مسلم پرسنل بورڈ کی ایک اور مبہم قرارداد وضاحت کی درخواست
پچھلے ہفتہ حیدرآباد میں آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے علمائے تلنگانہ و آندھرا کا نکاح کو آسان کرنے کے سلسلے میں ایک اجلاس منعقد ہوا اور تقریباً سو علماکرام نے ہاتھ اٹھا کر یہ عہد کیا کہ وہ آئندہ سے ہر ایسی شادی میں شرکت سے اجتناب کریں گے۔
ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی۔ فون نمبر 7386340883
پچھلے ہفتہ حیدرآباد میں آل انڈیا پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے علمائے تلنگانہ و آندھرا کا نکاح کو آسان کرنے کے سلسلے میں ایک اجلاس منعقد ہوا اور تقریباً سو علماکرام نے ہاتھ اٹھا کر یہ عہد کیا کہ وہ آئندہ سے ہر ایسی شادی میں شرکت سے اجتناب کریں گے جہاں غیرشرعی کام ہوں گے۔ دیر آئد درست آئد۔ تمام علما قابلِ مبارکباد ہیں اور بالخصوص مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب جن کی صدارت میں یہ اجلاس منعقد کیا گیا۔
یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ کوئی یہ مانے یا نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ آج دشمن، امت کو جتنا نقصان پہنچارہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ نقصان خود مسلمان ایک دوسرے کو ان غیرشرعی شادیوں کے ذریعے پہنچا رہے ہیں۔ آج مسلمانوں کی تمام معاشی اور اخلاقی تباہیوں کا بالخصوص نوجوان نسل کی آوارگی کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان تمام برائیوں کی جڑ میں یہی وہ شادیوں کا سسٹم ہے جو ایک کانا دجّال کی طرح بہت تیزی سے پھیلتا جارہا ہے۔ علما و مشائخین کو مسلسل توجہ دلائی جارہی ہے، لیکن یہ لوگ علاج وہی کررہے ہیں جو ایک آپریشن کے محتاج مریض کو صرف دم پڑھ کر پھونکنے کے برابر ہے۔
ایسی شادیوںکو روکنے کے لئے بائیکاٹ ہی پہلا قدم ہے۔ جب تک ناچ دیکھنے والوں کا آنا بند نہیں ہوگا، ناچنے والے ناچتے رہیں گے۔ اس لئے ہندوستان تمام کے علما پر لازمی ہے کہ علمائے تلنگانہ و آندھرا کے اس اقدام پر غور فرمائیں اور اس پر سختی سے عمل کریں۔
اگرچہ کہ علما کرام کی حالیہ قرار داد ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن بلا کسی تنقید کے ہم صرف التماس کے طور پر اس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ماضی کی ایسی بے شمار قراردادوں کی طرح اس میں ابہام بہت ہے۔ جب تک یہ واضح اور دو ٹوک الفاظ میں نہیں ہوگی، اس کا بھی حشر وہی ہوگا جو ماضی میں ایسے جلسوں کا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سال پہلے آسان نکاح کی مہم چلائی گئی اور ایک حلف نامہ جاری کیا گیا جس کی پہلی ہی شِق میںیہ عہد کروایا گیا کہ ’’میں جبراً جہیز کے لین دین سے احتراز کروں گا ‘‘۔یہ ایک انتہا ئی مبہم جملہ ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ جبراً یعنی جہیز کا ڈیمانڈ نہیں کرلوں گا، ہاں کوئی خوشی سے دے دے تو خوشی سے قبول کرلوں گا۔ یہی تو وہ اصل فتنہ ہے جس کی وجہ سے یہ جہیز کبھی ختم نہیں ہوسکتا ۔
