طنز و مزاحمضامین

راجہ کی کہانی کجریوال کی زبانی

زکریا سلطان

عام آدمی پارٹی کے خاص آدمی یعنی دہلی کے چیف منسٹراروند کجریوال کو بعض لوگ چھوٹا مودی بھی کہتے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح ہماری سنہری ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر کو بھی بہت سے لوگ چھوٹا مودی اور مودی کا جڑواں بھائی کہتے ہیں۔ ملک کے مایہ ناز وکیل اور حقوق انسانی کے چمپئن پرشانت بھوشن جو کسی زمانہ میں کجریوال کی پارٹی میں تھے ، بعد میں توبہ تِلّا کرکے الگ ہوگئے یا الگ کردئیے گئے ، وہ کجریوال کو چھوٹا مودی کہتے ہیںکیونکہ انہوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، صرف دیکھا ہی نہیں جانچا بھی ہے اور پھر جونیئر مودی کا ٹائٹل دے دیا ظاہر ہے وہ خوبیاں اور چنندہ صفات جو حضرتِ مودی میں ہیں وہ کجریوال میں بھی پائی گئی ہوں گی تب ہی تو وکیل صاحب نے معاملہ صاف کردیا، البتہ انکا کہنا ہے کہ ان سے پہچاننے میں دیر ہوگئی۔کوئی بات نہیں دیر آید درست آید۔ ویسے آج کل مودی حکومت کی خاص نظر عنایت کجریوال اور ان کی پارٹی پر ہے ، نائب تو بے چارہ اپنے عہدہ سے ہاتھ دھوبیٹھا اور سلاخوں کے پیچھے ہے، کجریوال جی کو بھی نوٹس جاری کرکے بلوایا گیا تھا اور ان سے کچھ خاص سوالات کئے گئے۔ وہ کافی ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ انہوں نے ستیہ پال ملک سابق گورنر جموں و کشمیر سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر مودی پرتابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے بہ بانگ دہل ان پر کرپشن کے سنگین الزامات لگائے جبکہ وہ خود بھی شراب اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ہندوستانی عوام اپنے نمائندوں کو منتخب کرکے اسمبلی اور پارلیمنٹ بھیجتے ہیںتا کہ ملک و عوام کے حق میں بہترین فیصلے کیے جائیں اور قانون سازی ہومگر اکثر ایوانوں میں یا تو جنگ کا ماحول ہوتا ہے یا پھر بسا اوقات لطیفہ گوئی اور شعر و شاعری۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی کارروائی پر کہاجاتا ہے کہ بڑی خطیر رقم صرف ہوتی ہے اور وہاں کا ایک ایک لمحہ انتہائی قیمتی ہوتا ہے مگر مال مفت دل بے رحم کے مصداق عوامی نمائندے بڑی بے فکری سے لڑائی جھگڑوں اور فضول چیزوں میں ایوانوں کا وقت ضائع کردیتے ہیں، یہ حضرات ملک اورعوام کے بارے میں کم ،اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں ۔بعض اوقات ایوانوں کا ماحول دلچسپ اور پر لطف بھی ہوا کرتا ہے ۔ کبھی کبھار لطیفوں یا اشعار سے ماحول کو ارکان خوشگوار بنادیتے ہیں، جنہیں اردو نہیں آتی وہ بے چارے بھی کہیں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر چند اشعار لے آتے ہیں اور پھر مائک پکڑ کراپنے انداز میں شروع ہوجاتے ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی کی قانون ساز اسمبلی میں چیف منسٹر اروند کجریوال نے ایک دلچسپ کہانی سنائی ۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ”میری کہانی کا عنوان ہے چوتھی پاس راجہ۔