مضامین

سپریم کورٹ کے بدلتے تیور

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں جس بے لاگ انداز میں اہم فیصلے دیے ہیں، اس سے مرکز کی بی جے پی حکومت کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی کارکردگی میں شفافیت لانے کے لیے سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے 2 مارچ کو یہ اہم فیصلہ دیا کہ حکومت چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرس کی تقرری کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے۔ اس کمیٹی میں وزیراعظم، لوک سبھا کے اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا کو شامل کیا جائے۔ یہ کمیٹی صدر جمہوریہ کو ایک نام تجویز کرے اور صدر کی منظوری کے بعد چیف الیکشن کمشنر و دیگر الیکشن کمشنران کا تقرر کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کر دیاکہ اگر لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر نہ ہو تو سب سے بڑی اپوزیشن کے قائد کو اس کمیٹی میں شامل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے حکومت کے ایوانوں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ ایک دوسرے فیصلہ میں سپریم کورٹ نے اڈانی گروپ کی جانب سے کی جانے والی ہزاروں کروڑ کی مالی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی حکومت کو ہدایت دی تا کہ ان الزمات کی سچائی سامنے آسکے جوہنڈنبرگ نے اپنی سنسی خیز رپورٹ میں اڈانی پر لگائے ہیں۔ فسطائی قوتوں کی جانب سے شہروں کے نام بدلنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس پر بھی اپنی کھری کھری سناتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں داخل کی گئی ایک درخواست کو خارج کرتے ہوئے یہ ریمارک کیا کہ تقسیم کرو اور راج کرو کی پالیسی انگریزوں کی تھی اور اب بعض عناصر ایسے موضوعات کو لاکر سماج کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں جس کی عدلیہ کبھی اجازت نہیں دے گی۔ واضح رہے کہ چند شرپسند عناصر سپریم کورٹ میں یہ درخواست لے کر رجوع ہوئے تھے کہ عدالت ،حکومت کو ایک ©” ری نیمنگ کمیشن "قائم کرنے کی ہدایت دے۔ سپریم کورٹ نے اس مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے عرضی خارج کر دی اور سخت لہجہ میں تبصرہ کیا کہ ملک ماضی کا قیدی بن کر نہیں رہ سکتا۔ شہروں، قصبوں اور سڑکوں کے قدیم نام بدل کر ان کو نئے نام دینے کی ایک روایت چل پڑی ہے۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر اور معروف ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے باضابطہ ناموں کی تبدیلی کا کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے لیکن ان پر جب عدالت کی جانب سے سرزنش ہوئی تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ سماج کو کس خطرناک دہانے پر لے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مہاراشٹرا کے تاریخی شہر اورنگ آباد کا نام بدل کر چھتر پتی سمبھا جی نگر کر دیا گیا۔ اس پر اورنگ آباد کے شہریوں کا احتجاج اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح الہ آبادکا نام پریاگ راج کر دیا گیا۔ اب یوپی کے مشہور شہر رام پور کا نام بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سابق میں دہلی کی سڑکوں کا نام بدل دیا گیا۔ ان میں اکبر روڈ، لودھی روڈ اور ہمایون روڈ وغیرہ شامل ہیں۔ شہروں اور سڑکوں کے ناموں کی یہ تبدیلی مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔اس قسم کی حرکتوں سے مسلمانوں کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے لیکن دنیا جان رہی ہے کہ ماضی کے گڑھے کھود کر ہندوتوا طاقتیں کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اسی زہریلی ذہنیت پر روک لگانے کے لیے نام بدلو کمیشن قائم کرنے سے صاف انکار کردیا۔ لیکن یہ طاقتیں سپریم کورٹ کی جانب سے دھتکار دیے جا نے کے باوجود خاموش نہیں رہیں گی۔ کسی نہ کسی طرح اس ایشو کو الیکشن تک زندہ رکھا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے ملک کی اعلیٰ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ملک میں انتشار کا ذریعہ بننے والی اس گھٹیادرخواست کو خارج کر دیا ۔