بالکل اسی طرح موجودہ قرارداد میں جو ابہام ہے اس کی وضاحت ناگزیر ہے۔ سب سے پہلا ابہام یہ ہے کہ’’ غیرشرعی رسومات والی شادیوں میں شرکت سے اجتناب‘‘ کیا ہے۔ کہیں یہ غیرارادی طور پر یا ارادتاً عوام کی اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش تو نہیں ہے۔ علما و مشائخین کو چاہئے کہ پہلے غیرشرعی کاموں کو نام لے کر واضح کریں ورنہ عام آدمی کا ذہن تو ڈی جے، پٹاخے، بارات، ناچ گانے، وغیرہ کی طرف چلاجاتا ہے۔ یہ چھچھورے مظاہرے ہر شادی میں نہیں ہوتے۔ یہ تواولڈ سٹی کے صرف چند ان پڑھ کرتے ہیں۔ اور ان جاہلوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لچّرپن غیرشرعی ہے۔ اس لئے مسئلہ ڈی جے وغیرہ کا نہیں ہے ۔
اصل مسئلہ جس کو کھل کر بیان کرنے کی ضرورت ہے وہ ان غیرشرعی کاموں کا ہے جن کے کرنے والے سارے شرفا دیندار،سمجھدار، ایجوکیٹیڈ اور مالدار گھرانوں سے ہیں۔ وہ ان کاموں کو شرعی سمجھ کر کررہے ہیں جبکہ یہ سارے کام غیرشرعی ہیں۔ جیسے: لڑکی والوں کی طرف سے منگنی کی تقریب، جوڑے یا ہنڈے کی رقم، بارات ئا شادی کے دن کا کھانا، خوشی سے دینے اورلینے والاجہیز، سینکڑوں مہمانوں کے ولیموں کا اہتمام، یہ چیزیں کہاں تک شرعی ہیں ، پہلے اس کی وضاحت کیجئے پھر ایسی شادیوں کے بائیکاٹ کی بات کیجئے۔
منگنی کی تقریب: اگر دس پندرہ لوگ آکر انگوٹھی پہنا کر اور منہ میٹھا کرکے چلے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن کئی لوگوں کو جمع کرنااور شادی خانوں میں ضیافت کرنا،کیا یہ اسراف و تبذیر نہیں؟ یہ کام شرعی ہے یا غیر شرعی؟
جوڑے یا ہُنڈے کی رقم: مشرک سماج میں جب عورت کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں تھی، اسلام نے عورت کی مرضی کو مہر کے ذریعے مقدم کردیا اور چاہے ایک لوہے کی انگوٹھی ہو یا ایک چادر کا ٹکڑا، جب تک عورت یہ قبول کرکے ہاں نہ کرے وہ نکاح جائز ہی نہیں ہوتا۔ سبحان اللہ۔ کیا جوڑے کی رقم، جہیز اور منگنی اور بارات کے کھانوں کی وجہ سے عورت کی مرضی دفن نہیں ہوگئی؟کیا جوڑے کی رقم غیرشرعی نہیں؟ ایسی شادی کا بائیکاٹ شرعی طور پرلازم ہے یا نہیں؟
شادی کے دن کا کھانا: لوگ ایک طرف سنّت کے اتنے پابند ہیں کہ نکاح کے دن ہی ولیمہ کرنے ہرگز تیار نہیں ہوتے۔ سبحان اللہ۔ سنت سے محبت ہو تو ایسی ہو۔ یہ شادی کے دن کا کھانا نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی شادی سے ثابت ہے، نہ اُن کی کسی صاحبزادی کی شادی سے، نہ کسی صحابی کی شادی سے۔ عبدالرحمان بن عوف کی شادی کا واقعہ اس بات کے ثبوت کے لئے کافی ہے۔ تاریخ میں صرف لارڈ شیوا اور پاروتی کی شادی ایسی ملتی ہے جس میں دنیا تمام کے انسان، دیوی، دیوتا، رُشی اور پنڈت جمع ہوئے تھے۔
