مضامین

قانون کے بدلتے پیمانے

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

سپریم کورٹ آف انڈیا نے دو ہفتہ پہلے بی جے پی سے خارج شدہ خاتون نپور شرما کی جانب سے شانِ رسالت میں کی جانے والی گستاخی کا سخت نوٹ لیتے ہوئے جس انداز میں انہیں لتھاڑا تھا ، ا س سے یہ قوی توقع پیدا ہوگئی تھی کہ موصوفہ کی اس ہرزہ سرائی کی سزا انہیں ہر حال میں بھگتنی پڑے گی اور ملک کی عدلیہ اس معاملے میں نپور شرما کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرے گی، لیکن منگل (19جولائی 2022) کو سپریم کی جانب سے انہیں جوقانونی راحت دے دی گئی، اس سے انصاف پر یقین رکھنے والوں کے جذبات بکھر کر رہ گئے۔ سپریم کورٹ نے نپور شرما کو عبوری راحت دیتے ہوئے 10 ا گست 2022تک ان کی گرفتاری پر روک لگادی۔ جب کہ اسی سپریم کورٹ نے قبل ازیں پیغمبراسلام کی شان میں نپور شرما نے جوگستاخانہ جملے کہے تھے، اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ ریمارک کیا تھا کہ ان کی ( نپور شرما ) بے لگام زبان نے پورے ملک میں آگ لگادی ہے ۔ سپریم کورٹ کے معزز جج صا حبان نے یہ بھی کہا تھاکہ ٹی وی پر دیے گئے ان کے متنازعہ اور غیر ذمہ دارانہ بیان پر انہیں پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ نپور شرما نے دنیا کی سب سے مقدس ترین ہستی کی شان میں گستاخی کرکے جو شرمناک حرکت کی ہے، اس پر عدلیہ کو فوری قانونی کارروائی کر تے ہوئے خاطی کو سخت سزا دینی چاہئے تھی، لیکن پہلے تو پولیس نے اس گھناو¿نی حرکت کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھائے ۔ اس پر پورے ملک میں احتجاج شروع ہو گیااور بیرون ملک بھی ہندوستان کی شبیہ متا ثر ہونے لگی۔ اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے بھی یہ سوال اٹھایا گیا کہ نپور شرما کواب تک گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ ان کے نفرت انگیز بیان کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ایک طرف سپریم کورٹ نپور شرما کے جرم کو تسلیم کرتی ہے اور پھر دوسری طرف سپریم کورٹ کے جج صاحبان ان کی گرفتاری پر روک لگاتے ہیں۔ اس سے یہی بات واضح ہو تی ہے کہ معزز جج صاحبان کے پاس قانون کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ جرم کی سنگینی کو محسوس کر تے ہوئے بھی ملزم کے ساتھ رعایت سے عدلیہ کے تئیں جو احترام عوام میں پایا جا تا ہے وہ اب متزلزل ہونے لگا ہے۔ ایک خاتون ملک کے پندرہ کروڑ اور ساری دنیا کے ایک ملین سے زائد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتی ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی وہ ملک میں آزاد گھوم رہی ہے۔ اس سے دنیا کو یہی پیغام جا تا ہے کہ ہندوستان میں اب قانون ہر ایک کے لیے الگ الگ ہے۔ فسطائی قوتوں کو من مانی کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ وہ اپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ کسی بھی گروہ کو ذہنی اذیت دے سکتے ہیں اور ان پر کوئی قانونی گرفت نہیں ہوتی۔ نپور شرما کے متعلق سپریم کورٹ نے جو ریمارکس کیے تھے، اس کی بنیاد پر انہیں فوری گرفتار کرنا چاہیے تھا، لیکن معزز جج صاحبان کی جانب سے انہیں مزید راحت فراہم کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک کی عدالتیں بھی کسی نہ کسی دباو¿ کے زیرِ اثر آگئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق جس خاتون نے پورے ملک کو اپنے غیر ذ مہ دارانہ بیان کے ذریعہ آگ میں جھونک دیا ، وہ کیسے اب بھی قانون کے شکنجہ میں نہیں آ سکی۔ سپریم کورٹ نے اپنے پہلے ریمارکس میں نپور شرما پر کافی اپنا غصہ اُتارا۔ ان کو اتنی پھٹکار سنائی گئی کہ اس کے بعد کسی کے جرم کو بیان کرنے کے لیے الفاظ باقی نہیں رہتے، لیکن اس ساری سرزنش کے بعد عدالتِ عظمیٰ کا یہ کہنا کہ ان کو اگلی سماعت تک گرفتار نہ کیا جائے، اس سے ملک میں قانون کی حکمرانی کا تصور بڑی حد تک دھندلا پڑ جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نپور شرما کو دی جانے والی راحت ملک میں ایک ایسی فضاءکو ہموار کرنے کی موجب بنے گی جہاں کسی بھی قسم کی بھیانک شرانگیزی کے باوجود شر پسند عناصر قانون کی گرفت سے آزاد رہیں گے۔ اس سے ملک میں جو فرقہ وارانہ تناو¿ بڑھے گا، اس سے سارا ملک متا ثر ہوگا۔ کسی کی جنونی حرکتوں کو دیکھتے ہوئے بھی عدالتیں ان سے چشم پوشی کریں گی تو ملک کی ہزاروں سال قدیم روایات پر بھی پانی پھر جائے گا۔ ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والے لوگ رہتے ہیں اور یہاں ہر مذہب کا یکساں احترام کیا جا تا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے بعض بد قماش افراد ملک کے پُر امن ماحول میںاپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ زہر گھول رہے ہیں۔ حکومت ان کی مبینہ طور پر پُشت پناہی کر رہی ہے۔ اگر عدلیہ بھی ان پر روک نہ لگائے توپھر ملک کا مستقبل جس خطرے میں پڑ سکتا ہے، اس کا اندازہ عام لوگوں سے زیادہ معزز جج صاحبان کو ہے۔ خاطیوں کے خلاف سخت تبصروں کے بعد بھی ان کو سزا دینے کی بجائے انہیں راحت دینا انصاف کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہے۔ جس عدالت نے صاف طور پر یہ کہہ دیا کہ نپور شرما کے متنازعہ بیانات نے ملک کو آگ میں جھونک دیا، ایسی خاتون کو قانونی تحفظ فراہم کر نا، جس کی وہ ہرگزمستحق نہیں ہے ، ایک لحاظ سے دوسرے طبقہ کے زخموں کو تازہ کرنے کے مترادف ہے۔ آزادیِ اظہار رائے کی آڑ میں نپور شرما نے اہانت رسول کا جو ارتکاب کیا ہے ، اس کا تصور کسی جمہوری اور مہذب معاشرہ میں نہیں کیا جا سکتا، اس پر فوری کارروائی ہونی چاہیے تھی، لیکن ابھی تک نہ انہیں گرفتارکیا گیا اور نہ انہوں نے ملک کے عوام سے معافی چاہی۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ان کی سرپرستی ایک ایسی لابی کر رہی ہے جو انہیں ہر طرح سے محفوظ رکھے گی۔ قانون کے نفاذ میں اگر یہی دوہرا پن چلتا رہا تو عین ممکن ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور جمہوری قدروں کی پاسداری ایک قصہ پارینہ بن جائے گی۔ ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہوجائے گا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا منظر ملک میں دیکھنے کو ملے گا۔ موجودہ بی جے پی حکومت سے یہ توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ ہندوتوا کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی پر کوئی روک لگائے گی۔ ہندوراشٹرا کے نعرے کو ہی تقویت بخشنے کے لیے اسلام اور داعی اسلام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ساری کارستانیاں جان بوجھ کر کی جا رہی ہیں۔ جس گروہ کی جانب سے کوتاہ نظری کے یہ بدبختانہ واقعات سامنے آ رہے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں اللہ کے آخری رسول کا مقام اور مرتبہ خود اللہ تعالیٰ نے کس طرح بیان فرمایا ہے۔ ان کی مذہبی کتابوں میں بھی دنیا میں آخری رسول کے آنے کی بشارت دی گئی۔ ان کو یہ بھی تاکید کی گئی کہ وہ اس آخری رسول پر ایمان لائیں۔ ان ساری حقیقتوں کے باوجود اکثریتی طبقہ کا ایک مخصوص گروہ عام ہندوو¿ں کو بھٹکاکر اپنا اُ لّو سیدھا کر رہا ہے۔ انہیں اس بات کا خوف کھائے جا رہاہے کہ اس ملک کی اکثریت اسلام کے نظریہ مساوات سے متاثر ہوکر کہیں اسلام قبول نہ کرلے۔ اس سے انہیں اپنی چودھراہٹ کے ختم ہونے کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے یہ پروپیگنڈا بھی ان طاقتوں کی جانب سے کیا جا تا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی بہت بڑھ رہی ہے۔ اور ایک دن آئے گا کہ ہندوستان میں مسلمان اکثریت میں آجائیں گے۔ جب کہ سارے اعداد وشمار یہ بتارہے ہیں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی اس قدر نہیں بڑھ رہی ہے کہ وہ اس ملک میں نمبر ایک پر آجائیں۔ محض ملک میں انتشار کو بڑھانے اوراپنے حقیر مفادات کے حصول کے لیے یہ جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بہت بڑھ رہی ہے۔ اس سے ہندوو¿ں کو خطرہ ہوجائے گا۔ اسی نوعیت کے دیگر لایعنی مسائل کو چھیڑ کو ہندواحیاءپر ست طاقتیں ملک کو توڑنے کا کام کر رہی ہیں اور مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