الیکشن کمیشن سے متعلق سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے بڑے دوررس اثرات ملک کی سیاست پر پڑیں گے۔ عدالت عظمیٰ کایہ فیصلہ ملک میں غیر جابندار اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ جسٹس کے۔ ایم ۔ جوزف کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کہا کہ اقتدار کے آگے گھٹنے ٹیکنے والے کمزور شخص کو الیکشن کمشنر کے طور پر مقر رنہیں کیا جاسکتا۔ عدالت کا ماننا تھا کہ کوئی بھی شخص جو اختیارات اور اقتدار کے سامنے خود کو مقروض محسوس کرے وہ قوم کو ناکام بنا دیتا ہے ۔ اس لیے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرس کے تقررات میں انقلابی تبدیلی لاتے ہوئے سپریم کورٹ نے واضح کر دیا کہ اب اس معاملے میں وزیراعظم، لوک سبھا کے اپوزیشن لیڈر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا ناموں پر اتفاق ضروری ہے۔ اس طرح سپریم کورٹ نے حکومت کو لگام دے دی۔ اب تک یہ ہوتا رہا کہ حکومت ہی اپنی مرضی سے کسی کو ان اعلیٰ عہدوں پر فائز کر تی رہی۔ اس سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر بڑا بُرا اثر پڑا۔ خاص طور پر حالیہ عرصہ میں ارون گوئل کو جس جلد بازی سے الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا،اس سے اس دستوری ادارے کی ساکھ کافی حد تک متاثر ہو گئی۔ الیکشن کمشنر کے عہدہ پر فائز ہونے سے ایک دن پہلے تک ارون گوئل اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز تھے۔ سول سروس سے رضاکارانہ سبکدوشی کے فوری بعد انہیں الیکشن کمشنر کا رکن بنادیا گیا۔ جس انداز میں ان کے تقرر کی فائل کو منظور دی گئی اسی وقت سے یہ شکوک ظاہر کئے جا رہے تھے کہ حکومت اپنی پسند کے افراد کو الیکشن کمیشن میں لارہی ہے تا کہ آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں ان سے مدد لی جاسکے۔ حکومت کی اسی جلدبازی نے سپریم کورٹ کے بھی تیور بدل دیے۔ سپریم کورٹ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ بی جے پی حکومت جمہوری اور دستوری اداروں کو اپنی گرفت میں لے رہی ہے۔ اس سے لازمی طور پر ملک کی جمہوریت پر منفی اثر پڑے گا۔ اس لیے سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرس کے تقرر کے ضمن میں حکومت کو من مانی کرنے سے روک دیا۔ پانچ رکنی دستوری بنچ کا یہ فیصلہ جہاں عدلیہ کی بالادستی کو ثابت کرتا ہے وہیں ملک میں صاف اور شفاف الیکشن کے انعقاد کی راہیں فراہم کرتا ہے۔ مودی حکومت کے دور میں دیگر اداروں کی طرح الیکشن کمیشن پر بھی یہ الزامات لگتے رہے کہ یہ کمیشن حکومت کے اشاروں پر کام کر رہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بہت سارے ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کی جابنداری کو ملک کے عوام کے سامنے پیش کیا۔ الیکشن کمیشن کا فرض منصبی ملک میں وقفے وقفے سے منعقد ہونے والے انتخابات کو پوری غیر جانبداری کے ساتھ منعقد کرنا ہے۔ دستور ہند نے الیکشن کمیشن کے فرائض اور اختیارات کو بھی دفعہ 324سے دفعہ 329تک بیان کر دیا ہے۔ ان دفعات کی روشنی میں الیکشن کمیشن کو اپنے فرائض انجام دینا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے دیکھا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے عہدیدار حکومت کے اشاروں پر کام کرنے لگے ہیں۔ انتخابات کی تواریخ کے اعلان سے لے کر نتائج تک اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کسی بھی ریاستی اسمبلی کے الیکشن کے لیے مرکزی حکومت کی مرضی کو سامنے رکھا جا رہا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران بر سر اقتدار پارٹیوں کو من مانی چھوٹ دی جا رہی ہے اور اپوزیشن کی انتخابی مہم میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ امتیازی سلوک کی بیسوں مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ ساری خرابیاں اس لیے پیدا ہوئی ہیں کہ الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کا تقرر اب تک مرکزی حکومت یا بالفاظ، دیگر وزیراعظم کرتے رہے ہیں۔ صدر جمہوریہ کی منظوری محض ایک رسمی کارروائی ہوتی ہے۔ اس لیے الیکشن کمیشن حکومت کی مرضی اور منشاءکو اولیت دیتا رہا ہے ۔ اس سے اس کی کارکردگی متاثر ہوئی اور عوام میں بھی الیکشن کمیشن اپنا اعتماد باقی نہ رکھ سکا۔