یہ بارات کی پہلی مثال ہے جو اُن کے دھرم شاستروں میں لکھی گئی ہے۔ لیکن ہمارے نبیؐ کی کسی شادی میں یا حضرت علیؓ کی شادی میں بیس پچیس سے زیادہ لوگ جمع ہوئے ہوں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ لوگ جو جمع ہوئے وہ شادی کی بارات کے کھانے میں نہیں بلکہ ولیمہ میں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ولیمہ کو نکاح کے دن ہی کرنے میں زیادہ بڑا گناہ ہے یا ولیمہ کو سنت کے مطابق اگلے دن کرکے نکاح کے دن لڑکی والوں سے کھانا لینے کی ایک نئی بدعت پیدا کرنا زیادہ بڑا گناہ ہے؟ یہ کھانا ہی ہے جس کی وجہ سے گھر بکتے ہیں۔ علما بتاٗیں کہ شادی کے دن کا کھانا بدعت ہے؟ ناجائز ہے؟ حرام ہے؟ یا حلال؟
مہنگا ولیمہ : اِس دور کے ولیمے جہاں سینکڑوں لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے، کیا واقعی سنّت کی تکمیل کی نیّت سے کئے جاتے ہیں۔ یہ نیّت دس بیس فیصد ضرور ہوتی ہوگی، باقی دکھاوا اور شان ہے۔ نکاح کے دن ہی ولیمہ کرنے بلکہ اسی وقت کردینے کی تائید میں بھی اتنے ہی دلائل موجود ہیں جتنے اگلے دن کرنے کی تائید میں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے ایسی کوئی روایت نہیں ملتی کہ ولیمہ کی دعوت اڈوانس میں دی گئی ہو۔ زفاف کے بعد ہی دی جاتی تھی، اور صرف قریب میں رہنے والے لوگوں کو ہی بلایا جاتا تھا۔
عبدالرحمان بن عوفؓکی شادی کا واقعہ بطور ثبوت موجود ہے۔ یہاں یہ فقہی بحث کا موقع نہیں۔ ہاں اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ اگر نکاح کے دن ہی ولیمہ کردیا جائے تو اس سے کئی اسراف و تبذیر کے راستے بند ہوجائیں گے جو شادی کے دن الگ کھانے سے پیدا ہوچکے ہیں۔جب زفاف کی شرط پوری ہونے کا اطمینان حاصل کئے بغیر اڈوانس میں دعوت نامہ دیا جاسکتا ہے تو اڈوانس میں ولیمہ کا کھانا بھی نکاح کے فوری بعد کھلایا جاسکتا ہے۔ علما کرام وضاحت کریں کہ یہ لاکھوں روپئے اور سینکڑوں مہمانوں کے ولیمے شرعی ہیں یا غیرشرعی؟لیکن فتویٰ دینے سے پہلے اِ ن تمام رسومات چاہے وہ خوشی سے ہوں یا ڈیمانڈ سے، اِن کے بدترین نقصانات کا بھی جائزہ لیں اورایک بار پھر اس پورے منظر کو ذہن میں رکھیں کہ
۱۔ یہ تمام رسمیں مشرکوںکی نقل ہیں: یہ تمام رسمیں مہارانی جودھا بھائی سے آئی ہیں جنہیں سب سے پہلے اُسی اکبر اعظم کے دربار کے علما و مشائخین نے جائز کیا تھا جس اکبر اعظم نے ’’دینِ الٰہی‘‘ ایجاد کیا تھا۔ اگرچہ کہ شیخ احمد سرہندیؒ اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒ وغیرہ نے دینِ الٰہی کو ختم کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا لیکن جودھابائی کی لائی ہوئی ایک دیمک اپنا کام کرگئی۔ منگنی، ہنڈے یا جوڑے کی رقم، لڑکی کے باپ سے خوب جہیز اور کھانے لینا یہ مکمل راجپوتوں اور دیوی دیوتاؤں کی رسمیں ہیں۔ یہ تشبّہ ہے اور تشبّ حرام ہے۔
