حیدرآبادسوشیل میڈیا

مولانا آزاد کے نام پر ٹمریز کے اداروں میں رقص و سرور کے پروگرامس

منصف کے پاس موجود ان پروگرامس کی کلپس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان بچوں کو متنوع ثقافت کے نام پر ایسی تربیت دی جارہی ہے جو انہیں اپنے دین سے دور کردے۔ اسلامی نغموں پر بھی بچوں کو رقص سکھایا جارہا ہے۔

حیدرآباد: ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزادکا یوم پیدائش ہر سال 11/ نومبر کو ’یوم اقلیتی بہبود‘ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ریاست تلنگانہ میں اس کا اہتمام کوئی اور کرے یا نہ کرے مگر تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی نے اپنے تعلیمی اداروں میں بڑے ہی جوش و خروش سے منایا جس کیلئے اس نے مجموعی طور پر 32.40 لاکھ روپے بھی خرچ کرڈالے۔

سوسائٹی نے ایسے تعلیمی اداروں کو جہاں اسکول اور کالج دونوں ایک ہی احاطہ میں کررہے ہیں ’یوم اقلیتی بہبود‘ منانے کے لئے 15,000 روپے اورجہاں صرف اسکول کام کررہے ہیں ان کے لئے 10,000 اور جہاں صرف کالج کام کررہے ہیں ان کیلئے 8,000 روپے منظور کئے تھے۔

اس خصوص میں سوسائٹی کی جانب سے اپنے تحت کام کرنے والے تعلیمی اداروں کے لئے رہنما خطوط اور پروگرام کا شیڈول جاری کیا گیا ہے۔ ان پروگراموں میں ضلع کے ارکان پارلیمنٹ‘ ارکان اسمبلی‘ ارکان قانون ساز کونسل‘ ضلع کلکٹر‘میونسپل کونسلرس‘زیڈپی ٹی سی‘ایم پی ٹی سی‘ سرپنچوں‘ منڈل پریسیڈنٹ‘ اقلیتی برادری کے قائدین‘غیر سرکاری تنظیموں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو مدعو کرنے کے علاوہ اس دن طلبہ‘اولیائے طلبہ اور مہمانوں کیلئے چائے پانی کا اہتمام کرنے اور بچوں اور ان کے والدین کیلئے مرغ اور مٹھائی سے ضیافت کرنے کی بھی ہدایت دی گئی تھی۔

اس موقع پر مولانا آزاد پرتحریری و تقریری مقابلوں‘ تین زبانوں میں مباحثہ‘ کوئیز اور اسپیل۔بی(انگریزی)‘ثقافتی سرگرمیوں جیسے ڈرامے، اتھلیٹک پروگرامس اور تفریحی کھیلوں کے اہتمام کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

مختلف تعلیمی اداروں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق یوم اقلیتی بہبود سے متعلق سرگرمیوں میں ادبی سرگرمیوں سے زیادہ ثقافتی سرگرمیاں چھائی رہیں اور بیشتر اداروں میں صرف رقص کے پروگراموں کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا اور جو رقص کے پروگرامس پیش کئے گئے ان کا تعلق دور دور تک بھی مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت یا ان کے کارناموں سے نہیں تھا۔

ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر رقص کے وہی پروگرامس چھائے رہے جو ان اداروں میں عام طور پر سکھائے جارہے ہیں‘ جب کہ کھیل کود کے پروگرامس بھی شائد ہی کہیں رکھے گئے ہوں۔

منصف کے پاس موجود ان پروگرامس کی کلپس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان بچوں کو متنوع ثقافت کے نام پر ایسی تربیت دی جارہی ہے جو انہیں اپنے دین سے دور کردے۔ اسلامی نغموں پر بھی بچوں کو رقص سکھایا جارہا ہے۔

ایسے ہی ایک نغمہ پر جو اللہ کی بندگی اور صلوٰۃ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے بچوں سے رقص کے دوران رکوع و سجود کی نقل کروائی گئی ہے، جو انتہائی معیوب ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تعلیمی اداروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے ورنہ یہاں تعلیم پانے والی نئی نسل مخلوط ثقافت کا حصہ بن جائے گی اور دین سے دور ہوجائے گی۔