ڈاکٹر سید عباس متقی
خدا جب خواتین کو حکومت عطا فرماتا ہے توحکومت کے ساتھ عقل و ادراک نیز جمال و کمال کی منزل اخروی بھی عطافرماتا ہے۔ملکہ الزبتھ دوم بھی ایک ایسی ہی خوش بخت خاتون تھیں جو اپنے جمال کے علاوہ کمال بے مثال سے بھی مزین تھیں۔ ملکہ برطانیہ اپنی بہن شہزادی مارگریٹ کی طرح بہت زیادہ حسین تو نہ تھیں لیکن نقوش اقبال انہیں لاکھوں میں ممتاز گردانتے تھے۔گو دھیرے دھیرے جمال تو شباب کے ساتھ رخصت ہو گیالیکن کمال اپنے شباب پر جا پہنچا تھا۔ملکہ برطانیہ ہماری پسندیدہ خاتون تھیں،ہم ان کی جفا کشی کے قائل اور وفاکیشی سے متاثر تھے۔جفا کشی ایسی کہ کم عمری ہی میں نیزاپنے محل ہی میں زیور تعلیم سے آراستہ ہو ئیں،شہ سواری میں کمال حاصل کیا،ہوا بازی میں نام پیدا کیا۔بیماروں کی تیمارداری اور فوجیوں کی خدمت و دل جوئی کے ذریعے ساری دنیا میں ایک انفرادیت حاصل کی۔آزردہ خاطر ارواح کے آنسو پونچھے،مہمانوں کا ایستادہ استقبال کیا،صاحب مقام کو اس کا مقام عطا کیا،شوہر کے ساتھ وفاداری تامّہ کے ساتھ ایک دو نہیں ستر سال کا عرصہ بتایا۔۹۶سال تک خود کو مستعد اورچاق و چوبند رکھا۔گو ان کے سر پر دنیا کے سب سے قیمتی ہیرے کوہ نور سے مزین تاج ضرور تھا،لیکن دل داری و دل نوازی کا جو تاج ان کے سر پر تھا وہ کوہ نور سے کہیں زیادہ قیمتی تھا۔انسان کوہ نور پہن لینے سے عظیم المرتبت نہیں ہو جاتا خلق و کردار کا تاج اسے عظیم المرتبت بناتاہے۔یاد باد کہ جب وہ ہندوستان تشریف لائی تھیں تو برطانیہ حکومت کے ایک احمق اور جلد باز جرنل کی گولیوں سے چھلنی ہو نے والے آزادی کے متوالوں کی آماج گاہ جو قتل گاہ ثابت ہوئی تھی یعنی جلیان والا باغ پہنچ کر ارواح آسودہ حال پر شردھانجلی پیش کی،بہ ظاہر گل ریزی کی لیکن بہ باطن اشک ریزی سے گزر گئیں۔اگر انہوں نے زبان سے اظہار افسوس بھی کیاہو تا اور جرنل ملعون کے حمق پر کچھ کہہ دیاہو تا تو ہندوستان مزید گرویدہ ہو ا کرتا۔حکمرانوں میں اتنا بڑا دل ہو نا شاید خود ایک معیوب بات متصور ہوتی ہے۔تاہم ان کے سینے میں ایک محبت بھرا دل دھڑکتارہا۔تا دم حیات ظلم و تشدد سے اختلاف کرتی رہیں۔ملکہ برطانیہ کئی ایک ملکوں پر راج کرتی تھیں لیکن عوام سے اتنی قریب ہو تی تھیں کہ لوگوں کو شبہ سا ہو نے لگتا تھاکہ آیا یہ ملکہ ہے یا ہم ہی میں سے کوئی ایک فرد ہیں۔لوگ تو قدرے حکومت مل جانے پر ہی آپے سے باہر ہو جاتے ہیں وہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ کم ظرفی پر دال ہوجاتا ہے اور وہ وہ لکھ مارتے ہیں کہ تحریرمحرر کے حمق تام پر مہر لگادیتی ہے۔ملکہ الزبتھ نے اپنے والد جارج ششم کی وفات کے بعد محض ۲۷سال کی عمر میں ایک عظیم الشان مملکت کی مطلق العنان حکمران کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا۔ان کی سوجھ بوجھ،ادراک و آئین چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ یہ شگفتہ پھول ایک طویل عرصے تک اپنی بہار لٹاتارہے گا اور ارض برطانیہ مدت مدید تک اس کی خوش بو سے معطر رہے گا۔