۲۔ اسراف و تبذیر : فتویٰ دینے کے لئے یہ بھی پس منظر ذہن میں رہے کہ یہ جتنی رسومات ہیں، ساری کی ساری اسراف و تبذیر کے زمرے میںآتی ہیں۔ ہر تقریب میں عورتوں کا بیوٹی پارلر اور نئے کپڑے لازمی ہوجاتے ہیں، تحفوں کی مقابلہ آرائی ہوتی ہے۔ اسراف ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے اور تبذیر جس چیز کی ضرورت ہی نہ ہو اس کی ضرورت پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔ یہ تمام رسمیں فی زمانہ اسراف و تبذیر کی بدترین مثال ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں اسراف و تبذیر کو نہ صرف حرام قرار دیا گیا بلکہ اس کے کرنے والوں کو شیطان کے بھائی کہا گیا ہے۔علما یہ وضاحت فرمائیں کہ اسراف و تبذیر کو پھیلانے والی یہ ساری رسمیں حرام قرار دی جاسکتی ہیںیا نہیں؟
۳۔ شادیوں میں تاخیر: بالخصوص شہروں میں شادیاں بہت تاخیر سے ہورہی ہیں، اللہ کے نبیؐ کا فرمان تھا کہ بالغ ہونے کے بعد پہلے نکاح کردیا جائے، کیرئیر بعد میں کھڑا کیا جائے لیکن اب زمانہ الٹ ہے۔ نتیجہ میں کوئی لڑکا یا لڑکی تیس سال پہلے شادی نہیں کرسکتے۔اور شادی کے انتظار میں لڑکے اور لڑکیاں آج کل کیا کررہے ہیں، اس سے بھی ہرشخص واقف ہے۔چونکہ شادیوں میں تاخیر کی اصل وجہ یہی ہے کہ لڑکی والوں کویہ انتظار رہتا ہے کہ اچھی کمائی والا لڑکا ملے، اور لڑکے والے اس انتظار میں رہتے ہیں کہ لڑکا اپنی شادی کی رسومات کے خرچ اٹھانے کے قابل بنے، اب علما یہ وضاحت فرمائیں کہ نکاح کے راستے میں حائل اِن رسومات کو حرام قرار دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
۴۔ وراثت کے احکامات الٹ رہے ہیں: بیٹیوں کی شادیوں پر خرچ کرنے کی وجہ سے پہلے بیٹے کنگال ہوتے ہیں، پھر بیٹے، باپ کے مرنے کے بعد بہنوں کو وراثت سے بے دخل کرتے ہیں۔ اور بہانہ وہی مشرکانہ ہوتا ہے یعنی بیٹی کا جو بھی حصہ تھا وہ اس کی شادی پر خرچ ہوچکا ہے۔ وراثت جسے قرآن نے اللہ کے حدود قرار دیا ہے، ان حدود کی پامالی اِن لعنتی رسومات کی وجہ سے ہورہی ہے، اب علما اس گندے نالے کو بند کرنے کے لئے ایسی رسومات جن پر خرچ کرکے پورا معاشرہ اخلاقی طور پر اور معاشی طور پر تباہ ہورہا ہے، یہ وضاحت کے ساتھ ایک ہی لفظ میں دو ٹوک بتائیں کہ ردّفتنہ کے پیشِ نظر یہ تمام رسمیں جو وراثت کے احکامات کی پامالی کی ذمہ دار ہیں، یہ حرام ہیں کہ حلال؟
ایک اور ابہام:چونکہ قرارداد میں غیرشرعی کاموں والی شادیوں سے اجتناب کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، اس لئے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اجتناب کا مطلب کیا ہے۔ اجتناب صرف بچنے یا Avoid کرنے کوکہتے ہیں، سختی سے مکمل بائیکاٹ کرنے کو نہیں کہتے۔ تو کیا یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ کسی سے بہت خاص تعلق ہو یا کوئی مدرسے کو بڑا لفافہ دینے والا ہو تو محض خصوصی تعلق کی وجہ سے اس کی شادی میں تو شرکت ہوگی، ورنہ عام لوگوں کی شادیوں میں شرکت نہیں ہوگی؟
