لفظ ”جتنی جلد ممکن ہو“ کو بدل کر اندرون30 یوم کردیا جائے: لا کمیشن کو حکومت تلنگانہ کی تجویز
ٹی آر ایس حکومت نے لاء کمیشن سے اپیل کی کہ وہ دستور میں ترمیم کرتے ہوئے اسمبلی میں منظورہ بلز کو گورنر کی منظوری کیلئے مدت مقرر کرے۔
حیدرآباد: ٹی آر ایس حکومت نے لاء کمیشن سے اپیل کی کہ وہ دستور میں ترمیم کرتے ہوئے اسمبلی میں منظورہ بلز کو گورنر کی منظوری کیلئے مدت مقرر کرے۔ لاء کمیشن کو حکومت تلنگانہ نے تجویز پیش کی کہ لفظ ”جتنی جلد ممکن ہو“ کو بدل کر اندرون30 یوم کردیا جائے۔
دستور کے آرٹیکل200 کی رو سے گورنر کو کسی بل کو منظور کرنے یا مسترد کرنے کا اختیار ہے۔ حکومت نے لاء کمیشن سے خواہش کی کہ وہ آرٹیکل200 کو مزید قابل احتساب بناتے ہوئے حکومت ہند کو دستور میں ترمیم کرنے کی سفارش کرے۔
حکومت نے لاء کمیشن کے نام تحریر کردہ مکتوب میں کہا کہ لفظ ”جتنی جلد ممکن ہو“ کو مبہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں مدت کا تعین نہیں ہے۔ دستور کے معماروں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ حالات ایسے بھی رونما ء ہوں گے کہ جب گورنر کی جانب سے منتخبہ حکومت کی جانب سے منظورہ بلز کو طویل عرصہ تک برف دانوں میں رکھ دیں گے۔
حکومت کی جانب سے لاء کمیشن پر زور دیا کہ وہ اس مسئلہ کا جائزہ لیتے ہوئے حکومت ہند سے سفارش کرے کہ دستور کے آرٹیکل 200 میں تحریر کردہ لفظ ”جتنی جلد ہو“ کو ترمیم کرتے ہوئے ”اندرون30 یوم“ مدت کا تعین کرے۔
حکومت نے گورنر کی جانب سے ریاستی اسمبلی میں منظورہ بلز کو منظوری دینے میں اختیار کردہ ناقص رویہ پر مایوسی ظاہر کرتے ہوئے جاننا چاہا کہ بلز کو منظوری دینے یا مسترد کرنے سے کیا چیز رکاوٹ بن رہی ہیں؟ مکتوب میں مزید کہا گیا کہ حالیہ عرصہ کے دوران تلنگانہ، ٹاملناڈو، کیرالا و دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں میں کئی قوانین تدوین کرتے ہوئے منظوری کیلئے گورنرس کے پاس روانہ کئے گئے، تاہم گورنرس کی جانب سے ان بلز کو منظوری دینے میں غیر ضروری تاخیر کی جارہی ہے۔
ریاستوں کے دستوری سربراہوں کے اس رویہ سے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مکتوب میں کہا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے چند ماہ قبل تلنگانہ یونیورسٹیز کامن ریکروٹمنٹ بورڈ بل 2022 منظوری کیلئے راج بھون روانہ کیا گیا مگر آج تک اس بل پر کوئی قدم نہیں اٹھایاگیا۔ اگر اس بل کو منظوری مل جاتی ہے تو ریاست تلنگانہ میں اسسٹنٹ پروفیسرس کی 1000 جائیدادوں پر تقررات کئے جاسکتے ہیں۔
حکومت نے مزید تحریر کیا کہ ملک کی دوسری ریاستوں میں صورتحال ایسی ہی ہے جہاں کئی بلز گورنرس کی منظوری کے منتظر ہیں چونکہ بلز کی منظوری کیلئے کوئی مدت مقرر نہیں ہے شائد اسی لئے گورنرس کی جانب سے تاخیر کی جارہی ہوگی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کسی بل کو اسمبلی اور کونسل میں منظوری کے بعد گورنر کو بھیجا جاتاہے تاکہ گورنر اس کی منظوری دیں۔
گورنر کو اختیار ہے کہ وہ بل کو منظور کریں یا رد کریں یا پھر صدر جمہوریہ سے رجوع کریں۔ اس کے علاوہ اگر گورنر کو بل کے کسی نکتہ پر اعتراض ہوتو اس پر مزید وضاحت طلب کرتے ہوئے بل پر ازسر نو غور وخوص کرنے کی ایوان مقننہ کو ہدایت دے سکتے ہیں۔ اگر ایوان میں پھر ایک بار بل کو جوں کا توں حالات میں منظور کیا جاتا ہے توپھر گورنر کو بھی منظوری دینا ہوتا ہے۔