
ظفر عاقل
ملک اور ریاست میں زیر اقتدار حکومتوں‘سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کا مبنی بر حقیقت ‘جدا بر جذباتیت‘صحیح ترتجزیہ سے زندگی اور اس کے مسائل کو سمجھنے اور مناسب اقدامات کے لیے راہیں آسان ہونگی بلکہ ملت اسلامیہ کودَورِحاضر میں اپنے مذہب و تہذیب کی بقا اور مادّی وَمعنوی فوائد کے حصول وَبقا کی بابت مددگار ثابت ہوں گے۔تاہم یہ ضروری ہوگا کہ متعلقہ مسلمانوں کا ہر فرد بشر اپنے اطراف و اکناف کی سیاسی پارٹیوں کے پِلّوں اور چمچوں سے جو اپنی سیاسی پارٹیوں کے زیادہ وفادار‘Followکرنے کے لیے اپنے انّاؤں(Anna)کے چاٹو کاراور چند سکّوں اور مادّی فوائد کے کشکول بردار۔۔۔جو اور اپنے ذاتی فوائد کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔۔۔کی حقیقتوں سے بھی واقف رہیں؛
علاوہ ازیں مذکورہ صفات خبیثہ کے حامل ان سماجی و مذہبی سر پوشوں سے ہشیار‘ واقف اورچوکنّاہونے کی ضرورت ہے؛ جو ہر سیاسی انتخابات کے موقع پر ایک نئے ہتیار اور قول و قرار لے کر ملت کے معصوموں کو ورغلانے کے لیے حاضر اور سرگرم ہوجاتے ہیں؛ایوان حکومت سے وفاداریاں خریدنے کے لیے نت نئے دام الفت سجائے اور سنوارے جاتے ہیںجن کا بھونپو بن کریہ کانوں ہی میں نہیں بلکہ سونچ و سمجھنے کی صلاحیتوں پر غالب آجاتے ہیں؛اس طرح کا کردار نبھا کر سجی سنواری تھالی میں ملت کی رائے شماری کا عطیہ اپنے سیاسی آقاؤں کی خدمت میں پیش کردیا جاتا ہے۔
ادھر چند ایک برسوں سے مذہبی طبقہ کے لیے بہترین القاب میں ملفوف زہر ہلاہل کو قدر شناسی کے نام پر مشاہرے دینے اور مابعد ذہنی آمادگی کی کچی پکّی پگڈنڈیوں کو شاہراہیں بنانے کا رواج چل پڑا ہے اور اس کے نتائج بھی حسب منشائے سرکار محسوس کیے جاسکتے ہیں؛کیونکہ یہ انسانی نفسیات اور ظرف کا حصہ ہے کہ جس تھالی میں کوئی کھالیتا ہے تب اس میں چھید کرنے کو بارے دیگر سونچتا ہی رہ جاتا ہے؛ ٹکڑا پھینک اس دَور میں راست و بالراست نیز شعوری و غیر شعوری ایمان ویقین کی خریدوفرخت طئے پاتی ہے ؛جب کہ یہ بھی حق ہی ہے کہ کتنا بھی کوئی گیا گزرا کیوں نہ ہو۔۔۔ اپنا ایمان راست فروخت کرنے کو گناہ ہی سمجھتا ہے۔اور اس کو سیاسی ٹھیکہ دار بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیںاور کس طرح برتنا اور برتاؤ کرنا جانتے ہیں۔ملک کے آزاد ہونے کے بعد اور ملت کی ذہنی غلامی کا شکار ہونے کے بعد یہ کھیل گزشتہ زائد از چھ سات دہوں سے جاری و ساری ہے۔ملت کے ہر فرد بشر بالخصوص نوجوانوں اور باشعور صاحب فہم و ذکا پر لازم ہے کہ وہ اس سے نہ صرف واقف ہوں بلکہ تدارک کی حکمت کو اختیار بھی کریں۔