اخبارات میںعلما کی جانب سے ’’ چاہئے، چاہئے‘‘ کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے سادگی ہونی چاہئے، لوگوں کو شادیوں کے لئے قرض نہیں لینا چاہئے، وغیرہ۔ یہ لفظ چاہئے علما کو ہرگز زیب نہیںدیتا۔ ہم جیسے لوگ جو حکم پیش کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، وہ تو چاہئے چاہئے کی رٹ لگا سکتے ہیں، لیکن علما صاحبِ اختیار ہیں، وہ حکم لگا سکتے ہیں۔ جس طرح اگر کوئی مذاق میں یا نشے میں بھی تین بار طلاق کہہ دے تو علما اُس کا بیوی کے ساتھ رشتہ حرام قرار دیتے ہیں، اگر بچے ہوں تو ان پر کوئی رحم نہیں کیا جاتا، اسی طرح نکاح ، مہر، جوڑا، منگنی، کھانا اور جہیز وغیرہ بھی تو نکاح کے احکام کو باطل کرنے والی رسمیں ہیں، ان پر تین طلاق کی سزا کی طرح کا حکم کیوںنہیں لگتا؟ طلاق سوسائٹی میں ایک فیصد ہے جبکہ نکاح سو فیصد۔ طلاق سے ایک گھر برباد ہوتا ہے، لیکن آج کے نکاح کی اخراجات کی وجہ سے کم سے کم نوّے گھر برباد ہوتے ہیں۔
اب یہ صرف علما اور مشائخین پر منحصر ہے کہ وہ ابہام سے کام لئے بغیر واضح ترین الفاظ میں حکم لگائیں۔ ایسا نہ ہونے کے نتیجے میں ہم نے دیکھا کہ ایک سال پہلے عذرا اسکول حیدرآبقاد میں بھی ایک بار سو دیڑھ سو اہم علما ، مشائخین اور جماعتوں کے صدورکو جمع کیا گیا تھا۔ لیکن تقریر کرنے والوں کی اکثریت ان علماو مشائخین اور صدورِ جماعت کی تھی ، جونہ صرف شہر کی ہر شادی میں شرکت کرتے ہیں بلکہ خود اپنے خاندان کی شادیوںمیں ہر اس خرافات پر عمل کرتے ہیں جو اوپر بیا ن ہوی ہیں۔
میں وہی باتیں دوہرانے پر اس لئے مجبور ہوں کہ کئی سال سے یہی باتیں کہے جانے کے باوجود ہر بار علماو مشائیخین وہی مبہم بات کرتے ہیں اس لئے امت کو تباہی سے بچانے کے لئے علما اور مرشدوںسے یہی التما س ہے کہ اجتہاد فرمایئے، اجتہاد کے دروازے بند مت کیجئے۔پانچ سو ہزا ر سال پہلے کے متقدمین کے فتوؤں سے آج کے مسائل کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ شادی کا یہ مسئلہ آج کا ہے، ائمہ کرام کے زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔
یہ کھل کر بتایئے کہ شریعت میں ’’خوشی سے‘‘، ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘، لڑکی والوں سے لئے جانے والی منگنی اور بارات کی دعوتیں، جہیز، جوڑے کی رقم، اور مہنگے ولیموں اور ان تمام رسومات میں شرکت کرنے کی کیا حیثیت ہے، یہ فسق ہیں، فجور ہیں، منافقت ہیں، حرام ہیں، حلال ہیں، مکروہ ہیں ، مستحب ہیں یا کیا ہیں؟ اور ایسی شادیوںمیں شریک ہونے والے بے حِس لولوں کو شریعت کے نقطہ نظر سے کیا کہا جاسکتا ہے، کیا یہی شریک ہونے والے لوگ فاسقوں اور فاجروں کی ہمت افزائی کرکے سماج میں ایسی شادیوں کو بڑھاوا نہیں دے رہے ہیں؟ کیا یہی لوگ منافق نہیں کہلاتے؟
٭٭٭