مضامین

رام مندر افتتاح کے بعد مہاراشٹرا اور شمالی ہندوستان میں مخالف مسلم فسادات۔ کئی شہر زد میں آگئے2024ء الیکشن جیتنے کے لئے ضروری سامان مہیا ہوگیا۔ ہندو مسلم ووٹرس کے درمیان ایک دراڑ پیدا ہوگئی

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ شوبھا یاترا کے نام پر مساجد کے سامنے مسلمانوں کو DJ پر گالیاں۔
٭ مساجد اور گرجا گھروں پر بھگوا جھنڈے لگائے جارہے ہیں۔
٭ مسلمان خوف و بے چینی کے عالم میں۔
٭ وہی سب ہوا جس کا ندیشہ تھا۔
٭ ملک کا سیکولر کردار ختم کرنے کی کوشش۔
رام مندر کے افتتاح کے بعد ایک منظم طریقہ سے فرقہ وارانہ زہر سارے ملک میں پھیلایا جارہا ہے تاکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے درجہ کا شہری بنادیا جائے یہاں تک کہ اس کے ووٹ کی کوئی قیمت باقی نہ رہے۔ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہا ہے۔ ہم ایک عجیب خطرناک دور سے گزررہے ہیں جہاں اندھوں پر کچھ بدعقل حکومت کررہے ہیں۔ ہندوستانی عوام بصارت سے محروم ہوگئے ہیں کیوں کہ ان کے رگ و پئے میں فرقہ وارانہ زہر سرائیت کرگیا ہے کیوں کہ یہ Slow Poisoning گزشتہ دس سال سے ہورہی ہے۔ سارا ہندی بیلٹ خصوصاً بہار‘ اترپردیش‘ ہریانہ‘ مدھیہ پردیش‘ راجستھان اور گجرات تو پہلے ہی سے متاثر تھے لیکن دو دنوں سے شہر ممبئی میں بھی فرقہ وارانہ دنگے ہوئے ہیں۔ ان دنگوں سے اب تلنگانہ بھی محفوظ نہیں رہا کیوں کہ دولت آباد‘ نرساپور جیسے دیہی علاقے بھی اس زہر سے محفوظ نہیں ۔ اترپردیش پولیس نے لکھنؤ میں مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ دنگائیوں کو گرفتار کیا جو مسلم خواتین کو DJ کی دھنوں پر گالیاں دے رہے تھے اور مسجد میں گھسنے کی کوشش کررہے تھے۔ آگرہ شہر کی ایک بڑی مسجد پر کچھ اشرار نے حملہ کیا اور میناروں پر بھگوا جھنڈے لہرائے۔ بعض مقامات پر گرجا گھروں کی بھی توہین کی گئی۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ ہوجائے۔ پھر اس کے بعد ہندو ووٹس بٹورنا کوئی بڑی بات نہ ہوگی۔ اب ملک کے سیکولرازم کو تک ختم کرکے ایک ہندو مملکت بنانے کی تیاریاں ہورہی ہیں جن کے آثار اس وقت ظاہر ہوئے جب نئی پارلیمان کے سنگِ بنیاد پر ہندوستانی دستور کا Preamble لکھا گیا تو اس میں سے لفظSecular غائب کردیا گیا تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ اب ملک میں دستور کی نہیں بلکہ منوسمرتی کی حکمرانی ہوگی۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ بھی بے بس ہوگئی کیوں کہ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ دستور کا تابع ہوتا ہے ۔ ہمارے ہر دل عزیز وزیراعظم نے ملک کی ہر چیز فروخت کردی۔ ریلوے ‘ ایر لائنس‘ معدنی ذخائر وغیرہ لیکن پھر بھی وہ ’’قابلِ تحسین‘‘ ہیں کہ انہوں نے انکم ٹیکس ‘ انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ ‘ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور سپریم کورٹ کو خریدلیا۔ کیا خوب سودا ہے اور ان اداروں کی مدد سے ہر وہ کام کرسکتے ہیں جو ناممکن تھا۔ سپریم کورٹ کی حکومت کی تابعداری کی سب سے بڑی مثالیں بابری مسجد اور آرٹیکل370 پر فیصلے ہیں جن میں حکومتی اقدامات کی سرپرستی کی گئی ہے۔
