مضامین

سری لنکا میں معاشی بحران! ذمہ دار کون؟

شہاب مرزا

سری لنکا کی لنکا بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ شہری کافی عرصے سے حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔لوگوں کا غصہ اتنا بڑھ گیا سری لنکا کے راشٹرپتی بھون پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ اسی دوران کولمبو میں سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کی نجی رہائش گاہ کو بھی مظاہرین نے نذر آتش کر دیا۔ صدر گوٹابایا راجہ پکشے ملک چھوڑ کر فرار ہوچکے ہیں۔ ان کے بھائی سابق وزیراعظم مہندا راجہ پکشے پہلے ہی ملک چھوڑچکے ہیں۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے اور رانیل وکرماسنگھے کو نگران وزیراعظم مقرر کیا گیا ہے ۔
سری لنکا میں افراتفری اور عدم استحکام کے اس ماحول کو لے کر بھارت میں بھی سیاسی بیان بازی شروع ہو گئی ہے۔ اپوزیشن سری لنکا کی ابتر صورتحال کو جواز بنا کر مرکز کی مودی حکومت پر حملہ آور ہے۔ سری لنکا کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے ٹی ایم سی کے ایک ایم ایل اے نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ عرصے بعد ہندوستان میں بھی ایسا ہی ہنگامہ ہوگا۔
”مودی جی کو بھی بھاگنا پڑے گا۔ مودی جی بھارت میں مکمل ناکام ہیں، یہ سری لنکا سے بھی بدتر ہوگا اور پی ایم مودی کو بھی استعفیٰ دے کر ملک سے بھاگنا پڑے گا۔“
سری لنکا میں معاشی مسائل کے باعث پیدا ہونے والا سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، بجلی کی بندش کی وجہ سے لوگوں کے روزمرہ کے معمولات بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ایسے میں لوگوں کو اب اور کتنے دن گزارنا ہے، پتہ نہیں ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ روز مرہ کی اشیا کی قیمتیں عام آدمی کے بس سے باہر ہوتی جارہی ہیں ، پچھلے ایک مہینے میں ضروری اشیا کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں ، ایسے ماحول میں لوگ ایک ہفتہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ بے بس محسوس کر رہے ہیں، لوگ نہ تو مناسب ناشتہ کر رہے ہیں اور نہ ہی کھانا کھا رہے ہیں۔ لوگ گھر سے نکلتے ہی ٹرانسپورٹ کے ذرائع تلاش کرنے میں تگ و دو کر رہے ہیں۔سری لنکا کے شہروں میں اس وقت ایندھن کی اس قدر قلت ہے کہ ایندھن کے لیے انسانی قطار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ نظر آتا ہے۔ ایندھن ملنے کی آس میں قطاروں کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے، لیکن لوگوں کو ایندھن نہیں مل پارہا ہے۔ آٹو رکشہ ڈرائیور اپنے آٹھ لیٹر کے ٹینکوں کے ساتھ کئی کئی دن لمبی قطاروں میں گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہیں تیل حاصل کرنے میں 48 گھنٹے تک قطار میں کھڑے رہنا پڑ رہا ہے ، اس لیے وہ دوبارہ قطار میں لگنے سے بچنے کے لیے تکیے، کپڑے اور کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لا رہے ہیں ، حالت یہ ہے کہ اس جنوبی ایشیائی ملک کے لوگوں کی خوراک میں دال، چاول بھی لگژری آئٹم بن چکی ہے۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب سری لنکا میں تازہ مچھلی سستی اور وافر مقدار میں دستیاب تھی، لیکن اب مچھواروں کے لیے سمندر تک پہنچنا مشکل ہو گیا ہے اور ماہی گیر اپنا سامان ہوٹلوں اور ریستورانوں میں فروخت کر رہے ہیں۔ مچھلی کی قیمت میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ مچھلی اب عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔ ناراض لوگ مہینوں سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ راجا پکشے خاندان اور ان کی حکومت کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔حالت یہ ہے کہ سری لنکا کے زیادہ تر بچے تقریباً بغیر پروٹین والی خوراک پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بحران اتنا گہرا ہے کہ اس نے ملک کی ‘مائیکرو اکانومی’ سے لے کر ‘مالیکیول’ تک ہر چیز کو متاثر کیا ہے۔ بچوں کے لیے ملک میں دودھ کے پاو¿ڈر کی زیادہ تر ضرورت درآمدات سے پوری ہوتی ہے۔ اس لیے بازاروں میں دودھ کا پاو¿ڈر بہت مشکل سے نظر آتا ہے۔اقوام متحدہ اب سری لنکا میں غذائی قلت اور انسانی بحران سے خبردار کر رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سری لنکا میں یہ سب کیوں ہورہا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ سری لنکا میں اقتدار پر ایک ہی خاندان کی پچھلے کئی برسوں سے اجارہ داری رہی ہے ، مہندرا راجا پکشے سری لنکا کے وزیر اعظم تھے ، ان کے بھائی گوٹابایا راجا پکشے سری لنکا کے صدر رہ چکے ہیں جو کہ فی الوقت روپوش ہیں ، وزارت دفاع بھی ان کے پاس تھی ،مہندا راجاپکشے ایک ایسے خاندان کے سب سے مشہور رکن ہیں جو کبھی بھی قومی سطح کی سیاست میں بڑی قوت نہیں رہا تھا۔ان کا تعلق جنوبی شہر ہمبنتوتہ کے زمیندار گھرانے سے ہے اور مہندا پہلی مرتبہ جب 1970 میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تو وہ اس مقام تک پہنچنے والے ملک کے کم عمر ترین شخص تھے۔ پھر اسّی کی دہائی میں مہندا اور اُن کے بڑے بھائی چمل دونوں ہی پارلیمان کے لیے منتخب ہوئے،مہندا کو سنہ 87 سے 89 تک جاری رہنے والی ایک بائیں بازو کی بغاوت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے پر شہرت ملی۔ انہوں نے اس معاملے میں اقوامِ متحدہ سے مداخلت کی بھی اپیل کی تھی۔سنہ 1994 میں انہیں ملک کے نئے صدر چندریکا کماراتنگا نے وزیرِ محنت مقرر کیا۔ دس برس بعد وہ وزیرِ اعظم بن گئے اور سنہ 2005 میں انہوں نے باریک مارجن سے صدارت کا عہدہ بھی حاصل کر لیا۔اس کے بعد وہ سنہ 2005 سے 2015 تک دو ادوار کے لیے صدر رہے۔ سنہ 2009 میں ان ہی کے دورِ حکومت میں تقریباً 30 برس تک جاری رہنے والی تامل بغاوت کا خاتمہ ہوا۔ان پر اس دوران کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگے، بالخصوص نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے۔ اس ملک کی 75 فیصد آبادی سنہالی بودھ ہے۔ وہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ یہ پر تشدد بغاوت راجا پکشے خاندان کے خلاف ہے، لیکن اس کا مواد کئی دہائیوں سے سنہالی بدھ مت اکثریت پر مبنی آمریت ہے،معاشی عدم مساوات کو گہرا کرنا اور کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف بڑھتا ہوا غصہ۔راجا پکشے یعنی سری لنکا کے صدر جو عوام کے خوف سے ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں ، ان پر 40 ہزار ٹامل شہریوں کو قتل کرنے کا الزام ہے۔ راجا پکشے تاملوں کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوئے تو اوپر سے ان پر بموں کی بارش کردی گئی۔ اس وقت راجا پکشے سری لنکا کی فوج کی قیادت کر رہے تھے جبکہ ان کے بھائی مہندا راجا پکشے حکومت چلا رہے تھے۔تنازعات کے باوجود راجاپکشے خاندان سری لنکن سیاست پر اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ گوٹابایا کے پاس وزارتِ دفاع میں ایک سینئر عہدہ تھا اور کئی لوگ خانہ جنگی سے نمٹنے پر ان کی تعریف کرتے ہیں۔چمل زراعت، ماہی گیری اور آبپاشی سمیت کئی وزارتیں سنبھال چکے ہیں اور ان کے ایک اور بھائی بیزل کے پاس کچھ عرصے تک مالیات اور اقتصادی ترقی کے محکمے رہے ہیں۔ان چار بھائیوں کے علاوہ بھی اس خاندان کے کئی ارکان عوامی عہدوں پر رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مہندا کے بیٹے نمل اور یوشیتھا ہیں۔ نمل حال ہی میں سری لنکا کے وزیرِ کھیل رہ چکے ہیں اور یوشیتھا اپنے والد کے استعفے تک وزیرِ اعظم کے چیف آف اسٹاف تھے،لیکن اس خاندان کو سنہ 2015 میں صدارتی انتخاب میں مہندا کی غیر متوقع شکست سے دھچکا پہنچا تھا۔ وہ چار سال بعد ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئے اور اس مرتبہ اقتدار کی باگ ڈور گوٹابایا کے ہاتھ میں تھی۔ سری لنکن آئین کے تحت سابق صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔قوم پرست ایجنڈا کے ساتھ نئے صدر نے امن و امان کی صورتحال کے ساتھ خاندان کے پرانے تعلق کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ گوٹابایا کو جمہوریت یعنی مساوات کا گلا گھونٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ گوٹا بایا نے ان سینکڑوں لوگوں کو غائب کر دیا ہے جو ان پر تنقید کرتے تھے۔ ان پر قتل کا الزام ہے۔ لیکن جیسا کہ ہر آمر کرتا ہے ، انہوں نے بھی کیا۔ گوٹا بایا نے ہر الزام کی تردید کی۔انہوں نے جو سب سے خطرناک کام کیا وہ ”بولو بالا سینا“ کا قیام تھا۔ ایک قسم کی قوم پرست ملیشیا تنظیم۔یہ ہندو سینا یا بجرنگ دل جیسا تھا جس کا کام تامل-مسلم-عیسائیوں کو گالی دینا، انہیں غدار ثابت کرنا، راجا پکشے کو سب سے بڑا لیڈر اور سری لنکا کو سونا بتانا تھا، لیکن جھوٹ کی عمر کہاں طویل ہوتی ہے کچھ عرصے بعد یہ جھوٹ سامنے آگیا۔ہر وہ جھوٹ جو سماج کو نفرت کے تالاب میں ڈالتا ہے ایک دن تباہ ہو جائے گا۔ جس طرح سونے کی لنکا آگ میں جل رہی ہے، اسی طرح سونے کی چڑیا کے دل میں بھی آگ ہے۔لوگ کہانی پر یقین نہیں کرتے لیکن حقیقت پر یقین کرتے ہیں جب شہریان کو حقائق کا اندازہ ہوگا سارا منظر نامہ بدلتے دیر نہیں لگے گی ، اگر حالات ایسے ہی رہے تو وہ دن دور نہیں…
دہلی سلطنت کے تخت نشین اچھی طرح جانتے ہیں کہ سری لنکا کی آگ کسی بھی وقت ہندوستان تک پہنچ سکتی ہے، اس لیے فوج، بحریہ کو الرٹ بھیج دیا گیا ہے۔ہندو ہندوتوا، وشوا گرو، 5 کھرب کی معیشت اور دلال میڈیا جیسے سنہرے جھوٹ کے سہارے اس غیر اخلاقی اور کرپٹ نظام کو کب تک بچایا جائے گا؟جب لوگ اندھی عقیدت، جعلی قوم پرستی اور مذہبی جذبات کے سامنے انسانیت کو بھول جاتے ہیں تو ملک پر ایسے ہی بحران آتے ہیں۔ مذہبی جنونیت سے حکومت بن سکتی ہے، روزگار، ترقی نہیں ملتی۔ دنیا کے لیے ایک پیغام اور ہمارے ملک کے لیے ایک زندہ مثال سری لنکا ہے۔جمہوریت میں جب حکومت آئین چھوڑ کر مذہب پر چلنے لگتی ہے تو پھر یہی ہوتا ہے، لوگوں کو مذہب کا عادی بنانے والے سری لنکا کی تباہی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سری لنکا میں بھی میڈیا سرکاری ہوگئی تھی جس طرح بھارت کی میڈیا آج سرکار سے زیادہ مذہبی معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔ ملک پر 2014 میں 56.51 لاکھ کروڑ کا قرض تھا جو 2022 میں بڑھ کر 139 لاکھ کروڑ ہو گیا ہے لیکن ڈیبیٹ ہندو مسلم پر ہوگا، کوئی سوال نہیں کرے گا، پانچ کلو راشن کھاو¿ اور ٹھنڈا ہو جاو¿، مودی جی دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔ 2011 میں بھارت دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی سپر پاور تھا۔ 2021 میں ہندوستان دنیا کی ساتویں بڑی اقتصادی سپر پاور بن گیا۔اور بھارت میں گودی میڈیا دن رات مودی کا نعرہ لگا رہا ہے، جب کہ ٹی وی کے مالک مہنگائی، عوام کی بے بسی، بے روزگاری، پر بے حس نظر آرہے ہیں۔بھارت میں بھی مذہب کی سیاست ہو رہی ہے اور اس میں سب سے اہم کردار گودی میڈیا نبھا رہا ہے۔جس ملک کی سیاست سری لنکا جیسی ہو گی، اس ملک کا بیڑہ غرق ہونا یقینی ہے۔