سیاستمضامین

دفعہ 19 کے تحت نوٹیفکیشن کی تاریخ سے 12ماہ کی مدت کے اندر AWARD پاس ہونا لازمی ہےاگر مقررہ مدت کے اندر ادائیگی نہ ہوئی ہو تو ساری کارروائی کالعدم قراردی جائے گی

٭ مقررہ مدت کے بعد اوارڈ کی رقم لینے سے انکار قانونی طور پر درست ہوگا۔ ٭ معاوضہ لینے پر اصرار نہیں کیا جاسکتا۔ ٭ حکومت کو لازمی طور پر دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا۔ ٭ ایسی صورت میں طویل وقت اور بھاری معاوضہ ملنے کی یقین دہانی۔ ٭ اوارڈ کو منسوخ کروانے ہائیکورٹ سے رجوع ہونے کا مشورہ۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

قانونی معلومات والا یہ مضمون ان حضرات کے لئے بہت فائدہ مند ہوگا جن کے مکانات ‘ دوکانات‘ اراضیات‘ ہمہ منزلہ عمارتیں شہر حیدرآباد میں سڑکوں کی توسیع کے عمل میں زد میں آرہی ہیں اور جن کے حصول کے لئے حکومت یعنی میونسپل کارپوریشن نے زیر دفعہ19 نوٹیفکیشن شائع کروایا ہے اور ساری کارروائی کی تکمیل ہوچکی ہے اور AWARD یا تو پاس ہوچکا ہے یا ہونے والا ہے ۔ ذیل میں قانونِ حصولِ اراضی کے اس اہم نکتہ پر بحث کی جائے گی اور یہ بحث اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مالکینِ جائیداد کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی۔
میونسپل کارپوریشن دو طریقوں سے سڑکوں کی توسیع میں پرائیوٹ جائیدادیں حاصل کرتی ہے۔
پہلا طریقہ : – اس طریقہ کے تحت میونسپل کارپوریشن اور مالکِ جائیداد میں ایک معاہدہ یا سمجھوتہ ہوتا ہے کہ مالکِ جائیداد میونسپل کارپوریشن کی جانب سے دیئے جانے والے معاوضہ سے راضی ہے اور وہ معاوضہ کی رقم کا چیک حاصل کرکے اپنی جائیداد کا متاثرہ حصہ میونسپل کارپوریشن کے حوالے کررہا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس معاوضہ کی رقم میں سے دس فیصد رقم بطورِ انکم ٹیکس کاٹ لی جائے گی یعنی اگر 60 لاکھ روپیہ کا معاوضہ مقرر ہو تو اس میں سے 8 لاکھ روپیہ کاٹ لئے جائیں گے۔
دوسرا طریقہ : – اگر مالکِ جائیداد اپنی متاثرہ جائیداد میونسپل کارپوریشن کے حوالے کرنے سے انکار کردے یا ہائیکورٹ سے اس ضمن میں رٹ درخواست پیش کرے کہ نوٹس کے مطابق دیئے جانے والے معاوضہ سے میں راضی نہیں ہوں اور اپنی جائیداد میونسپل کارپوریشن کے حوالے کرنے سے انکار کررہا ہوں تو ہائیکورٹ میونسپل کارپوریشن کو حکم صادر کرے گا کہ درخواست گزار کو مجبور نہیں کیا جاسکتا تاہم اگر درخواست گزار کی جائیداد سڑک کی توسیع میں مطلوب ہو تو لینڈ اکویزیشن کی کارروائی کرکے جائیداد حاصل کی جاسکتی ہے اور اس وقت تک انہدامی کارروائی پر حکم التواء جاری رہے گا۔
