجھ گئی۔
برطانیہ اور کینیڈا کے بعد27جنوری2023ء کو آسٹریلیا میں یہ خبر پھیل گئی کہ ہندوؤں کے تین مندروں پر توڑ پھوڑ کی کوشش کی گئی اور ان کی دیواروں پر گندی تصویریں اتاردی گئیں۔ آسٹریلیا میں ہندوستان کے سفیر نے ملیبورن‘ وکٹوریہ اور اسیکون شہروں کے ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا اورانہیں بہت خطرناک قراردیا۔ بھگوت جی کے ہندوستانی باشندوں کے بیرون ملک اعزاز حاصل کرنے کا ایک واقعہ خلیج کی ایک بہت ہی معروف ریاست قطر میں پیش آگیا۔ جہاں ہندوستان کے 8 سابق بحری افسروں کو اس الزام میں گرفتار کرلیا گیا کہ وہ قطر میں اسرائیل کی جاسوسی کیا کرتے تھے۔ اور قطر کی اہم اطلاعات اسرائیل کو فراہم کیا کرتے تھے۔ سنا جارہا ہے کہ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے ان مشتبہ افسروں کی رہائی کاقطر سے مطالبہ کیا ہے۔ لیکن قطر نے تحقیقات کے بغیر ان افسروں کو رہا کرنے سے انکار کردیا ہے۔ آر ایس ایس کو خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے اپنے کارکنوں پر اس قدر غرور ہے کہ اس کے ایک سنچالک نے فخر کے ساتھ ایک بار کہا تھا کہ خلیج میں اگر جمہوری طرزعمل قائم ہوجائے اور اس کے مطابق ہی عام انتخابات عمل میں آجائیں تو ان خلیجی ریاستوں میں انہی لوگوں کی حکومتیں قائم ہوجائیں گی۔ ارمیاکہ کے سابق صدارتی انتخابات میں مودی جی نے ایسی ہی کوشش کے ذریعہ سابق امریکی صدر کو دوبارہ صدارتی انتخاب میں کامیاب کروانے کا دعویٰ کردیا تھا اور انہیں دوبارہ صدر بننے کا تیقن بھی دے دیا تھا۔ لیکن مودی جی کی یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔
سری لنکا‘ نیپال‘ بنگلہ دیش اور مینمار میں بھی ہندوستانی باشندوں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے لیکن ان باشندوں کی مقبولیت نے یہاں کوئی باوقار مقام اب تک نہیں دلوایا۔ آر ایس ایس کے ایک کارکن نے خلیج میں بہت اچھا مقام حاصل کرلیا تھا۔ اس نے اپنی قربت سے فائدہ اٹھا کر مودی کو دبئی کے حکمرانوں کا قریبی دوست بنادیا تھا۔ اس قدر قریب کہ انہوں نے مودی کی خواہش پر وہاں ایک بڑے مندر کی تعمیر کے لئے زمین تک دان دے دی تھی۔ وہاں جب ایک بہت وسیع مندر تعمیر ہوگیا تو آر ایس ایس نے دبئی کو اپنا پیروکار سمجھ لیا۔ کھلم کھلا اسلام اور عرب تہذیب و تمدن کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ ان کے بدترین کارٹون بنائے جانے لگے۔ دبئی کے شیخوں کو بے وقوف سمجھ کر اربوں ڈالر کا نہیں چونا لگایا گیا۔ اور جب انہیں اس بات کا پتہ چلا تو موہن بھگوت کا یہ قریبی دھوکہ از دبئی سے فرار ہوکر ہندوستان میں غائب ہوگیا۔ اس کے ساتھ مودی کا مقام بھی متاثر ہوگیا۔ سعودی عرب کی ہندوستان میں4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کھٹائی میں پڑگئی اور ہر سال دس ہزار ہندوستانیوں کو ملازمت فراہم کرنے کا معاہدہ بھی متاثر ہوگیا۔ مودی کے رواں سال ہونے والے آخری بجٹ میں اڈانی کی مدد بھی ملنے کے امکانات باقی نہ رہے۔اڈانی گروپ نے حصص مارکٹ کے 4لاکھ کروڑ روپے ڈبودیئے ۔ ہنڈن برگ کمپنی نے اڈانی سے 400صفحات پر مبنی الزامات کے 88سوال کا جواب طلب کیا۔ مگر اڈانی18 سے زائد سوالات کے جواب نہ دے سکے ۔ ایل آئی سی نے اڈانی گروپ میں36,4,74 کروڑ روپیوں کی سرمایہ کاری کی تھی اسے اس بات کا اندازہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے کہ اس کا کیا حال ہوگا۔ پنجاب نیشنل بینک کا اڈانی گروپ میں70 بلین ڈالر کا سرمایہ پھنسا ہوا ہے۔ اس پریشانی اورمایوسی کی حالت میں ہمیشہ کی طرح ابو ظہبی نے اڈانی انٹرپرائزرس میں381ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے۔ اڈانی کی ساری دنیا میں اس قدر شرمناک حالت کے باوجود بھی اڈانی گروپ نے کہا کہ ہندوستان ایک ابھرتی ہوئی بڑی طاقت ہے۔ آر ایس ایس کی ایک اور بدنام زمانہ تنظیم سودیشی جاگرن منچ نے اڈانی گروپ کی تائید کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ایک نائب کنوینر اشونی مہاجن نے ہنڈن برگ پر آر ایس ایس کو ماننے والوں کے مزاج کے مطابق الٹا شدید الزامات لگادیئے ۔ انہوں نے کہا کہ ہنڈن برگ بدنام زمانہ دیگر کمپنیوں کا ایک کاروباری ادارہ ہے جس کا مختصر ترین کاروباری مفاد ہے۔ یہ لوگ اس قسم کی حرکتیں پہلی بار نہیں کررہے ہیں۔ جب کہ ماہر حصص بزرنس سوچیتا دلال نے اس تمام معاملے کو ’’اڈانی فراڈ‘‘ قراردیا ۔ حالانکہ اڈانی کا حصص مارکٹ کا سارا کاروبار ہندوستان سے باہر رہ کر اسٹاک مارکٹ کا ایک ہرشد مہتا جیسا مجرم چلارہا ‘ اڈانی تو کئی جرائم میں ملوث رہ چکا ہے۔ گجرات بندرگاہ اڈانی کے کنٹرول میں ہے۔ اسی میں گزشتہ سال ایک ہزار کروڑ کی ڈرگس پکڑی گئی تھی لیکن اڈانی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور اس سارے معاملے کو یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ یہ تمام ڈرگس پاکستان اور افغانستان سے سربراہ کی گئی تھی۔ حصص مارکٹ کے فراڈ سے بھی کسی نہ کسی بہانے سے اڈانی کو آزاد کروایا جائے گا۔ گزشتہ سال ہندوستان کی ایک دوا ساز کمپنی کی تیار کردہ دواؤں سے سینکڑوں لوگو مارے گئے۔ مودی حکومت نے اس کمپنی کو دواؤں کے استعمال میں احتیاط برتنے کا اور اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا تھا مگر ابھی تک ان تحقیقات کے نتائج جاری نہیں کئے گئے۔ بھگوت ہندوستانیوں کو بہت زیادہ قابل احترام اور ساری دنیا کے لئے ایک بہترین نمونہ قراردیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے اور دنیا کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہے۔ خصوصاً ہندوستانی تاجر اور صنعت کاروںنے دنیا میں اپنا کیا مقام بنارکھا ہے۔ مودی کی سفارش پر مالی حالات کی خرابی کے موقع پر اڈانی کی کمپنی کو سری لنکا میں بجلی کی سربراہی کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ اڈانی کمپنی نے مصیبت کے وقت سری لنکا کے باشندوں کو بجلی کی سربراہی اس قدر مہنگے داموں پر کی کہ وہاں ایک زبردست تنازعہ ہندوستان کے خلاف پیدا ہوگیا۔ اڈانی جیسے لوگوں پر موہن بھگوت اور ان کے چیلوں کو بہت زیادہ اعتماد ہے کہ یہی لوگ ساری دنیا میں ہندوستان کا نام روشن کررہے ہیں۔
آفریقہ کے ایک ملک راونڈہ پر قتل عام کی پیش گوئی کرنے والے گریگری سینٹون نے ساری دنیا کے 400 دانش مندوں کے ایک اجلاس میں بتایا کہ ’’ ہندوستان میں حال ہی میں قتل عام ہوگا۔ اس کے ہونے پر ہندوستان کے وزیراعظم مودی کو بہت خوشی حاصل ہوگی‘‘ انہوں نے راونڈہ کے قتل عام سے راونڈہ کے صدر کو آگاہ کیا تھا مگر انہوں نے اس پر کوئی غوروخوص نہیں کیا ۔ ان کی غفلت کے سبب راونڈہ میں دس لاکھ سے زائد معصوم لوگ مارے گئے۔ اب دنیا کے 8 ممالک میں قتل عام ہوسکتا ہے ان ممالک میں سب سے پہلا قتل عام ہندوستان میں ہوگا ۔ ’’ ہندوراشٹر‘‘ کے قیام میں صرف مسلمان ہی نہیں مارے جائیں گے بلکہ مسلمانوں کے قتل کے بعد آدی واسی‘ دلت‘ شودر‘ عیسائی‘ سکھ سب کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ 2500 سال طویل تاریخ کو دوبارہ دہرایا جائے گا ۔ ہندتوا کے محافظ آر ایس ایس اور بی جے پی کے قائدین جنہیں سناتن دھرم کے بھگت بتایا جارہا ہے وہی بھگوان کے اوتار اور وشواگرو کہلائیں گے۔ بہر حال ایک خطرناک یدھ کی تیاری کی جارہی ہے۔ اور ایک طرف مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ اور دوسری طرف مسلم ممالک سے امداد طلب کی جارہی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