حالات کے اس تناظر میں جب کہ کسی نہ کسی مسئلہ کو چھیڑ کر ملک کے امن وامان کو بگاڑا جا رہا ہے اور اپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ ملک کے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت عدلیہ کی چوکسی اور اس کی غیرجانبداری ہی ملک کو صحیح سمت دے سکتی ہے۔ جو لوگ نفرتی سیاست کھیل رہے ہیں، ان کو قانون کے مطابق سزا دینا ملک کی عدالتوں کا فرض منصبی ہے۔ سپریم کورٹ نے اگر پہلے ہی نپور شرما کو خاطی مانتے ہوئے انہیں جیل بھیجنے کی بات کی ہے تو پھر اب راحت دینے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر تھوڑے وقفہ کے بعد اگر عدالتیں کسی ملزم کے متعلق اپنی رائے کو بدلتی جائیں تو اس سے عدلیہ کا تقدس بھی پامال ہوگا اور ملک ایک نئے بحران سے دوچار ہوگا۔ جب عدالت یہ مانتی ہے کہ نپور شرما کی ہرزہ گوئی سے ملک میں فرقہ وارانہ فضاءپیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں قتل و خون کی نوبت بھی آئی، جس خاتون نے پورے ملک کو ایک ہیجانی دور میں ڈال دیا، اسے قانونی تحفظ دینا ، ان طاقتوں کو حوصلہ بخشے گا جو اس قسم کی گھناو¿نی حرکتیں کرتے آ رہے ہیں اور اب بھی قانونی گرفت سے آزاد ہیں۔ پورے ملک کی سلامتی اور اس کی یکجہتی کو جس عورت نے اپنی زبان درازی کے ذریعہ نا قابل تلافی نقصان پہنچایا اسے ابھی گرفتار نہ کرنے کا حکم دینا یہ قانون کے بدلتے معیارات کی ایک مثال ہے۔ اگر ایسی مثالیں قائم ہوتی جائیں تو پھر یہ قانونی نظریں بن جائیں گی۔ آنے والے دنوں میں کوئی بھی جنونی کسی بھی مذہبی شخصیت کے متعلق کسی بھی قسم کی گستاخی کرے گا اور جب سزا دینے کی بات آئے گی تو نپور شرما کے مقدمہ کی نظیر پیش کرکے ملزم قانون کے شکنجہ میں آنے سے بچ جائے گا۔ اس لیے معزز جج صاحبان کو کوئی غلط نظیر قائم نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے دوررس نتائج بعد میںظاہر ہوتے ہیں۔ ملک کی فضاءکو پرامن رکھنے اور شہریوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کو باقی رکھنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ کسی فرد کو قانون سے بالاتر نہ مانا جائے۔ جو کوئی جرم کا ارتکاب کرے، اسے قرار واقعی سزا دی جائے ۔ اسی سے ملک میں قانون کا پاس و لحاظ رکھا جا ئے گا۔ علم سیاسیات کے ماہر پروفیسر ڈائسی نے برطانیہ میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے جو اصول پیش کیے تھے، اسے دنیا کے دیگر ممالک بشمول ہندوستان نے قبول کیا۔ پروفسیرڈائسی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ملک کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ قانون سب پر یکساں نافذ ہو اور کوئی شخص قانون سے بالاتر نہ ہو۔ آج ہمارے ملک میں صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ آلٹ نیوز کے محمد زبیر نپور شرما کی گھٹیا حرکت کو دنیا کے سامنے اجاگر کرتے ہیں تو ان پر نہ صرف مقدمہ ٹھونک دیا جاتا ہے بلکہ انہیں ایک بے بنیاد کیس میں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جا تاہے۔ اسی طرح جو لوگ نپور شرما کے گستاخانہ بیان کے خلاف احتجاج کرتے ہیں ان پر پولیس لاٹھیاں برساتی ہے اور انہیں موت کی نیند سُلادیتی ہے۔ کسی کے گھر پر بلڈوزر چلادیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے جو اپنے جذبات کا اظہار کررہے ہیں، لیکن جس نے جرم کیا اسے قانونی راحت دی جا رہی ہے۔ آخر اس سے دنیا کو ہم کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جو کچھ بھی راحت نپور شرما کو دی جا رہی ہے، اس پر ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اس مقدمے کی سماعت کے لیے دستوری بنچ قائم کی جائے اور معزز جج صاحبان کو غور کرنا چاہیے کہ آیا دنیا کی عظیم ہستی کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو بے لگام چھوڑ دینا ملک کے دستور کے عین مطابق ہے یا پھر یہ اس کے منافی ہے؟
دستورِ ہند جس مذہبی آزادی کو تسلیم کرتا ہے اور جس کی ضمانت ہر شہری کو دی گئی، اس کے تحت ہر ایک کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہے، لیکن کسی مذہب یا مذہبی شخصیت کی توہین کرنے کی آزادی ملک کے دستور نے نہیں دی۔

a3w
a3w