قیصر محمود عراقی
اللہ کا پسندیدہ اور محمدﷺ کا لایا ہوا دین اسلام اپنے اندر سنجیدگی ، متانت ، جامعیت اور حُسن رکھتا ہے ، اس کے ہر ایک امرو نہی میں لاتعداد حکمتیں اور مصالح پوشیدہ ہیں ، جو ہر جہت سے مدلل اورہرزایئے سے روشن اور واضح ہیں، تفکر کر نے والے دل اس کے احکامات اور مہنیات میں دنیا و آخرت کے ہزارہا ثمرات دیکھتے اور رب العالمین کی بے مثل ذات پر پہلے سے زیادہ ایمان و ایقان مضبوط کر لیتے ہیں ، پھر دنیا کی نا پائیداری انہیں جادحق سے دور نہیں کر سکتی ۔ ایسے دل والے جب بات کر تے ہیں تو ان کی ہر بات سے لوگ استقامت اور دل جمعی کی سو غاتیں کشید کر تے ہیں ۔ ان ہی عظیم لوگوں کی باتیں ضرب المثل بن کر دوسروں کی راہ نمائی کا سامان کر تی رہتی ہیں ۔ لیکن افسوس صد افسوس اس دنیا میں کامل و اکمل اور جامع و سنجیدہ دین کے ماننے والے ہزاروں ایسے ہیں جنہیں اس کی کوئی پر واہ نہیں ، انہیں بس مطلب ہے تو فقط اس سے کہ ان کی شہرت و مقبولیت میں جیسے بھی اضافہ ہو نا چاہیئے ، خواہ اس کے لئے دین کی توہین و تحقیر ہی کیوں نہ ہو۔ ( العیاذ باللہ)
سوشل میڈیا پر تو آج کل جو طوفان بدتمیری مچا ہوا ہے کہ الامان ، ’’ فیس بک‘‘ پر تو لوگوں نے معاذ اللہ دین کو باز یچئہ اطفال بنایا ہوا ہے ۔ کوئی ایسی پوسٹ جس میں ان کے مطابق دین کی کوئی بات ہو تو اس کے نیچے لکھا ہو گا ۔ کوئی منافق ہی ہو گا جو اس کو Shareنہیں کر ے گا ۔ کسی پوسٹ کے ساتھ لکھا ہو گا کوئی کافر ہی ہو گا جواسے Shareنہیں کر ے گا ۔ کہیں لکھا ہو گا جو مسلمان ہے وہ اسے Shareکر ے گا اور کہیں کسی پوسٹ کے Shareکر نے پر مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کی حاضری کی نویدیں ، رسول ﷺ کی شفاعت اور زیارت کی خوش خبریاں سنائی گئی ہو تی ہیں ( العیاذباللہ العلی العظیم ) اس طرح کی نہ جانے کتنی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ اللہ رب العالمین اور محمد رحمتہ العالمین ﷺ کے دین میں اس طرح کا کوئی تصور موجود نہیں ۔ بیت اللہ اور گنبد خضریٰ کی تصویر عام کر نے سے اگر رسول ﷺ کی شفاعت اور زیارت نصیب ہو تی تو صحابہ کرام ؓ پاکباز ان ملت و اولیا ئے ملت اس دین متین کو پھیلانے میں اتنی محنت وجد وجہہ نہ کر تے اور پھر عاجزی سے یخ بستہ راتوں کو جاگ کر اپنے رب کی بارگاہِ بے نیاز میں جبیں نیاز جھکانے کی بجائے کعبہ شریف اور مدینہ منورہ کی حسین تر تصاویر اپنے ہاتھوں سے بنا کر دنیا کے کونے کونے میں ان کی تشہیر کرتے نہ تھکتے ۔ منافقت اور ایمان کا معیار کسی کی شیئر کر دہ پوسٹ نہیں بلکہ اللہ اور اس کے عظیم القدر رسول ﷺ کی عطا کر دہ کسوٹی ہے ، جس پر ایمان و کفر اور منافقت و بے دینی کو پر کھا جا تا ہے ۔ اس لئے اس طرح کی ہر پوسٹ عام کر نے سے قبل خوب سوچا اور سمجھا جا ئے کہ کہیں اس کے سبب دین کا مذاق تو نہیں اُڑایا جا ئے گا ، ایسی پوسٹ کا آغاز کر نے والا سخت گناہ گار ہو گا اور جو اس کو عام کر ینگے وہ بھی گناہ ہگار ہو نگے اور ان سب کا گناہ اس کے آغاز کر نے والے پر بھی ہو گا ۔علاوہ ازیں کسی کو کافر یا منافق کہنا بجائے خود ایک بہت بڑا جرم ہے ۔ ہمارے آقا مولیٰ نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق جو کسی کو کافر کہتا ہے اگر وہ کافر نہ ہو تو وہ خود اپنے قول کی زد میں آجا تا ہے ، اسی طرح کوئی ایسی بات جو رسول ﷺ کی طرف منسوب کی جا ئے اور یوں کہا جا ئے کہ رسول ﷺنے فرمایا ، یا آپ ﷺ کا فرمان ہے تو اس سے پہلے بھی سو چنا چاہیئے کہ آیا یہ آپ ﷺ کا فرمان ہے بھی یا نہیں ، کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جو جان بوجھ کر میری طرف کوئی ایسی بات منسوب کر ے جو میں نے نہ کہی ہو تو اس کا ٹھکانہ جہنم میں ہے ۔ ایسے ہی کوئی کسی بات کو قرآن مجید کی آیت قرار دے ڈالے ، حالانکہ وہ قرآن کی آیت نہ ہو بلکہ کسی کا قول ہو تو اس نے گویا قرآن میں اضافہ کر نے کی مذموم کوشش کی اور پھر اس کا وبال نہایت خطرناک ہے ۔
ال غرض غیر اخلاقی کوئی بھی پوسٹ عام کر نا نہایت مذموم ہے تو دین کے حوالے سے کوئی ایسی پوسٹ عام کر نا جو دین کی بدنامی کا باعث بنے وہ کس قدر مذموم اور خطر ناک کام ہو گا۔لہٰذا دین کے حوالے سے خصوصاً خیال رکھنا چاہیئے کہ کوئی ایسی بات عام نہ ہو جو دین کی تحقیرو تذلیل کا باعث بن کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضی کا موجب ہو ، باقی اچھی بات عام کر نا جس سے لوگوں کے اخلاق سنوریں ۔ ان میں ایک دوسرے کے لئے اُخوت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو نے لگے ، دینی جذبہ بیدار ہو ، ملک و قوم کے لئے کچھ کر گذرنے کا شوق پیدا ہو ، فرقہ پر ستی کی نحوست ختم ہو اور معاشرہ برائیوں سے تائب ہو کر جنت نظیر بن جا ئے تو ایسی پوسٹ عام کر نا جہاں اخلاق حسنہ کی علامت ہے وہاں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کا ذریعہ بھی ہے ۔ ایک ذمہ دار مسلمان وہی ہے جو زندگی میں ہر حوالے سے احتیاط بر تے ، کوئی بھی کام کر ے تو خوب سوچ سمجھ کر کرے ، بولنے سے پہلے تو لے پھر بولے ، ایک روایت میں ہے کہ بعض اوقات انسان اپنے منہہ سے کوئی ایسی بات کہہ لیتا ہے جس کی سنگینی کا اسے احساس تک نہیں ہو تا تو اس کے سبب جہنم کے گڑھے میں لگاتار گر تا چلا جاتا ہے اور بعض اوقات ایسی بات کہہ لیتا ہے جس کی عظمت کا اسے اندازہ تک نہیں ہو تا اور وہ اس کے سبب جنت میں بلند مقامات طئے کر تا چلا جا تا ہے ایک اچھے مسلمان کی زندگی اعتدال اور توازن کا نمونہ ہو تی ہے ۔