طنز و مزاحمضامین

غلط فہمی

مظہر قادری

غلط فہمی کے معنی توآپ سب بخوبی جانتے ہیں یعنی سامنے والا بولاکچھ اورآپ سمجھے کچھ اور۔یہ عام مرض ہے جس میں ہم میں سے ہر کوئی کم وبیش وقتاً فوقتاً مبتلاہوتارہتاہے۔جیسے کوئی آپ سے غصے میں کہے کہ میں آپ کو شریف سمجھاتھا توآپ بھی فوری بولتے میں بھی آپ کو شریف سمجھاتھا‘تووہ بولتامعاف کرنامجھے غلط فہمی ہوگئی تھی، آپ صحیح ہیں۔انسان اصولاً سب سے زیادہ اپنے آپ کو جاننا چاہئے لیکن ہرانسان سب سے زیادہ اپنے آپ کے بارے میں غلط فہمی کا شکاررہتا۔ اکثرفسادکی جڑغلط فہمی ہوتی ہے۔ کوئی کچھ بولتا آپ کچھ اورسمجھ کر جھگڑاکرنا شروع کردیتے۔ہم یہ سوچ کر جھوٹ بولتے کہ اگلا اسے سچ سمجھے گا جوکہ ہماری غلط فہمی ہے۔اکثرلوگ اس غلط فہمی کا شکاررہتے کہ سارا آفس محض ان کی وجہ سے چل رہاہے۔اگروہ ایک دن بھی آفس نہ آئیں گے توساراآفس کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ایسے ہی ایک صاحب آفس سے آکر کوٹ اتارتے ہوئے اپنی بیوی سے بولے آج آفس میں بیٹھے بیٹھے میں نے جب کمپیوٹرپہ اپنی قابلیت کی جانچ کی توپتہ چلاکہ میں اس آفس میں اٹینڈرکی نوکری کے قابل بھی نہیں ہوں‘توبیوی بولی شکر ہے آپ کمپنی کے مالک ہیں ورنہ کبھی کے نکال دیے جاتے۔غلط فہمی ایک ایساسراب ہے جس کی وجہ سے ہم میں خوداعتمادی پیداہوتی ہے۔شاعر اپناکلام پڑھ کر سوچتاہے کہ اس کا کلام مشاعرے میں سب سے شاندارتھا،قلم کارمضمون لکھ کر سوچتاہے کہ اس کی تخلیق لاجواب ہے‘لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی۔ ایک صاحب آدھی رات کو گھر واپس آئے اورغلطی سے اپنا فلیٹ سمجھ کرایک فلورنیچے کے فلیٹ کی گھنٹی دبادی۔دروازہ کھولتے ہی ایک خاتون نے مسلسل ان کو پیٹنا شروع کردیاکہ یہ وقت ہے گھرآنے کا اب تک کہاں تھے۔کچھ دیر کے بعد ان کے چہرے پر اُس خاتون کی نظر پڑی توشرمندگی سے بولی معاف کرنا مجھے غلط فہمی ہوگئی، میں سمجھی میرے شوہر آگئے‘تووہ صاحب عاجزی سے بولے میری بدقسمتی یہ ہے کہ مجھے اسی ماحول سے ایک اور باردوچارہونا ہے۔
ہرماں باپ اپنے بچوں کے تعلق سے اس غلط فہمی کاشکاررہتے کہ وہ ایسا کرہی نہیں سکتا۔شوہر ہمیشہ اس غلط فہمی کا شکاررہتے کہ وہ دنیا کے سب سے بدقسمت انسان ہیں جن کو اتنی بدتمیز، بدزبان اورجھگڑالوبیوی ملی۔ایسے ہی ایک شوہر نے اپنی بیوی کے ظلم سے عاجز آکر اپنے خسر کو فون کرکے کہا کہ میں آپ کی اس بدتمیز،بدزبان اورجھگڑالوبیٹی کے ساتھ ایک پل بھی نہیں رہ سکتا تو خسر نے انتہائی گلوگیرآواز میں کہا بیٹا کچھ میرے بارے میں بھی سوچومیر ے پاس تواس کی ماں ہے۔
لاعلمی کی وجہ سے بھی اکثر انسان غلط فہمی کا شکارہوجاتا۔ایک جنگل بیابان میں بسے آدی باسی قبیلے کے گاؤں میں اوپر سے گزرتے ہوئے جہازسے ایک آئینہ نیچے گرگیا توایک آدی باسی اسے اٹھاکر دیکھا وہ کبھی آئینہ نہیں دیکھاتھا۔آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر رونے لگا اورسمجھاکہ یہ اس کا مرحوم باپ ہے اوراس آئینے کو آنکھوں سے لگاکر چوم کرگھر میں چھپاکر روز چوری سے نکال کر دیکھتا اوراپنے باپ کو یادکرتا۔