الیکشن کمیشن پر سے عوام اور سیاسی پارٹیوں کا اعتماد اٹھ جانا جمہوریت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور اس کی شفافیت ہی ملک میں جمہوریت کی ضمانت دے سکتی ہے۔ ورنہ جمہوریت کے نام پرمطلق العنانی کو فروغ حاصل ہوگا۔ ملک کی آزادی کے کئی دہوں تک الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر کوئی سوال نہیں اٹھتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے حکومتوں کی نیت بدلتی گئی، ملک کے دستوری اور جمہوری اداروں میں حکومت کی مداخلت بڑھتی گئی۔ خاص طور پر اس وقت ملک کا کوئی ادارہ حکومت کی گرفت سے آزاد نہیں نظر آتا۔ الیکشن کمیشن کا کمشنر ایک رہے یا دو یا اس سے زائد، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل سوال جو سپریم کورٹ نے اٹھایا ہے کہ جو شخص اقتدار اور اختیارات کے سامنے کمزور ہو وہ قوم کو بھی ناکام کر دیتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ "بیلٹ ( ووٹ ) بُلٹ ( بندوق ) سے زیادہ طاقتور ہے ۔ اگر الیکشن آزادانہ اور منصفانہ انداز میں منعقد ہوں تو جمہوریت عام آدمی کے ہاتھوں ایک پرُ امن انقلاب کی سہولت فراہم کرتی ہے”سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ قابل توجہ ہے۔ اگر ملک میں جمہوری قدروں کو پروان چڑھانا ہے تو انتخابات میں شفافیت لازمی ہے اور یہ کام وہی چیف الیکشن کمشنر کر سکتے ہیں جن کا انتخاب غیرجانبدار انداز میں ہو۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کے تقرر کے لیے نیا قانون وضع ہوجاتا ہے تو یہ ممکن ہے کہ ملک میں ہونے والے انتخابات کو بڑی حد تک منصفانہ انداز میں منعقد کیا جاسکتا ہے۔ نقائص سے پاک الیکشن کمیشن کے قیام کی جانب یہ پہلا قدم ہوگا۔ اس سے انتخابی دھاندلیوں کا بھی سدباب ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا موجودہ حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو عملی جامہ پہننانے میں اپنی دلچسپی دکھائے گی۔ سپریم کورٹ کا مذکورہ فیصلہ بی جے پی حکومت کو ہضم نہیں ہوگا۔ اس تاریخی فیصلہ کو روبہ عمل لانے میں حکومت ٹال مٹول سے کام لے گی۔ اب جبکہ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے والے ہیں اور پھر 2024میں ایک بڑی مہا بھارت کا مرحلہ درپیش ہے۔ ایسے نازک وقت مودی حکومت یہ جرائت مندانہ فیصلہ کرنے میں ہچکچائے گی کہ چیف الیکشن کمشنر اور دو الیکشن کمشنرس کے تقرر کے لیے وزیر اعظم کے علاوہ لوک سبھا کے اپوزیشن لیڈر اور چیف جسٹس آف انڈیا پر مشتمل کمیٹی بنائے۔ وہ تو یہ چاہتی ہے کہ اس کی پسند کے لوگ اس عہدہ پر فائز ہوں تا کہ پھر سے اقتدار پر آنے میں سہولت ہو۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کی تساہل پسندی کا سپریم کورٹ کس انداز میں نوٹ لیتی ہے۔ حکومت اور سپریم کورٹ کے درمیان پہلے سے ہی کالجیم کے مسئلہ پر ٹکراو¿ چل رہا ہے۔ مرکزی وزیر قانون اور چیف جسٹس آف انڈیا کے درمیان اس معاملے میں کافی بحث بھی چل رہی ہے۔ ایسے میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن، ہنڈن برگ کی رپورٹ اور شہروں کے ناموں کی تبدیلی سے متعلق تاریخی فیصلے دے کر حکومت کو ایک معنی میں للکارا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے ان فیصلوں کے ذریعہ یہ پیام بھی دیا ہے کہ حکومت کایہ تیسرا ستون اب خاموش تماشائی بن کر نہیں رہے گا۔ ملک کے عوام بھی سپریم کورٹ کے ان حالیہ فیصلوں کو قدر کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اب جب کہ مقننہ اور عاملہ سے عوام مایوس ہو چکے ہیں، سپریم کورٹ ہی اب ملک کی جمہوریت کے استحکام اور عوام کی امیدوں کو پورا کرنے میں اپنا رول ادا کر سکتی ہے۔ ملک کے جمہوری اور دستوری اداروں میں دَر آئی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سپریم کورٹ حکومت کو کوئی ہدایات دیتی ہے تو اسے حکومت پر تنقید نہ مانتے ہوئے ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو اس سے ملک میں حقیقی جمہوریت پنپ سکے گی اور عوام کو بھی اطمینان ہوگا کہ الیکشن کمیشن نے واقعی غیر جانبدار اور شفاف الیکشن کے ذریعہ عوامی حکومت کے قیام کو یقینی بنایا۔ ورنہ جمہوریت مذاق بن رہ جائے گی ۔