ایوان حکومت و قانون سازی میں ملت کی نمائندگی کی اپنی ضرورت و اہمیت ضرور ہے لیکن کیا ہمارے نمائندے اس کا حق ادا کرکرہے ہیں اور اس کے کوئی مثبت اور ثمر آور نتائج بھی حاصل ہورہے ہیں؛عام طور پر ان ایوانوں میں جذباتی پھٹّے پکارے کی گھن گرج پر ہم شاد کام ہوجاتے ہیں کہ شیر کی دھاڑ پر ایوان میں زلزلہ آگیا ہے لیکن ان مواقعوں کا ملنا اور حاصل کرنا بھی ایک سیاست اور سیاسی اڈجسٹمنٹ کا حصہ ہوتا ہے جس کی تہہ میں موجود کنول کے کیچڑ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔بہت سے ایسے بھی ہوسکتے ہیں اورہیں بھی کہ جن کو برداشت بھی نہیں کیا جاتا اور مرغ و بکری چور جیسے سو ہزار مقدموں میں پھنسا کر زندانوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے؛حاصل یہ کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر عام سطحی سونچ کی بجائے سنجیدہ غور وفکراور لائحہ عمل کی ضرورت ہے؛کیونکہ پانچ چھ سو کی تعداد کے درمیان ہاتھوں کی انگلیوں کی برابر نمائندگی کوئی نتیجہ خیز ہوممکن نہیں ہے۔جب کہ عددی اعتبار سے ملک میں ملت دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت ہے؛
سیاسی نمائندگی اور حقوق کے حصول کا معاملہ ان حالیہ دس برسوں میں بہت ہی پیچیدہ اور نازک بن چکا ہے کیونکہ لال قلعہ کی فصیل پر اب وہ قابض ہیں جن کے فسطائی منواد نظریات کی چھتر چھایہ میں ۔۔۔ملت کی مذہبی و تہذیبی شناخت کی برقراری۔۔۔ اور اس کو آنے والی نسلوں تک کارامد بنائے رکھناجہاں اہم ترہے وہیں آسان نہیں ہے۔ان بے رحم فسطائیت کے آلہ کاروں کے ہاتھوں میں جہاں ملت سرِدَار کھڑی کردی گئی ہے تب وہیںدوسری جانب۔۔۔ ملک میں دستور و جمہوریت کی برقراری بھی ناممکن بنتی جارہی ہے‘بلکہ بڑی حد تک بنادی گئی ہے؛اسی لیے یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ۔۔۔ اگر یہ شر پھر بارِ دیگر مکرر تناور درخت بن کر سر اُٹھا لیتا ہے اور غالب وَقابض ہوجاتا ہے تب اس کے امکانات کم اور تنگ ہوتے جائیں گے؛چنانچہ خدشات کے جوالا مکھی کے شرارے اپنے عروج پر پہنچ گئے ہیں کہ عوام کو رَدّ یا منتخب کرنے کا موقع بھی مئیسر آئے گا یا نہیں !؟دوسرے واضح معنی و مفہوم میں ملت کے مادّی و معنوی نکتہ نظر سے یہ عنقریب منعقد ہونے والے انتخابات بہت ہی اہم اور نازک ہیں؛جہاں اصلاًیہ فیصلہ کرنا ہے کہ اپنا مادّی وجود پیش نظر رکھا جائے یا پھر ان کو ایک حد تک پرے رکھ کر معنوی وجود کی برقراری کواہمیت دی جائے۔
ملک جس سر راہ پر آچکا ہے اور جس بند گلی کا مکیں بن چکا ہے اس میں ایک طرح کا جبر و قہر کا راج ہے اور جن ہاتھوں میں لگامیں ہیں وہ صرف ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ ایک صد سالہ اسلام و مسلم دشمن ہی نہیں بلکہ تاناشاہی فکر و نظریہ ہے جو نہیں چاہتا ہے کہ اس کی فکر کے مغائر کوئی بھی نام لیوا موجود رہے؛اور جس کے آکٹوپسی دست و پا کی پہنچ ملک کے تمام وسائل اور اداروں پر قابض ہوچکی ہے؛اور جس سے مقابلہ کرنا اور اس کو میدان کار زار سے ہٹانا کوئی آسان ٹاسک ہے۔عوام تک اپنی بات پہنچانا بھی ایک طرح سے ناممکن بنادیا گیا ہے چنانچہ ملک کا میڈیا اور پریس بھی اسی فسطائی عفریت کا اسیر اور بکاؤ اور زرخرید بنادیا گیا ہے؛چنانچہ واحد باقی بچی صورت راست عوام تک رسائی اور ذہن سازی و شعور بیداری رہ گئی ہے جو ایک جوئے شیر سے کم نہیں ہے اور یہ بھی ماہ و سال کی معیاد کا تقاضہ کرتا ہے؛سوشل میڈیا ضرورایک نعمت سے کم نہیں ہے لیکن اس کی پہنچ کی بھی فی زمانہ ایک حد ہی ہے؛
