سیاستمضامین

عالمی فلمی میلے میں ’’ کشمیر فائلس‘‘ کی نمائش‘ جیوری کی مذمت

سلیم مقصود

29نومبر2022ء کو ہندوستانی ریاست گوا میں عالمی فلمی میلے (IFFI) کا انعقاد اسرائیلی فلم ساز ناڈاوالیپڈ کی قیادت میں عمل میں آیا۔ناڈاؤ کو اس میلے کی جیوری کا صدر مقرر کیا گیا۔اس میلے میں دنیا کے بہت سے ممالک نے انعام کیتمنا میں شرکت بھی کی تھی۔ اس میں ہندوستانی فلمی صنعت کے مخصوص نظریہ کے حامل ایک گروپ نے اپنی تنگ دامنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وویوک اگنی ہوتری کی ہدایت میں تیار کردہ رسوائے زمانہ بدترین فلم ’’ کشمیر فائل‘‘ کو بھی دنیا کی بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کردیا۔ آئی۔ ایف۔ایف۔ آئی کی جیوری کے صدر ناڈاؤ اس فلم کو دیکھ کر بھڑک اٹھے۔ انہوں نے اس فلم کو پھکڑ‘ عامیانہ یا بالکل بازاری (Vulgar) اور تشہیری(Propaganda)قراردیا۔ ان کے اس بیان سے فرقہ پرستوں اور منافرت پھیلانے والوں کے دلوں میں آگ لگ گئی اور انہوں نے ہندوستان میں تعینات اسرائیلی سفیر ناورگیلون پر ان کے مذہبی نظریات اور صیہونی تصورات کی مخالفت میں سینکڑوں پیغامات روانہ کردیئے۔ یہ نہیں سوچا کہ آر ایس ایس اور مودی حکومت پر اسرائیل کے کتنے احسانات ہیں۔ مسٹر گیلون نے اس تنازعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ مشکل اور کٹھن مسائل پر مہذبانہ انداز میں گفتگو کی جانی چاہیے۔ گیلون نے اپنی حکوممت کی شاطرانہ پالیسی کے مطابق اس فلم کی مدافعت کی اور جیوری کے اپنے ہی یہودی صدر پر نکتہ چینی کی اور انہیں ایک خط بھی لکھا۔ جن لوگوں نے انہیں نفرت انگیز پیغامات بھیجے تھے انہوں نے ان کی شناخت بتلائے بغیر ان کے پیغامات ظاہر کئے۔ ہند۔اسرائیل تعلقات 30 سال سے برقرار رہیں۔ پہلی بار اسرائیلی سفیر کو نفرت انگیز بیانات کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے آر ایس ایس بھگتگوں میں سے منافرت پھیلانے والے ایک بھگت کے بارے میں بتایا کہ ’’ اس آدمی نے پی ایچ ڈی کیا ہے مگر وہ میری ستائش کا مستحق نہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی میں نے اس کی شناخت کو ضائع کردیا ہے۔ حالانکہ اس نے اسے میڈیا کے ذریعہ روانہ کیا تھا‘‘۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مذکورہ شخص نے جرمنی کے آمر ہٹلر اور نازیوں کے ہالوکاسٹ کی ستائش کی جس میں 6ملین یہودی نسل کے لوگ مارے گئے تھے۔
اس بہترین عالمی فلمی میلے میں ایوارڈ کے لئے جتنی بھی فلمیں پیش کی گئیں ان میں ہندوستانی فلم ’’ کشمیر فائل‘‘ کا مقام15واں تھا ۔ اس فلم کو دیکھتے ہی ناڈاؤ کہنے لگے کہ ’’ (جیوری کے) ہم تمام ارکان میں اس فلم سے برا تاثر اور شدید ذہنی صدمہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس فلم سے ہم نے محسوس کیا کہ یہ ایک بے ہودہ اور تشہیری فلم ہے جو فنی مسابقت سے متعلق شعبہ کے اس باوقار فلمی میلے کے لئے موزوں نہیں ہے‘‘ ۔
اسرائیلی فلم ساز کے اس بیان کے بعد ہمارے ملک میں ایک طرف تو ہماری فلمی صنعت کا وقار متاثر ہوگیا اور دوسری طرف ہماری گھناؤنی حرکتوں پر جاری کردہ جیوریوں کے تاثر نے ہمارے ملک میں سیاسی اور غیر سیاسی ردعمل بھی پیدا کردیا۔ چنانچہ شیوسینا کے رکن پارلیمان سنجے راؤت نے کہا کہ ’’ اس فلم کو سیاسی رنگ دیا گیا اور اس فلم کی نمائش کے بعد کشمیری پنڈت سب سے زیادہ اس سے متاثر ہوئے‘‘ ۔ انہوں نے آگے بیان کیا کہ ’’ یہ فلم دراصل ایک سیاسی جماعت کا دوسری سیاست جماعت کے خلاف پروپگنڈہ ہے‘‘ ۔ سب سے دلچسپ اور سب سے مناسب بیان اس معاملے میں کشمیر کی سابق چیف منسٹر اور پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کا ہے ۔ انہو ںنے اسرائیلی فلم ساز لیپڈ کی نکتہ چینی کی پشت پناہی کی اور کہا کہ ’’ بالآخر کسی نہ کسی نے تو اس فلم کو کشمیریوں کو خصوصاً اور مسلمانوں کو عموماً ایک خطرہ قراردینے کا حکمراں جماعت کا پروپگنڈہ ثابت کردیا۔ اس فلم کا مقصد مسلمانوں اور پنڈتوں کے درمیان ایک خلیج کو وسعت دینا تھا‘‘ ۔ انہوں نے آگے کہا کہ ’’ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سچائی کو دبانے کے لئے اب سیاسی چینلس کو استعمال کیا جارہا ہے‘‘ ۔ پی ڈی پی کے قائد نعیم اختر نے اس فلم کو اسکولوں کا ایک لازمی مضمون ‘ نوجوانوں اور سیاست دانوں کے لئے ضروری پیغام قراردینے پر بھی تنقید کی ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اسرائیلی سفیر کی جانب سے اس فلم کی ستائش کے برعکس عالمی فلمی جیوری کے تین ارکان نے بیان دیا کہ وہ جیوری کے صدر ناڈاؤ لیپڈ نے ’’ کشمیر فائل‘‘ فلم کے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا ایک مشترکہ بیان 3؍دسمبر کو ایک ٹویٹ میں آیا ہے۔ اس میں آسکر ایوارڈ میں حصہ لینے والے بافٹا(BAFTA) کے انعام یافتہ فلم ساز جنیکو گوٹوہ کے علاوہ پاسکل چاوینسی ‘ جے۔ اے بارٹورین بھی شامل ہیں۔ ان جیوری ارکان نے یہ بھی بتایا کہ ’’ لیپڈ نے جو بھی کہا ہے وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں‘‘ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ وہ فلمی مقابلے میں شامل فلموں میں کوئی سیاسی موقف نہیں رکھتے۔ مذکورہ جیوری ارکان نے اپنے بیان کو ایک خالص فنکارانہ بیان قراردیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ انہیں اس بات کا بہت دکھ ہے کہ فلمی پیٹ فارم کو سیاسی مقصد کے ساتھ ساتھ ناڈاؤ لیپڈ پر شخصی حملوں کے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ جو جیوری کا مقصد ہرگز نہیں تھا۔‘‘
ہندوستانی فلم ساز سدیپٹو سین بھی IFFIکی جیوری میں شامل تھے۔ انہیں تین ارکانِ جیوری کے مشترکہ بیان میں شامل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’ بورڈ کے رکن کی حیثیت سے میں نے اس فیصلے کی حمایت کی کہ ہم ’’ کشمیر فائل‘‘ فلم کو کوئی انعام نہیں دیں گے۔
ہم نے اس میں صرف 5فلموں ہی کو ایوار دیا اور یہ فیصلہ ہمارا متفقہ فیصلہ تھا اور اگر کوئی کسی خاص فلم کو انعام کے لئے منتخبکرے اور اس کے لئے کوئی بات کہے تو اس کی بات قابل قبول نہیں ہوگی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ میں واحد ہندوستانی رکن جیوری تھا ۔ میں بھی جیوری بورڈ کے اس بیان کا حصہ بن جاتا لیکن انہوں نے (باقی ارکان) نے مجھے اس سے نکال دیا۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ سدیپٹو سین ان کی حمایت نہیں کرے گا‘‘۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسے واقعات کے وقت آر ای سایس اور ہندتوا کے ماننے والوں میں جنون کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ انہیں اچھا برا کچھ نظر نہیں آتا۔ اسرائیلی سفیر کے ساتھ انہوں نے جو کچھ کیا اس سے ان کے پاگل پن کی ا نتہاء کا پتا چلتا ہے ۔ انہوں نے ایسی ہی حرکت سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ کی ۔ کرکٹ میچ ہارنے پر خود اپنے ہی کھلاڑیوں کے ساتھ بھی انہوں نے یہی سلوک کیا۔ بیرونی ممالک میں بھی انہوں نے کھیل کے نتائج پر ‘ پرتشدد مظاہرے کئے اور ہماری وزارت خارجہ نے ان کی مدافعت کی ۔ حال ہی میں جی20میں ہندوستان کی صدارت بھی ان کے لئے بہت قابل فخر اعزاز بن چکی ہے ۔ حالانکہ ہر سال جی20 کے کسی نہ کسی ملک کو باری باری سے ایک ماہ کی مدت کے لئے یہ وقار حاصل ہوجاتا ہے۔