عشق و محبت کسی کی جاگیر نہیں ہو تی،یہ کبھی بھی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔یہ ضروری بھی نہیں کہ تاجوروں کو تاجوروں ہی سے محبت ہو،ہاں ایسا ہو بھی سکتاہے۔ابھی شہزادی الزبتھ محض تیرہ سال کی تھیں کہ انہیں ایک شہزادے سے محبت ہو گئی اور شہزادے کو شہزادی سے۔دونوں طرف یہ آگ برابر لگی ہو ئی تھی۔طرفہ تماشا یہ کہ یہ جوڑا شاہی خاندان کو بھی پسند خاطر رہا اور پھر جون ۱۹۵۳ء میں ان دونوں کی شادی لند ن کے ایک معروف گرجا گھر میں انجام پائی۔اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہو گا کہ ان کے شوہر پرنس فلپس ان سے زیادہ خوبرو اور وجیہہ آدمی تھے نیز ان کی قد آوری اور مردانہ بانکپن ان کے جمال میں چار چاند لگا تا رہا۔شادی کے بعد یہ شاہی جوڑا ۷۵سال تک زندگی کی بہاروں کو لوٹتے رہاحیات دوروزہ کے ہر موڑ پر وہ دونوں ایک دوسرے کے سہارے زندگی کے دن گزارتے رہے۔ شاہی خاندانوں کے علاوہ عام لوگوں میں بھی اس جوڑے کو نہ صرف نگہہ پسندیدہ سے دیکھا جاتا تھا بلکہ لوگ اس جوڑے کی مثال دیا کر تے تھے۔
ا س دنیا میں کون ایسا ہے جسے رنج و غم سے آشنائی ہی نہ ہوئی ہو۔ملکہ پر بھی ایسا ہمت شکن اور نا شکیب وقت گزرا ہے، لیکن انہوں نے اس کامردانہ وار مقابلہ کیااور اپنی ہمت کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ہم اس عورت کی مردانگی کو سلام کرتے ہیں۔ایک ذہن اور ہزارافکار تھے ایک دل اور سو افسانوں کو جھیلنا تھا۔ملک برطانیہ کوئی چھوٹا موٹایاقوت پورہ کا گھر نہیں تھا، ایک عظیم الشان ملک تھا جس نے بے شمار ملکوں پر اپنا جھنڈا لہرایا تھا۔ہزاروں مسائل تھے،ہزاروں واقعات تھے اور واقعہ یہ ہے کہ ملکہ نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے ہر مسئلے کا بحسن و خوبی حل نکالا اور اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔وفا شعار بہو کا ملناتقدیر کی بات ہے۔انسان کی خوش بختی محض یہ نہیں کہ اسے تخت و تاج مل جائے بلکہ انسان کی خوش بختی یہ ہے کہ اسے نیک والدین ملیں اور فرماں بردار اولاد نصیب ہو۔جب ملکہ معظمہ کوتہی از جفا بہو نہ مل سکی تو آپ ہم کس شمار میں ہیں۔اب یہی دیکھیے کہ ملکہ الزبتھ میں کس درجہ صبر و استقلال تھا کہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ان کی کم نصیب بہو کے قدم دائرہ وفا میں ڈگمگارہے ہیں انہوں نے اپنے قدموں کو ڈگمگانے سے باز رکھا۔ یہ اعلیٰ ظرفی ساری دنیاکو صبر و شکیبائی کا پیغام دیتی ہے۔حتی این کہ جب انہیں یہ اطلاع ملی کہ ان کی داشتہ صفت بہوکسی کم ظرف سے حاملہ ہے تب بھی انہوں نے دامن صبر کو نہیں چھوڑا۔یقینا ا ن کا دل رورہا تھا،لیکن ان کی آنکھیں نم ہو نے سے باز رہیں۔مانتے ہیں کہ اس قسم کے ”اتفاقی حادثات“مغربی ممالک میں عام سی بات ہے لیکن یہاں بات چل رہی ہے شاہی افراد کی اور ان کے وقار و عظمت و بزرگی کی تو عرض می کنم کہ بھلے ہی یہ مغرب کی مروجہ روایات رہی ہوں لیکن جن کے رتبے ہیں سواان کو سوا مشکل ہے کے مصداق ہرگزایک حکمران اعظم کی بہو کو نہیں چاہیے تھا کہ اس درجہ بے باکی سے حکومت کی ناک کو خاک میں ملاکر رکھ دے اور جرأت رندانہ کا سر عام مظاہر ہ کرے۔اب یہ بلائے آسمانی تھی یا بلائے سلطانی کہ حیا سے عاری شخصیت اپنے کیفر کردار کو جا پہنچی۔تاہم عالم ضعف میں یہ ملال کچھ کم نہیں تھا،ضعیفی میں یہ اندوہ دل ہلادینے والا تھا لیکن اس موقع پربھی وہ ایک چٹا ن کی طرح اپنی کما ل کی اعلی ٰ ظرفی کے ساتھ ایستادہ رہیں۔دنیامیں ایسی ملکہ دیکھی گئی نہ شاید آئندہ ایسی ملکہ دیکھی ہی جاسکتی ہے۔حال ہی انہوں نے اپنی حکومت کی سترویں سالگرہ منائی تھیں اور لوگوں کا اژدہام کہہ رہاتھاکہ وہ اپنی ملکہ سے کس درجہ پیار کرتے ہیں۔وہ دوسروں کی طرح خود پسند اور ہٹ دھرم نہیں تھیں۔ بہر حال ایک سلجھی ہوئی سمجھ دار شخصیت نے ۸/ ستمبر ۲۰۲۲ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبالے کر
٭٭٭