عوامی ربط اور فکر کی ترسیل کا ایک تجربہ پد یاترا کی شکل میں اختیار کیا گیا اس نے بھی جنوب تا شمال کم و بیش نصف برس ہضم کرلیے تب کہیں جاکر بیداری کی ہلکی لہریں محسوس کی گئیں تھیں۔اور یہ بھی کامیاب اس لیے ہوسکی کہ اس کے پیچھے ایک ملک گیر سیاسی سیکولر پارٹی اور عزم و جزم کی واحد قیادت کا عمل دخل رہا تھا۔اگر کوئی محدود علاقائی پارٹی یا ریاستی پارٹی یا قیادت ہوتی تب نہ صرف یہ ناکام ہوجاتی بلکہ قبولیت و مقبولیت کا ملنا بھی محال تھا ۔بالفرض کامیابی وکامرانی مئیسربھی آجاتی تب اس کا احاطہ اثر محدود اور وقتی ہی ہوتا۔جب کہ امکانات وسیع تر ہوتے کہ اس طرح کی محدود علاقہ و قیادت کو فسطائی قوت و اقتدار بالجبر کچل ہی کر رکھ دے اور ناکام بنادے۔دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ اس طرح کی سیاسی پارٹیاں اور اس کی قیادتیں فسطائی چنگل اور حکومتی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہیں؛اور یہ ایک حقیقت بلکہ کڑوی سچائی ہے کہ۔۔۔ ملک گیرفسطائی پالیسیوں کی حمایت‘بھگوا حکومت کی تابعداری ہی میں ان علاقائی و ریاستی سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادتوں کی بقا کی واحد صورت باقی بچی ہے۔البتہ ان دو منہ کے سیاسی سانپوں کی عام پبلک تقاریر اور اندرونی ساز باز اور پالیسی و قول و قرار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔اور جس سے عام عوام کو مسلسل دھوکہ دیاجاتا رہا ہے اور جنتا مسلسل دھوکہ کھاتی رہی ہے ؛اور فی زمانہ انتخابات میں بھی یہی ڈرامہ جاری ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہی ہے کہ فسطائی منوواد نظریاتی سیاسی پارٹی کے وسیع تر پلان میں علاقائی اور ریاستی سیاسی پارٹیوں کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی وہ اس کی ضرورت کو محسوس کرتی ہے۔چنانچہ بھاجپا کے صدر نے بہار میں علی الاعلان عوامی سطح پر پبلک ایڈریس میں اس بات کو واضح انداز میں دو ٹوک کہہ بھی دیا ہے۔چنانچہ مثل مشہور ہے کہ ضرروت پر گدھے کو بھی کاکا کہہ دیا جاتا ہے؛بھاجپا کے دوسرے پانچ سالہ اقتدار میں چھوٹی علاقائی پارٹیوں اور اس کی قیادتوں کا جو کریا کرم فسطائیوں اور ان کے اصحاب اقتدار کرتے آئے ہیں وہ ملک اور عوام کے سامنے واضح ہے ہی ؛اور جب حز ب اختلاف نے اتحاد کا مظاہرہ کیا اور یک جٹ ہوئی تب بھاجپا نے اپنی ضرورت کی تکمیل میں تھوکے کو چاٹ بھی لیا ہے۔
دوسری مثال شیوسینا کی بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ ہندوتؤ کے ناطے تو ان کے درمیان بیٹی روٹی کی حصہ داری اور اتفاق تھا لیکن رفتہ رفتہ مہاراشٹرا کی بڑی سیاسی قوت شیوسینا چھوٹی بنادی گئی اور آخر کار حال بدحال یہ ہوگیا کہ بھاجپا اس علاقائی و ریاستی پارٹی کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہوئی ؛حتیٰ کہ دونوں کی رشتہ داری مخالفت میں بدل گئی اور شیوسینا نے دیگر سیکولر پارٹیوں کے ساتھ حکومت بنالی ؛لیکن بکری کی ماں کب تک خیر مناتی چنانچہ شیوسینا کو دو پھاڑ کردیا جاکر کمزور کردیا گیا اور مابعد دوسری علاقائی ریاستی پارٹی NCPشرد پوار کے بھی دو ٹکڑے آپریشن کنول کا کمال دنیا نے دیکھ لیا؛حاصل یہ کہ ملک گیر فسطائی منووای نظریہ و پارٹی کے مقابل علاقائی پارٹیوں کی زندگی اور آزادی ایک سوالیہ نشان ہی ہے ؛کیا ملت اس سوالیہ نشان کی سواری کرنے کی مشق کرتی تجربہ کرتی رہے گی۔
علاقائی و ریاستی پارٹیاں عام طور پر خاندانی جاگیر کا جمہوری مکھوٹائی پیکر ہوتی ہیں؛ پرائیوٹ لمیٹڈ طرزکی سیاسی کمپنی جو اپنے ذاتی و خاندانی مفاد کے تابع ہوتی ہے؛اور یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہی ہے کہ سیاسی پارٹیوں اور ان کے جنم داتاؤں کو مال و زر کی ضرورت ہوتی ہے؛فی زمانہ سیاست ایک تجارت بن کررہ گئی ہے‘ چنانچہ کون دو نمبری تڑی پار کارکردگی سے پاک وَ پُن ہوسکتی ہے؛اور تحقیق طلب ہے جوکالے دھن کا دھنّا سیٹھ بنا ہوا نہیں ہے ؛چاہے سوٹ ہو کہ شروانی یادھوتی ہو کہ نہرو چوڑی دار پائجامہ۔۔ہر ایک اس کالی گنگا کی بہتی مچلتی دھارامیں اَشنان اور ڈبکی ضرور لگا ناچاہتا ہے؛اور اپنے مال کو ملک کے باہر سیف ہیون میں جمع کراتاجاتا ہے؛ترقی یافتہ سائنٹفک اور ڈیجیٹل دَور میں مرکزی حکومت کی ایجنسیوں اور دِلّی کے تخت کی دُوربین نگاہوںسے مال ومنال کے امید وَچاہت میں ڈوبے اُبھرے پیٹ کو چھپانا فی زمانہ کیا ممکن ہے ؛چنانچہ ہر کوئی راڈار پرآہی جاتا ہے؛
بالخصوص مرکزی حکومتی ایجنسیوں وَ اقتدار سے بیر مول لے کر نہ اپنا مال بچا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی گردن کو اس شکنجہ سے چھڑا سکتا ہے؛ دیش بھر کی سیاسی پارٹیاں ‘قیادتیں اور فرد وَ اِدارے اسی لیے فسطائی مرکزی حکومت کی حمایت اور واشنگ مشین میں اُجلاہونے(کلین چِٹ پانے) ہی میں عافیت وَراحت محسوس کرتی ہیں؛جو کھایا اُس کو پچاناعین فرض منصبی بن جاتا ہے ؛یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل اور ملّی مفاد کو پیش نظر رکھنے کی بجائے۔۔۔مرکزی راحت وَعافیت کے عوض۔۔۔ مسلم کمیونٹی کاز کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے واقعات علاقائی ریاستی پارٹیوں سے ہوتے رہتے ہیں ؛چنانچہ تلنگانہ بھی اس سے مبرّا نہیں ہے؛شراب اسکام میں عام آدمی پارٹی خاص جیلوں میں بندہے‘اور اب تو اس کے چیف منسٹر پر تلوار لٹک رہی ہے جب کہ تلنگے ڈور سے بندھی پتنگ بنے سیاسی فضاؤں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔سیاسی مرغوں کو ٹوکروں میں مقید کرنے کے اس طرز و طریقہ کار سے کیا مسلمانوں کی جماعتیں اور قیادتیں کو کوئی استثناء رکھتی ہیں؛چنانچہ مثبت جواب منفی نمبر وَ نتیجہ دے گا۔دیس بھرکے سیاسی میدانوں میں جا جا کر منہ مارنامنصوبہ توسیعی و مجبوری مانی جانے کو غلط قرار دے لیں‘کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