اگر میونسپل کارپوریشن لینڈ اکویزیشن ایکٹ کے تحت کارروائی کرے اور تمام قوانین و ضوابط کی پابندی کرے اور اوارڈ پاس کرکے مالکِ جائیداد کو معاوضہ کی رقم ادا کرے تو اس میں سے انکم ٹیکس نہیں کاٹا جائے گا۔ اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ معاوضہ میں ملنے والی رقم میں سے دس فیصد ٹیکس کی کٹوتی نہیں ہوگی۔ اگر مالکِ جائیداد اس معاوضہ کی رقم سے مطمئن نہ ہو تو وہ چیک UNDER PROTEST حاصل کرسکتا ہے اور کارروائی کو اپیلییٹ اتھاریٹی کے پاس ترسیل کردیا جائے گا اور اس اتھاریٹی کو اس معاوضہ کی رقم میں صد فیصد کی حد تک اضافہ کرنے کا اختیار ہے۔
یہ ایسی دو صورتیں ہیں جو لینڈ اکویزیشن ایکٹ کے دائرے میں ہیں اور حکومت سے کوئی قانونی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔
ایسی صورتیں جن میں اکثر قانون کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں جن سے عوام واقف نہیں ۔ خصوصاً مالکینِ جائیداد
یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ میونسپل کارپوریشن کے اسپیشل لینڈ اکویزیشن نے زیر دفعہ19 نوٹیفکیشن جاری کیا اور کارروائی کا آغاز ہوا۔ اعتراضات طلب کئے گئے اور ان کا جواب بھی دیا گیا اور آخرِ کار AWARD پاس کردیا گیا اور مالکِ جائیداد کو طلب کرکے معاوضہ کا چیک حوالے کردیا گیا۔
اگر مالکِ جائیداد بغیر کسی اعتراض کے چیک حاصل کرلے تو اپیل کا حق زائل ہوجائے گا۔
اگر نوٹیفکیشن زیرِ دفعہ 19 جاری کی گئی اور 12ماہ کی مدت کے بعد اوارڈ پاس کیا گیا تو چیک لینے کی ضرورت نہیں۔ اوارڈ پاس کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت 12ماہ ہے ۔ اگر نوٹیفکیشن جاری ہونے کے 12 ماہ بعد اوارڈ پاس کیا گیا تو زیرِ دفعہ 25 قانونِ حصولِ اراضی 2013ء ساری کارروائی کالعدم قرارپائے گی اور متاثرہ جائیداد کو حاصل کرنے کا میونسپل کارپوریشن یا حکومت کا حق زائل ہوجائے گا اور لازمی طور پر میونسپل کارپوریشن کو دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا۔
اس عمل میں مالکِ جائیداد کا دوہرا فائدہ ہوگا۔ ایک تو یہ کہ معاوضہ آئندہ کی قیمت کے مطابق ملے گا اور کم از کم دو سال تک اس مقام پر رہنا ہوگا۔ کرایہ کی آمدنی جاری رہے گی اور اسی مکان میں قیام رہے گا۔
اگر اوارڈ نوٹیفکیشن کی اجرائی کے 12 ماہ بعد جاری ہوا ہے تو مالکِ جائیداد ہائیکورٹ سے بذریعہ رٹ رجوع ہوکر اپنی جائیداد کا تحفظ کرسکتے ہیں اور انہیں معاوضہ حاصل کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
حکومت عوام کو بھی اپنی طرح نادان سمجھتی ہے۔ اوارڈ پاس کرنے میں تاخیر کی وجہ FUNDS کی کمی ہوتی ہے ۔ لہٰذا جب بھی رقم RELEASE ہوتی ہے اوارڈ پاس ہوتا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ عوام یا مالکینِ جائیداد نادان ہیں۔