کچھ دن قبل ایک انٹرویو میں سابق گورنر جموں و کشمیر مسٹر ستیہ پال ملک نے کرن تھاپر سے کہا تھا کہ موجودہ حکومت الیکشن سے پہلے کچھ بھی کرسکتی ہے جن میں پلوامہ حملہ جیسی کوئی حرکت سارے ملک میں بھیانک فسادات حتی کہ ایک مختصر سی جنگ بھی ہوسکتی ہے۔
لیکن رام مندر کے افتتاح میں جو نریندر مودی کی زبردست اداکاری کے جوہر نظر آئے وہ ثابت کررہے ہیںکہ وہ کم پڑھے لکھے ‘ جاہل ‘ بے روزگار ‘ نوجوانوں‘ لڑکیوں پر کس قدر اثر انداز ہوسکتے ہیں کہ بعض ہندو دھرم کے گوشوں سے انہیں کسی بھگوان کے اوتار کی طرح بتایا جارہاہے اور اس عمل میں ملک کا گودی میڈیا یا مودی میڈیا کس قدر پیش پیش نظر آتا ہے اور ان کے اینکرس مودی کی تعریف میں رطب اللسان نظر آرہے ہیں۔ مودی سے آگے کچھ نہیں ۔ آگے مودی ‘ پیچھے مودی‘ دائیں مودی‘ بائیں مودی ‘ اوپر مودی‘ نیچے مودی او رہر طرف مودی ہی نظر آرہے ہیں۔
سہ بارہ اقتدار کی ہوس میں موجودہ حکمراں پارٹی اس قدر آگے بڑھ رہی ہے کہ اسے اپنے ملک کی دم توڑتی ہوئی معیشت کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ IMF کا قرض بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ ملک پر اس وقت 185 لاکھ کروڑ روپیہ کا قرض ہے اور قومی آمدنی کا50فیصد تو صرف قرض کے سود کے طورپر ادا کیا جارہا ہے۔ اگر قرض وصولی اور نادہندگی کا یہی دستور جاری رہا تو وہ دن بہت زیادہ دور نہیں جب ملک کی قومی آمدنی ادا شدنی سود کے برابر بھی نہ رہے گی پھر بھی یہ طرہ ہے کہ ہم دنیا کی تین معیشتوں میں سے ایک ہیں۔ ووٹ کے حصول کی خاطر85 کروڑ بھوکے پیاسے ہندوستانیوں کو ماہانہ پانچ کلو اناج۔ ایک کلو تیل آئندہ پانچ سال تک دیا جائے گا اور اس کے عوض 85 کروڑ بھوکے پیاسے ہندوستانی زعفرانی پارٹی کو دوبارہ اقتدار پر لائیں گے جس نے نہ صرف ہزاروں بلکہ لاکھوں سال کے بے گھر بھگوان کو گھر مہیا کیا بلکہ ان کے رہنے کے لئے سونے کا مندر بنوایا۔
سوائے اس کے کوئی معجزہ ہو زعفرانی پارٹی کو سہ بارہ اقتدار حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا کیوں کہ انڈیا گٹھ بندھن میں دراڑیں پڑگئی ہیں۔ اروند کجریوال بھی ایک اینٹ کا مندر بنارہے ہیں۔ ممتا بنرجی نے اعلان کیا کہ وہ خود اکیلی الیکشن لڑیں گی۔ مایاوتی بھی اپنا الگ گھر بنارہی ہیں۔ پہلے یہ سمجھا جارہا تھا کہ اگر اپوزیشن متحد ہو تو مودی کو اس طرح اقتدار سے محروم کیا جاسکتا ہے جیسے کہ دودھ سے مکھی ۔ مگر ایسا کچھ ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا ہے۔
ان حالات میں یہ سمجھنا کہ ملک میں یکساں سول کوڈ قانون نافذ نہیں ہوگا‘ ایک غلط فہمی ہوگی۔ علاوہ ازیں دستور کے آرٹیکل21,19,14اور25 بھی حذف کردیئے جائیں گے۔ آرٹیکل400-A کو نکال باہر کیا جائے گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ریزرویشن بھی ختم کردیئے جائیں گے۔ لینڈ ٹائٹلنگ ایکٹ اور وراثت ایکٹ نافذ کیا جائے گا اور لوگوں سے جائیداد رکھنے کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔ ایک فاقہ زدہ ‘ بے بس ‘ مجبور ‘ بے روزگار اور مہنگائی کی مار سے پریشان حال اور کربھی کیاسکتے ہیں۔
عائلی مسائل ۔ خلع۔ طلاق۔ جائیداد کی تقسیم کا یہی موزوں وقت ہے
اگر یکساں سیول کوڈ نافذ ہوجائے تو طلاق و خلع کے لئے تڑپنا پڑے گا
