ڈاکٹر محبوب فرید
جب ہم چھوٹے تھے تو اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ حیدرآباد کی مشہور صنعتی نمائش دیکھنے گئے تھے۔ہم بچپن سے ضدی واقع ہوئے ہیں۔ اس میں ہمارا نہیں بلکہ بھائی بہنوں کا قصور ہے جو ہماری ہر بات ماننے کے عادی ہوگئے تھے، اس لیے کہ ہم چھوٹے تھے۔آپ کو یاد ہوگا کبھی نمائش میں خواتین کے دن ہوتے تھے۔ جس میں بہت کم مردوں کو داخلہ کی اجازت ہوتی تھی صرف خواتین اور بچے ہی اس خواتین کی نمائش سے بھر پور استفادہ کرسکتے تھے۔ یہ بہت پرانی بات ہے۔ جب خواتین مردوں کے برابرنہیں تھیں۔ مگر ان کی معاشرے میں بڑی عزت ہوتی تھی۔ اسی طرح کی نمائش میں ہم خواتین کے ساتھ شرکت کے لیے گئے تھے۔ ہماری عمر کوئی پانچ سال ہوگی۔ حسب عادت متواتر ہم ایک کھلونوں کی دکان کے سامنے ڈٹ گئے اور فرمائشوں کی بارش کردی۔ والدہ محترمہ نے پہلے تو ہمیں اپنی آنکھیں دکھائیں جو وہ اکثر غصہ کے وقت دکھا یا کرتی تھیں۔ ہمارے بھائی بہنوں کو اتنا ہی کافی ہوجاتا تھا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ گھر کا چھوٹا‘بیٹاہو یا بیٹی لاڈپیار میں انتہائی بگڑا ہواہوتاہے۔ہم بھی اپنی ضد پر اڑگئے اور فرمائش پوری کرنے کا بھر پور مطالبہ کرنے لگے۔ والدہ محترمہ نے ہمارا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا تھا منڈ بکرا ہے۔ پھر ہماری فرمائش کسی حد تک پوری کردی گئی۔ بعد میں ہم نے اپنی بڑی بہن سے پوچھا ”آپی‘ مونڈ بکرا“ کسے کہتے ہیں؟انھوں نے غصے میں کہا…… ”تم کو کہتے ہیں“۔ ہم نے مزید پوچھا ”تو ہماری آپی نے پیار سے سمجھایا ”نہیں میاں‘ دراصل ضدی‘ ہٹ دھرم‘من مانی کرنے والے‘ دوسروں کی کوئی بات نہ سننے والے کو ”مونڈ بکرا“ کہتے ہیں۔
تب سے ہم معاشرے میں مونڈ بکرے تلاش کررہے ہیں۔ یہ ہم کو ہر فیلڈ میں ملے۔ جیسے کچھ منڈبکرے سیاست میں ملے۔ کچھ صحافت میں ملے۔کچھ تجارت میں ملے۔ کچھ ادب و ثقافت میں ملے۔ ان میں کچھ بڑے سماجی کارکن تھے۔ اگر اور تلاش کریں تو آپ کو سماج کے ہر شعبہ میں مونڈ بکرے ضرور ملیں گے۔
سیاسی مونڈ بکرے دراصل عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ انھیں سنہرے خواب دکھاتے ہیں۔ پندرہ لاکھ ہر شہری کے بینک کھاتے میں آنے کا وعدہ کرتے ہیں بے چارہ ووٹر قائد کی ہر بات کو صحیح سمجھتے ہوئے اس وقت تو ووٹ دے دیتا ہے مگر پانچ سال بعد خاموشی سے بدلہ ضرور لیتاہے۔ بیرونی ممالک سے بلیک منی لانے کا وعدہ کرکے نوٹ بندی کی۔ کسی نے نہیں پوچھا ”کیا ملک میں کالا دھن واپس آیا“؟الٹا بعض اسمارٹ چور ملک کا کروڑوں کا مال لے کر ملک سے نو دو گیارہ ہوگئے؟ کیا کسی نے کچھ پوچھا؟ نہیں …………!!
ہمارے ہاں اقلیتوں کو بارہ فیصد تحفظات کا وعدہ‘ وقف بورڈ کا معاملہ‘ مسلم نوجوانوں کا انکاونٹر کا معاملہ‘ مساجد کی شہادت کا معاملہ…………کسی نے پوچھا………… نہیں ……!! پوچھا بھی توکیا ہوا؟
تو بات ہورہی تھی بکروں کی۔ بعض مونڈ بکرے علاقے کی بنیاد پر پہچانے جاتے ہیں جیسے آندھر ا‘ تلنگانہ‘ پنجاب‘ اڑیسہ‘ مہاراشٹرا‘گجرات‘ہریانہ‘ دلی‘ یوپی‘ بہار اس کے علاوہ بھوپال‘ جئے پور وغیرہ میں بھی منڈ بکرے مل جاتے ہیں۔اسی طرح بعض مونڈ بکرے اپنے طرز عمل سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔ جیسے شاہی بکرا‘ فقیربکرا‘ نمائشی بکرا‘ غریب اور مسکین بکراوغیرہ اسی طرح صحت کی بنیاد پر بھی اس طرح کے بکروں کی پہچا ن ہوتی ہے۔ جیسے پہلوان بکرا‘ کفایتی بکراجس کو طبی زبان میں کولیسٹرول فری بکرا بھی کہتے ہیں،یہ بہت ہی لاغر ہوتاہے، اس کو عام زبان میں ہڈی چمڑا بکرا بھی کہتے ہیں۔جو دل کے مریضوں کے لیے مفید ہوتاہے۔۔دودھ‘انڈے ملٹی وٹامن‘ اسٹرئیڈ سے مزین بکرا‘ بادام‘ کاجو‘ پستہ کھانے والے بکرا۔ ان کی پہچان ان کی قیمت سے کی جاتی ہے جیسے ایک جوڑا مونڈ بکرے کی قیمت (۸) لاکھ روپے‘ اس سے کم چار لاکھ‘ اس سے کم ایک لاکھ کا بکرا تو حیدرآباد والوں نے بھی دیکھاہے۔پچاس اور بیس ہزار روپے جوڑی والے مونڈ بکرے ہمارے قسمت میں آتے ہیں۔ان کے وزن کی بنیادپر قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ دس بیس کیلو سے لے کر ایک ٹن یا اس سے بھی زیادہ کا بکرا دیکھا گیا ہے۔بکرے بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ جیسے کمانے کا بکرا‘ دکھانے کا بکرا‘ قربانی کا بکرا‘ بلی کا بکراوغیرہ۔ بعض لوگ بکروں کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ بکروں کا پالن کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ بعض بکرے بڑے ہی اطاعت گزار ہوتے ہیں۔ ایک جدھر چلا سب ادھر ہی بلا سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں۔ یہ گلہ بان ہی ہوتا ہے جو انھیں ضرر اور خطرات سے بچاتا ہے۔ صحیح راہ پر چلاتا ہے۔ان کی دیکھ بھال کرتاہے۔ یہ بڑا صبر کا کام ہوتا ہے۔ شوقین لوگ بکروں کے نام بھی رکھتے ہیں۔ بعض تو انہیں اپنی اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ بعض ملکو ں میں بکروں کے درمیان مقابلہ بھی ہوتاہے۔جو بکرا جیتا وہ فاتح کہلاتاہے۔بکرا کتنی بھی خوبیوں والا ہو ایک نہ ایک دن قصاب کے ہاتھوں میں ضرور آتاہے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی ہے۔ سوچا جائے تو بکرے کی زندگی بکری کے بغیر بے فیض ہے۔ اگر وہ بھی اپنی نسل پیچھے چھوڑجائے تو وہ بکرا کامیاب بکرا ہے۔ ورنہ وہ آیا بھی اور گیا بھی ہوجائے گا…………!!
٭٭٭