دیکھا جانا چاہیے کہ سیاسی بازیگری میں بھاجپا کے ہمراہ Rssکو نامزد کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور سر دست کوئی نہیں جو یہ مردانگی کے جوہر سے لیس ہے؛بلکہ راہول گاندھی کے ماسوا خود کانگریس میں بھی یہی ہمت حال ہی میں کھل کر سامنے آئی ہے؛دوسرا پالیسی ساز فیصلہ اور عمل آواری کہ ذات پات پر مبنی مردم شماری کا اعلان ہے اور یہ بھاجپا اور Rssکی فکر و نظریات پر ایک میزائل حملہ ہی ہے جس کی کوئی کاٹ نہ بھاجپا میں ہے اور نہ ہی Rssمیں۔دستور کو ختم کرنے کی دیرینہ خواہش اور منو طرز کی سیاست و حکومت کا خواب ان فسطائی قوتوں کا ہدف اول و آخر ہے؛چنانچہ تاناشاہی طرز حکومت اب ایک عموم ہے اسی لیے آزادی رائے و فکر پر قدغن لگانا اب کھل کر سامنے آنے لگا ہے ؛حالانکہ مودی جہاںجارہے ہیں وہ ایک Liabilityاور راہول گاندھی ایک Assetبنتے جارہے ہیں۔حد تو یہ بھی کہ میزورم کے چیف منسٹر نے مودی کے ساتھ اسٹیج شیر کرنے سے منع کیا ہے۔
خلافت عثمانیہ کاانہدام اور عربوں کا قومیت کے چارہ کو چبا کر کھانے کا نتیجہ کیا سر کی آنکھوں سے دیکھا نہیں جارہا ہے کہ اس کی وجہ سے اسلامی اخوت پارہ پارہ ہوگئی اور اب تو یہ تصور بھی نیم مردہ بنادیا گیا ہے ؛نئی نسل اسلامی تعلیمات اور فکری نظریات سے ناآشنا سی ہوچکی ہے؛اس پر مستزاد محدود تصور دین نے الگ ستم ڈھائے ہیں؛ہزار ہا سال سے آباد عربوں کے وطن فلسطین میں برطانیہ و یورپ اور امریکہ نے اسرائیلی مملکت کو وجود مجسم بناڈالا اور اپنی ہی سرزمین کے 80%سے بالجبر مظلوم فلسطین نکال باہر کیے گئے اور یہ ظلم ان پر 1948قیام اسرائیل سے جاری ہے؛قہر و جبر کی فسطائیت کے بالمقابل نہتے فلسطین بے یارومددگار بنے ہوئے ہیں؛ غیرت اسلامی کو طلاق ثلاثہ دینے والے زائد از پچاس مسلم ممالک کا رویہ ان کی بزدلی کو اجاگر کرتا ہے اسی لیے برطانیہ یورپ اور امریکہ کا عربوں کے حلقوم پر تیز دھاری دار کا وار ‘اسرائیلی بربریت کا شکار فلسطین کو سامنے لاتا ہے۔اور یہ ایک ثبوت ہے کہ جب فسطائیت کسی ملک اور عوام پر تسلط اختیارکرلیتی ہے تب کیا نازک صورتحال کا سامنے کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ2023کے اسمبلی انتخابات میں نیز 2024کے مرکزی الکشن میں بھارت کے مسلمان بھی ایک کڑی آزمائش سے گزریں گے۔یہی وجہ ہے کہ فسطائی قوتوں اور ان کی مددگار پارٹیوں کو الکشن میں شکست سے دوچارکرنا لازمی ہے۔افسوس کہ آج بھی مسلمان مادی منفعتوں کے پیچھے دیوار وار دوڑ لگا رہے ہیں جب کہ منوواد ایوںاور ان کے مددگار اصل Threatاورمسلمان ٹارگٹ ہیں۔چنانچہ حکمت یہی ہے کہ معنوی فوائد کو ترجیح اول بنایا جائے ۔تلگانہ میں دوطرفہ مقابلہ کانگریس اور BRSکے درمیان ہے؛ اور فسطائی قوت کو شکست سے ہمکنار کرنے والی ملک گیر کی حامل مرکزی پارٹی کانگریس کا امیدوار اگر کمزور ہے اور بھجپا کی جیت کا امکان واضح ہے تب بادل نخواستہ بی آر یس کے بارے میں بھی سونچا جائے۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ملت مادی منفعتوں کو لا محالہ تج ہی دے ؛اور مطالبات سے کنارہ کش ہوجائے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