سیاستمضامین

معمولی ٹریفک خلاف ورزیوں پر فوجداری مقدمات کا اندراج

ایس ۔ ایم ۔ محسن

شہر حیدرآباد میں ان دنوں ایک پریشان کن رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ حیدرآباد کے مسلم اکثریتی علاقوں کے عوام خاص طور پر نوجوانوں کو منظم طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک ایسا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے جس پر شاید ہی کوئی توجہ دے۔لاء اینڈ آرڈر پولیس بڑی تعداد میں نوجوانوں کے خلاف کریمنل دفعات کے تحت ’’پیٹی کیس‘‘ درج کررہی ہے اور چارج شیٹ فائل کررہی ہے۔ جرم قبول کرلینے پر جرمانہ تو بالکل معمولی ہوتا ہے لیکن کریمنل کیس کا ریکارڈ بن جاتا ہے۔پولیس کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ کیس بالکل معمولی ہے جس میں فکر کرنے کی کوئی بات نہیںلیکن درحقیقت کریمنل دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا جارہا ہے جس کا بھولے بھالے لوگ شکار ہورہے ہیں۔
معمولی ٹریفک خلاف ورزیوں کے واقعات جو زیادہ تر ٹریفک پولیس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جیسے بنا ہیلمٹ ٹووہیلر چلانا، ٹریپل رائیڈنگ، نوانٹری میں داخل ہونا وغیرہ پرتصویر کشی کی جارہی ہے اور متعلقہ پولیس اسٹیشن سے مبینہ ملزمین کو بذریعہ فون نامپلی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت دی جارہی ہے۔ معظم جاہی مارکٹ کے قریب واقع اسپیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں جب یہ ملزمین پیش ہوتے ہیں تو ان پر ’’سمری ٹرائیل‘‘ یعنی مختصر مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ ملزمین کو سوائے اپنے جرم کا اقرار کرنے کے علاوہ کچھ بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ صفائی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر کئے جانے والے جرمانہ کی رقم اور بڑھادی جاتی ہے۔ ملزم کو جج کے سامنے یہ اقرار کرنا ہوتا ہے کہ وہ اس مبینہ جرم کا مرتکب ہوا ہے جس کےلئے اسے عدالت میں پیش کیا جارہا ہے۔ بعدازاں جج اس پر50روپئے کا معمولی جرمانہ عائد کرتا ہے اور اس شخص کو جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
مختلف معاملات میں جرمانہ کی رقم مختلف ہوتی ہے جو جج کی مرضی پر منحصر ہوتی ہے۔ تاہم یہ اس شخص کے خلاف ایک ریکارڈ بن جاتا ہے کہ وہ ایک مجرم ہے۔ایسے افراد کو چارج شیٹ بھی نہیں دی جاتی۔ اگر کوئی اصرار کرتا ہے تو اسے ’’سی اے‘‘ سکشن سے چارج شیٹ کی نقل حاصل کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی شخص ایسے معمولی جرم کا مرتکب ہوا تو اس پرموٹر وہیکل ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جانا چاہئے۔بجائے اس کے فوجداری دفعات کے تحت مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کاروائی کے گمبھیر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔اگر کسی شخص کو3مرتبہ پیٹی کیس میں مجرم قرار دے دیا جائے تو اس کے خلاف روڈی شیٹ کھولی جاسکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لا اینڈ آرڈر پولیس کیوں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں جیسے معاملات کو نمٹارہی ہے۔ اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو عوام کو یہ سہولت کیوں نہیں کہ وہ آن لائن جرمانہ ادا کرتے ہوئے اپنی غلطی کی تلافی کردیں۔ اس کیس کو ختم کردیں جو ان کے خلاف بنایا گیا ہے۔انہیں عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کیوں دی جارہی ہے جہاں وہ مجرم ثابت ہوتے ہیں اور ان کا کیریر داغدار ہوجاتا ہے؟۔ ان عدالتوں میں پیش کئے جانے والے مبینہ مجرمین میں مسلمانوں کی اکثریت دیکھی گئی ہے۔پولیس کے ان اقدامات سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ خاص طور پر اقلیتی نوجوانوں کو بڑے پیمانہ پر مجرم بنانے کی سازش تو نہیں۔ مستقبل میں ان مقدمات کو ان کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ان کا مستقبل تباہ ہوسکتا ہے۔ حصول تعلیم کے لئے اگر وہ بیرون ملک جانا چاہیں تو یہ مقدمات ان کے لئے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ان کا کیریر داغدار ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ہندوستان میں موجودہ ماحول میں مسلمانوں اور دلتوں کی اکثریت اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کررہی ہے۔ اکثریتی برادری کا ایک طبقہ مذہبی انتہا پسندی کی طرف مائل ہے۔ کسی بھی ملک میں اکثریتی برادری کے رویہ میں شدت پسندی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان واقعات کا مقصد مسلمانوں میں خوف پیدا کرنا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پولیس کی اس من مانی پر روک لگائے اور اس بات کا جائزہ لے کہ مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو کیوں نشانہ بنایاجارہا ہے۔اس طریقہ کار کو جلد از جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

a3w
a3w