اگر یکساں سیول کوڈ نافذ ہوجائے جیسا کہ حالات و واقعات بتارہے ہیں تو مسلمانوں کو اپنے عائلی مسائل کے حل کے لئے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ طلاق یا علاحدگی صرف عدالت کے ذریعہ ہوگی اور اس کے لئے کئی سال انتظار کرنا پڑے گا کیوں کہ عدالت حسبِ معمول ہر طلاق کے کیس کو Cooling Period میں ڈال دے گی اور معاملہ کئی سال تک لٹکتا رہے گا۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بعض خواتین اپنے شوہروں سے طلاق یا خلع کی طالب ہوتی ہیں اورآپسی معاہدہ کے تحت لاکھوں روپیہ وصول کرتی ہیں۔ بعض مرد بھی بطورِ سزا اپنی بیوی کو کئی سال تک لٹکادیتے ہیں اور وہ بے چاری اس قابل نہیں رہتی کہ بغیر خلع یا طلاق کے دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ فریقین بہت مشکلات کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اگر قانون لاگو ہوتو مرددوسری شادی نہیں کرسکتا کیوں کہ ایسا عمل جرم سے تعبیر کیا جائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ غیر مسلم یعنی ہندو‘ عیسائی اور سکھ ایک بیوی کے رہتے دوسری شادی نہیں کرسکتے اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں اور یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے تو ان پر مقدمہ چلایا جاسکتا ہے اور سزائے قید بھی ہوسکتی ہے۔
علاوہ ازیں قانون کے نفاذ کے بعد وراثت کا جب مسئلہ اٹھے گا تو بیٹی اور بیٹے کا حصہ برابر کا ہوگا۔ ایسی صورت میں صاحبِ جائیداد اگر اپنے بچوں میں اپنی جائیداد بذریعہ زبانی ہبہ اپنی جائیداد کی تقسیم کردیں تو بعد میں الجھنیں پیدا نہ ہوں گی کیوں کہ بیٹی داماد کے اثر میں آکر اپنے بھائیوں کے خَاف جائیداد کی تقسیم کا مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔
لہٰذا اس سے پہلے کہ یہ مصیبت آئے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔
اگر میاں بیوی میں اختلافات ہوں اور مفاہمت کی کوئی صورت نہ ہو تو Deed of Family settlement Khulaکے ذریعہ علاحدگی ہوسکتی ہے۔ یعنی وہ کام جو گھر میں ہوسکتا ہے اس کے لئے عدالت سے رجوع ہونا پڑسکتا ہے۔
سوال:- عرض خدمت ہے کہ میں ایک بیوہ ہوں کئی سال سعودی عرب دمام میں بحیثیت نرس زائد از بیس سال خدمت کرکے واپس آئی اور ایک چھوٹے سے مکان کو خریدا اور اس کے اوپر ایک منزل اور بنالی۔ یہی مکان اب میری زندگی کا سہارا ہے اور اس کے کرایہ پر میرا گزر ہوتا ہے۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرا ایک بیٹا بہت ظالم ہے۔ مجھ پر ظلم کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم یہ مکان فروخت کرکے میراحصہ دیدو۔ اس مکان کی خرید و تعمیر میں میرے شوہر کا ایک پیسہ بھی نہیں۔ بیٹا اب دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ مجھ پر مقدمہ دائر کرے گا اور FIR درج کروائے گا۔ میرا جینا حرام ہوگیا ہے۔ آپ سے اس مسئلہ کا حل دریافت کرنا چاہتی ہوں۔
جواب:- اس مکان میں آپ کے بیٹے کا آپ کی زندگی میں کوئی حق نہیں ہے۔ وہ آپ پر اس طرح ظلم نہیں کرسکتا۔ آپ فوری طور پر اس کے نام ایک قانونی نوٹس جاری کروائے کہ وہ آپ کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ورنہ اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جاسکتی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w