اگر ایسی کوئی صورت ہو اور ہمیں یقین ہے کہ سینکڑوں ایسی صورتیں ہوں گی کہ نوٹیفکیشن زیر دفعہ19 دو ‘ تین سال قبل جاری ہوئی اور اب AWARD پاس کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں مالکینِ جائیداد جن کی جائیداد زیرِ دفعہ19 حاصل کی گئی ہیں اور 12ماہ کی مدت گزرگئی ہے اور اب انہیں چیک حاصل کرنے کہا جارہا ہو تو وہ مندرجہ بالا قانونی حقیقت کے پیشِ نظر نوٹیفکیشن زیر دفعہ 19 اور اوارڈ کی تاریخ کا تقابل کریں اور اگر ان دونوں کی مدت میں12 ماہ سے زیادہ کی مدت ہو تو یہ سمجھا جائے کہ ساری کارروائی کالعدم ہوچکی ہے۔ لہٰذا فوری طورپر قانونی رائے کا حصول ناگزیر ہے۔
اس قانونی رائے کی قدر کریں اور اپنی جائیدادیں محفوظ کرلیں۔
بذریعہ ہبہ جائیداد ورثاء میں تقسیم نہ کرنے کا شاخسانہ
ہزاروں تقسیم ترکہ کے مقدمات عدالتوں میں زیر دوراں ہیں
شہر اور اضلاع کی عدالتوں میں تقسیم ترکہ کے مقدمات ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور آئے روز ایسے مقدمات دائر کئے جارہے ہیں جہاں یہ بات بتادی نا ضروری ہے کہ تقسیمِ ترکہ کے مقدمات اپنے انجام تک پہنچنے کے لئے دس تا پندرہ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے اور شائد اس سے بھی کچھ زیادہ ۔ اگر تقسیم ترکہ کا مقدمہ ضلع جج کے اجلاس پر پیش ہو تو یہ مقدمہ آٹھ تا دس سال تک چل سکتا ہے اور اس کے بعد ہی ابتدائی ڈکری جاری ہوتی ہے۔ اگر فریقِ مخالف ہائیکورٹ سے اپیل میں رجوع ہو تو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ Appeal Suit یا CCCA کی فائل ہائیکورٹ میں دس تا پندرہ سال تک پڑی رہے گی اور اس مدت کے بعد ہی اپیل سماعت کیلئے پیش ہوگی۔ آج بھی 2005ء سے پہلے کی Appeals پر سماعت ہورہی ہے۔ گویا بیس تا پچیس سال بعد ہی انصاف ملنے کی امید کی جاسکتی ہے۔
اوپر جو بات لکھی گئی ہے حقیقت پر مبنی ہے۔ ہائیکورٹ کی Website پر آپ اس حقیقت سے روشناس ہوسکتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ میں فیصلہ ہو بھی جائے تو سپریم کورٹ میں (SLP) دائر کی جاسکتی ہے اور مقدمات کی جنگ میں لہو لہان ہونے کے بعد اور عمرِ عزیز کے ایک بہت بڑے حصہ کو ضائع کردینے کے بعد اگر انصاف ملا بھی تو وہ کس کام کا۔ اس اثناء میں کئی فریق راہیٔ ملکِ عدم ہوجاتے ہیں۔ محروم بیٹی‘ بیٹے محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہمت ہارجاتے ہیں جو فریق جائیداد پر قابض رہے وہ اس جائیداد کو نہ تو فروخت کرسکتا ہے اور نہ جائیداد کی ہیئت کو تبدیل کرسکتا ہے کیوں کہ ایسے مقدمات میں عبوری احکامات صادر کئے جاتے ہیں۔
بیٹیاں۔ بیوہ بہوئیں اور یتیم پوتے پوتیاں محرومی کی تصویر بن جائیں گے
انسان کے سب سے بڑے دشمن نفرت۔ ضد اور ہٹ دھرمی ہیں
