دہلی میں ائمہ کو تنخواہیں‘ دستور کی خلاف ورزی
سنٹرل الیکشن نے کہا ہے کہ ائمہ مساجد کو اعزازیہ دینے کا 1993ء کا سپریم کورٹ کا حکم ”دستور کی خلاف ورزی“ ہے۔ یہ ”غلط نظیر“ قائم کرتا ہے اور یہ غیرضروری سیاسی تنازعہ وسماجی عدم ہم آہنگی کا نکتہ بن گیا ہے۔
نئی دہلی: سنٹرل الیکشن نے کہا ہے کہ ائمہ مساجد کو اعزازیہ دینے کا 1993ء کا سپریم کورٹ کا حکم ”دستور کی خلاف ورزی“ ہے۔ یہ ”غلط نظیر“ قائم کرتا ہے اور یہ غیرضروری سیاسی تنازعہ وسماجی عدم ہم آہنگی کا نکتہ بن گیا ہے۔
انفارمیشن کمشنر اودئے مہورکر نے ایک آرٹی آئی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ دستور کی رو سے ٹیکس دہندوں کا پیسہ کسی مخصوص مذہب کیلئے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔
آرٹی آئی کارکن نے حکومت دہلی اور دہلی وقف بورڈ کی طرف سے ائمہ کو دی جانے والی تنخواہوں کی تفصیلات مانگی تھی۔ سپریم کورٹ نے 1993ء میں آل انڈیا امام آرگنائزیشن کی درخواست پر وقف بورڈ کوہدایت دی تھی کہ وہ اس کی زیرانتظام مساجد کے ائمہ کو اعزازیہ دی۔
انفارمیشن کمشنر نے ہدایت دی کہ ان کی آرڈر کی کاپی مناسب کاروائی کیلئے مرکزی وزیرقانون کو بھیجی جائے تاکہ دستور کے آرٹیکل 25 تا28پر من وعن عمل ہو۔ اودئے مہورکر نے دہلی وقف بورڈ کو بھی ہدایت دی کہ وہ آرٹی آئی کارکن سبھاش اگروال کو 25ہزار روپئے معاوضہ ادا کرے کیونکہ اسے اپنی درخواست کا جواب حاصل کرنے وقت اوروسائل ضائع کرنا پڑا۔
وہ اپنی درخواست کا اطمینان بخش جواب حاصل نہیں کرپایا۔ مہورکرنے کہا کہ مملکت کی طرف سے مسلم فرقہ کو خصوصی مذہبی قواعد کے معاملہ میں تاریخ میں جانا ضروری ہے۔ مذہبی خطوط پر ہندوستان کے بٹوارے کے مطالبہ پر اسلامی مملکت پاکستان وجود میں آئی۔ پاکستان نے مذہبی مملکت کا راستہ منتخب کیا جبکہ ہندوستان نے ایسا دستورچنا جو سبھی مذاہب کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے۔
یہاں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ 1947ء سے قبل مسلم فرقہ کو خصوصی فوائد دینے کی پالیسی نے ہی مسلمانوں کی اتنی حوصلہ افزائی کی کہ آخرکار ملک کا بٹوارا ہوگیا۔ ائمہ مساجد کو اعزازیہ دینا نہ صرف ہندو فرقہ بلکہ دیگراقلیتی فرقوں کی حق تلفی ہے۔ اس سے ہندوستانی مسلمانوں کے ایک گروپ میں پیان اسلامسٹسٹ رجحان کو ہوا ملتی ہے اور یہ دکھائی دینے لگی۔
انہوں نے کہاکہ دہلی وقف بورڈ(ڈی ڈبلیوبی) کو حکومت دہلی سے سالانہ لگ بھگ 62کروڑ روپیوں کی گرانٹ ملتی ہے جبکہ اس کی اپنی آمدنی تقریباً30لاکھ روپئے ہے۔ دہلی وقف بورڈ کی مساجد میں ائمہ کو ماہانہ 18ہزار روپئے اور مؤذنوں کو ماہانہ 16ہزار روپئے اعزازیہ عملاً ٹیکس دہندوں کے پیسے سے دیاجارہا ہے جبکہ آرٹی آئی کارکن کے بموجب ہندو مندروں کو ماہانہ صرف 2ہزار روپئے ملتے ہیں۔
انفارمیشن کمشنر نے کہا کہ بعض لوگ یہ کہہ کر اس اقدام کی مدافعت کرتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کا تحفظ کیاجاناچاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مخصوص مذہبی اقلیت کو پروٹیکشن درکارہے تو پھر ہمہ مذہبی ملک میں اکثریتی فرقہ کو بھی ایسے پروٹیکشن کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہلی وقف بورڈ نے ابتداء میں ائمہ کو تنخواہیں دینے کی بات سے انکار کیا لیکن بعد میں اس نے کہا کہ تنخواہ نہیں بلکہ اعزازیہ دیاجارہا ہے۔ انفارمیشن کمیشن نے کہاکہ جانکاری کو چھپانے کی یہ واضح کوشش تھی۔