میری کہانی میں رانی نہیں ہے، بس راجہ ہے۔ایسا راجہ جو چوتھی پاس ان پڑھ تھامگر بہت زیادہ گھمنڈی اور متکبر تھا، اسے پیسے کی بہت زیادہ ہوس تھی، وہ بہت خرد بردکرنے والارشوت خور تھا۔ یہ ایک بہت بڑے عظیم ملک کی کہانی ہے،گاﺅں کے غریب گھر میں ایک بچہ کی پیدا ئش ہوئی تو جیوتشی نے کہا مائی! تیرا بیٹا بہت بڑا سمراٹ بنے گا، ماں یہ سوچ کر حیران تھی کہ میں بہت غریب ہوں میرا بیٹا سمراٹ کیسے بنے گا؟ خیر بیٹا دھیرے دھیرے بڑا ہونے لگا اور پھر اسکول شروع ہوا مگر پڑھائی میں اس کا دل نہیں لگتا تھا، چوتھی جماعت کے بعد اس نے اسکول چھوڑدیا۔ گاﺅں کے پاس ایک ریلوے اسٹیشن تھاجس پر وہ لڑکا چائے بیچتا تھا، اس کو بھاشن دینے کا بڑا شوق تھا، گاﺅں کے لڑکوں کو جمع کرکے الٹا سیدھا بھاشن دیا کرتا تھا اور جب شروع ہوجاتا تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا، کسی طرح ایک دن وہ اُس مہان دیش کا راجہ بن گیااور پورے دیش میں اس کا نام ہوگیا، اس کی شہرت چوتھی پاس راجہ کی حیثیت سے ہونے لگی، آتا جاتا کچھ تھا نہیںافسر جب بھی اس کے پاس آتے، انگریزی میں کچھ کہتے تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا ، افسر اس سے جو مرضی سائن کرواکر لے جاتے تھے، وہ شرم محسوس کرتا تھا کہ افسروں سے کچھ پوچھے کیوں کہ اس کے ان پڑھ ہونے کا پتہ چل جانے کا اندیشہ تھا۔چوتھی پاس راجہ کے نام سے جب شہرت ہوئی تو راجہ کو برا لگنے لگا کہ لوگ اس کی تحقیر کررہے ہیں تو اس نے کہیں سے ایک فرضی ڈگری ایم اے کی بنوالی اور اعلان کیا کہ میں ایم اے ہوں تو لوگ سمجھ گئے کہ یہ دھوکہ دے رہا ہے۔ لوگوں نے آر ٹی آئی ڈالی پھر ہوا یوں کہ جو بھی آر ٹی آئی ڈالتا اس پر پچیس ہزار روپئے کا جرمانہ لگادیا جاتا۔ایک دن کچھ لوگ راجہ کے پاس نوٹ بندی کا آئیڈیا لے کر گئے، اس کو آئیڈیا اچھا لگا ،اس نے اچانک رات کے آٹھ بجے ٹی وی چیانل سے نوٹ بندی کا اعلان کردیا اور پورے دیش میں ہاہا کار مچ گیا لوگ تڑپ گئے، دھندے بند ہوگے، سارے کاروبار ٹھپ ہوگئے، دکانیں بند ہوگئیں،لوگ بے روزگار ہوگئے، نہ دہشت گردی ختم ہوئی نہ رشوت ختم ہوئی، وہ مہان دیش اس چوتھی پاس راجہ کی وجہ سے پندرہ بیس برس پیچھے ہوکر برباد ہوگیا۔ ایک دن کچھ لوگ کسانوں کا کالا قانون لے کر راجہ کے پاس گئے بولے اس سے کھیتی خوب بڑھے گی، یہ قانون پاس کردو، اس کم عقل راجہ نے وہ کالے قانون کو منظوری دیدی اور پھر ملک بھر کے کسان سڑکوں پر اتر آئے جس میں سینکڑوں کسانوں کی جان چلی گئی، شدید احتجاج کے باعث وہ کالا قانون واپس لینا پڑا۔ راجہ محمد بن تغلق جیسے من مانے فیصلے کرنے لگا۔اس کی حرص و ہوس بڑھنے لگی اور پیسہ کمانے کی دھن سر پر سوار تھی ،اس نے اپنے ایک دوست کو بلاکر بولاتجھے میں بڑے بڑے ٹھیکے دلاﺅنگا بس نام تیرا اور پیسہ میرا دس فیصد تجھے دوں گا باقی سارا پیسہ میرا ،پھر دونوں نے مل کر ملک کے بینکوں اور خزانوں کو خوب لوٹا یہاں تک کہ سارا دیش کنگال ہو گیا” یہ تھی چوتھی پاس راجہ کی کہانی اروند کجریوال کی زبانی۔ آپ کو کیسی لگی؟