ضد۔ہٹ دھرمی اور نفرت انسان کے بدترین دشمن ہیں۔ اگر ان میں نا انصافی کا عنصر شامل ہو تو یہ بات اور بھی زیادہ تباہ کن ہوگی۔ ان مقدمات میں سب سے زیادہ مجروح یتیم پوتے پوتیاں‘ بیوہ بہنیں اور بیوہ بہوئیں ہوں گی۔ زندگی ان کیلئے اجیرن ہوجائے گی۔ ان کی زندگی ناکامیوں اور محرومیوں کی طویل داستان ہوگی۔ ان تباہیوں کو ٹالا جاسکتا ہے اگر ہوش کے ناخن لئے جائیں اور حقوق شناسی کا جذبہ بیدار ہو۔ حق شناسی کا جذبہ طویل نیند کا شکار ہوچکا ہے ۔ لہٰذا بحیثیت قانون دان ہماری رائے یہی ہے کہ تقسیمِ ترکہ کے معاملہ میں آپسی افہام و تفہیم میں سب سے بہتر ہے۔ یہ زندگی‘ اللہ تبارک تعالیٰ کی عنایت اس لئے نہیں کہ اسے نفرت‘ حقارت اور ہٹ دھرمی کی صلیب پر چڑھادیا جائے۔ ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور حق شناسی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ہماری رائے ہے کہ اس ضمن میں عدالت سے رجوع ہونے میں کوئی معقولیت نہیں۔ قرآنِ مجید کو رہنما بنا کر احکاماتِ الٰہی کی روشنی میں آپس میں بیٹھ کر تقسیمِ جائیداد کے مسئلہ کو حل کرلینا چاہیے اور کچھ کم ۔ کچھ زیادہ کی اساس پر تصفیہ کرلینا چاہیے۔ اس عمل سے اللہ پاک بھی راضی ہوگا اور اس کے بندے بھی ۔
یہ بات بہت افسوس کے ساتھ دیکھی گئی ہے کہ مارواڑی طبقہ کے ایڈوکیٹس مسلم موکلین کو گمراہ کرکے اپنا اُلّو سیدھا کررہے ہیں ۔ دوسری جانب مسلم ایڈوکیٹ حضرات سے گزارش ہے کہ وہ تقسیم ترکہ کے معاملات میں اپنے موکلین کو تلقین کریں کہ وہ انصاف سے کام لیں۔ اور بلا وجہ انہیں مقدمات میں نہ الجھائیں۔ آپ یقینی طور پر فریقین میں مصالحت کرواسکتے ہیں اور اپنی من مانی فیس حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ ساری مشکلات اس وقت پیدا ہوں گی جب صاحبِ اولاد صاحبِ جائیداد حضرات بغیر کسی وصیت کے انتقال فرماجائیں یا اپنی جائیداد کو اپنے ورثاء میں بذریعۂ ہبہ تقسیم نہ کریں۔
زبانی ہبہ کا میمورنڈم ان تمام مصائب کا واحد ہے
صاحبِ جائیدادوصاحب اولاد حضرات اپنی حیات ہی میں اپنی جائیداد کو اپنے ورثاء میں ان کے حق کے مطابق یا کچھ کم کچھ زیادہ کی اساس پر زبانی ہبہ کے میمورنڈم کے ذریعہ تقسیم کردیں۔ اس عمل میں رجسٹریشن کی ضرورت نہیں۔ سرکاری خزانہ میں لاکھوں روپیہ بطورِ رجسٹریشن فیس ادا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ایک اور دوسری مصیبت بے نامی ایکٹ اور وراثت ٹیکس کے نام سے آسکتی ہے جو ترکہ میں سے 60-70فیصد اچک لے گی۔
اس لئے یہی بہتر ہے کہ اولین فرصت میں اپنی جائیداد اپنے پیاروں میں تقسیم کردیجئے اور طمانیت کے لئے دستخط کرنے کے بعد دستاویز اپنے ہی ہاتھ میں رکھیں۔ اس عمل سے آپ کے ورثاء بھی خوش رہیں گے اور آپ کو طمانیت بھی حاصل ہوگی کہ آپ کے عمل سے آپ کے ورثاء ممکنہ ناانصافی اور محرومی کے خطرے سے محفوظ رہیں گے۔
خصوصاً بیٹیوں کے حقوق محفوظ کرلیں کیوں کہ یہ بات اکثر دیکھی گئی ہے کہ بھائی اپنی بہنوں کے حقوق سلب کرکے انہیں محروم کردیتے ہیں۔
آپ وصیت اپنے ورثاء کے حق میں نہیں کرسکتے لیکن ہبہ یا گفٹ کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا ہے لہٰذا بروقت اس کا استعمال کیجئے اور آج کی بات کل پر مت ٹالیئے۔