بیوی کو شک ہوگیا۔ایک دن اس کے باہر جانے پر وہ آئینہ نکال کر دیکھی اور چیخ چیخ کر رونے لگی کہ اب سمجھ میں آیا کہ میراشوہر اس حرافہ چڑیل بدصورت کے چکر میں ہے اورجاکر آئینہ اپنی اماں کو دیا تواس کی اماں وہ آئینہ دیکھ کر بولی یہ بے شرم بوڑھی چڑیل جانے کب سے میرے داماد کے پیچھے پڑگئی ہے۔اب میں اس کو مزہ چکھاتی ہوں،اس بے غیرت کو اپنی عمر کا بھی خیال نہیں آیا۔
عموماً چوروں کو چوری کے معاملے میں غلط فہمی کبھی نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ جہاں بھی چوری کرنے جاتے ان کی معاشی حالت کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کرکے ہی جاتے، لیکن دوسرے معاملوں میں بعض دفعہ ان سے غلط فہمی ہوجاتی۔ایک جگہ جب چورچوری کرنے گئے توگھر میں موجود عورت اورمرد دنوں کو باندھ دیاو رسامان سمیٹنے لگے‘تومردگڑگڑاکر چورسے بولا تم اس گھر سے جولینا ہے لے لو اورعورت کی جانب اشارہ کرکے بولا لیکن برائے مہربانی اسے کھول دوتوچورشوہر کی اپنی بیوی سے اتنی محبت دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا اوربولا تم اپنی بیوی سے اتنی محبت کرتے ہوکہ اس کی ذراسی تکلیف بھی برداشت نہیں کرپارہے ہواوراس کی تکلیف کے بدلے گھر کا سارامال مجھے لے جانے کے لیے کہہ رہے ہو تومردگھگیاتے ہوئے بولا یہ پڑوسن ہے۔ میری بیوی کسی بھی لمحے آنے والی ہے۔
عموماً ایک زبان کے بعض الفاظ کے دوسری زبان میں کچھ الگ ہی معنی ہوتے ہیں،جس سے بہت بڑی غلط فہمی پیداہوجاتی ہے۔جیسے شمال میں بیوی اورمیاں کو استری اورپروش کہتے ہیں۔ چنو بھائی کے ایک بچپن کے دوست جوشمالی ہند میں رہتے تھے، پہلی بار چنوبھائی سے ملنے حیدرآباد آئے توچنوبھائی نے پوچھا، راستے میں کوئی تکلیف تونہیں ہوئی تووہ بولے سب کچھ توٹھیک تھا لیکن ایک ہی ٹکٹ کا ریزرویشن ملنے کی وجہ سے ٹی ٹی میری استری کو نہیں لے جانے دے رہاتھا‘بڑی مشکل سے جرمانہ دے کر استری کو ساتھ لے آیا جسے ہوٹل میں چھوڑآیاہوں۔یہ سن کر چنوبھائی کو اچانک یادآیا دو دن سے ان کی استری جل گئی ہے توان سے بولے میری استری خراب ہوگئی ہے، آپ اگربرانہ مانے تواپنی استری مجھے دے دیں توایک دودن میں واپس کر دوں گا، یہ سن کر وہ صاحب ہتے سے اُکھڑگئے کہ میں اپنی استری آپ کو کیسے دے دوں توچنوبھائی بولے اس میں کیاخرابی ہے ہمارے پاس توسب ایک دوسرے کی استری سے کام چلاتے ہیں۔بعض لوگ تویہاں استری مانگ کر مہینوں واپس نہیں کرتے،واپس کر ے بھی توکبھی اس کا پلک توڑدیتے اورتوکبھی گرادیتے ہیں اورتواورہمارے پورے خاندان میں ایک ہی استری سے سب کام چلالیتے ہیں۔یہاں توقسطوں میں بھ ی نئی استریاں ملتی ہیں، لیکن پھربھی لوگ اکثر پڑوسی کی استری سے کام چلالیتے ہیں۔آپ کی استری میں شام تک واپس کردوں گا۔یہ سنتے ہی وہ صاحب بے ہوش ہوکر گرگئے۔اس لیے ہرصاحب سمجھ آدمی کو چاہیے کہ جب کبھی کسی بھی بات میں اُسے اختلاف رائے محسوس ہوتوبات آگے بڑھانے کی بجائے اس بات کی تحقیق کرلیں کہ کون کہاں غلط ہے اورغلط فہمی دورکرلیں۔

a3w
a3w