ابو متین
دانشور کہتے ہیں آدمی سماجی حیوان ہے یعنی حضرت انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ دوسروں کے بغیر لنڈورابن کررہ نہیں سکتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسانی سماج، حیوانی صفات سے لطف اندوز ہوکر ترقی کا حق ادا کررہا ہے۔ سماج میں انسانی برتاؤ اورطرزعمل کے مطالعہ کونفسیات کہا جاتا ہے، اور سائنسی علوم کا حصہ ہے۔ نفسیات سے دوری نے لوگوں کو تو ہم پرستی کی جہالت میں غرق کررکھا ہے۔ انسانی اعمال کی ساری خرابیوں کے کڑوے کیسلے پھول اور پھل اسی جہالت کے درخت سے پھلتے اور پھولتے رہتے ہیں۔ جاننے اورماننے کے باوجود عمل میں کوتاہی اسی نفسیات سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہواکرتی ہے۔ نفسیات کے اندرنہ صرف انسانی کردار کا جائزہ لیا جاتا ہے بلکہ روحانی موکلوں کو قابو میں لانے سے لے کر خلل دماغ اورجنسی علوم کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے تک کی تکنیک موجود ہے، لیکن جہاں ہمارے دانشوروں کو ملت کی زبوں حالی پر خون کے آنسورونے کی ضرورت لاحق ہے وہیں نفسیات سے چشم پوشی اورکنارہ کشی پران کاباہم گلے مل کردھاڑیں مارمار کر روئے بغیر چارہ نہیں رہا ہے، کیوں کہ اس جدید علم کو بام عروج پرپہنچانے والی ہزاروں کتابیں شائع ہورہی ہیں، لیکن جنرل نفسیات پر اُردو کی ایک کتاب تک موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نامعقول اور ناسمجھی کا دوردورہ ہے، روحِ دین کا شعور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا،دین کی باتوں کا ڈھنڈورا توخوب پیٹا جاتا ہے، لیکن اس کے Outputپردھیان نہیں جاتا،بے عملی ہمارا لازمی شیوہ ٹھہرا۔اور ہم اس کارکردگی پر چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں۔
یہاں پاگلوں کی نفسیات پرچاند ماری کرنا ہے۔ یہ موضوعات دراصل تحریری ڈائننگ ٹیبل کی ”مزیدار ڈیشس کی مانند ہیں۔ذہنی توازن بگڑنے پر اس کا معمولی سے معمولی متاثر شخص بھی بہت دلچسپ ثابت ہوتا ہے۔ لطیفوں اور چٹکلوں میں ان کی خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ رہ جاتی ہے نفسیات تو خیر وشرکے درمیان ڈولتے حضرتِ انسان کا حال چال بھی بڑا دلچسپ ہوا کرتا ہے۔اس کے اندراورباہر کے دو علیحدہ پہلوماہرین نفسیات کی گرفت سے باہر نہیں ہوتے، کیوں کہ دماغ میں خیالات کی کھچڑی پکنے کے بعدہی آدمی ارادہ کرتا پھر عمل درآمد کرتا جاتا ہے۔ جس طرح ذائقہ دار کھچڑی کے لیے اس میں شامل اجزاء کا موزوں ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح نارمل آدمی کے خیالات میں توازن ہوتو وہ صحیح الدماغ ہوتا ہے ورنہ دماغ میں شامل ِ خیالات گڈمڈ ہوکر توازن کھوبیٹھے توآدمی اپنی پوزیشن کو داؤ پر لگادیتا ہے۔ عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتا ہے اور اس خلل ِ دماغ کی بے شمار قسمیں ہوتی ہیں۔ لوگ تواس کی آخری قسم سے واقف ہوتے ہیں۔ باقی تمام قسموں کو اندھ وشواس کے عاملوں اورچھومنتر کے جاہل پیروں کے سپرد کرکے آنکھیں موندلیتے ہیں۔ حالاں کہ ان سوچوں کی اُتھل پتھل سے جنم لینے والی ساری شکایتیں نفسیات سے تعلق رکھتی ہیں۔ سوچوں کی بے اعتدالی سے نفسیات کا چولی اوردامن کا ساتھ ہے۔رہ جاتا ہے پاگل پن کا آخری مرض تو وہ ان دنوں نفسیات کی چولی دامن سے آزاد ہوکر جدید میڈیسن کے وسیع اوورکوٹ میں پناہ لے چکا ہے، لیکن اب بھی زیادہ تر لوگ نفسیات اورذہنی بگاڑکونہ رہے بانس اورنہ بجے بانسری پرعمل پیراہوکر غفلت کوگلے لگائے آرام کررہے ہیں۔ غوروفکر کی جھنجھٹ ایسی نہیں ہوتی کہ آسانی سے ہضم ہوجائے۔ طبیعت اِدھر مائل ہی نہیں ہوتی اس کے علاوہ چلتی کانام گاڑی یعنی رواجوں کی لکیر کے فقیربننے رہنے میں جوعافیت ہے،اس کے سب دلدادہ ہیں تو ہم سردردکیوں مول لیں؟انجام کار ان مریضوں کی باگ ڈور سنیاسیوں اور فقیروں کے ہاتھوں تھمادی جاتی ہے۔
وہ تو مقام شکر ہے کہ خللِ دماغی Dementia کی ہلکی شکایتیں دھوپ چھاؤں کی طرح بدلتی رہتی ہیں اور مناسب کونسلنگ پرکمزور ہوکر معدوم بھی ہوجاتی ہیں۔ چوں کہ اس مرض کا سارا دارومدار سوچوں اور خیالات پرہوتا ہے اس لیے جب کسی خاص مسئلے کو نشانے پررکھ کرساری سوچوں کومرتکز کیاجاتا ہے تو دلچسپ صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ وہ مسئلہ عام لوگوں کی نظر میں بے حقیقت اور ناقابل توجہ ہوتا ہے، لیکن اس ذہنی مریض کے حق میں زندگی اورمو ت جیسا گمبھیر بن جاتا ہے۔ اس کے بارے میں سوچ سوچ کر حیران پریشان ہواجاتا ہے۔ اگر یہ کسی سے اپنی اس دل ودماغ پرچھائی الجھن کا بھولے سے بھی ذکر کرڈالے تو سوائے لعن طعن اورجھڑکی کے کوئی ہمدردی نہیں ملتی، اس لیے وہ اپنے آپ میں دفن ہوکررہ جاتا ہے،سب سے کٹ کررہ جاتا ہے، اس طرح مرض کی شدت میں اضافہ ہونا لازمی ہوتا ہے۔ پاگل پن کے اس فائنل ذکر خیر سے قبل،درمیانی مرض بھی کچھ کم ستم نہیں ڈھاتا۔شناخت نہ ہونا دوسری بات ہے ورنہ اخبارات میں نوجوانوں کی خودکشی کے واقعات کی وجوہات پڑھ کر سمجھاجاسکتا ہے۔ یہ سب ان ہی وقتی جذبات کو مرتکز کرکے سوچنے کی وجہ سے ہوا کرتا ہے۔ ذہنی توازن کے بگاڑ کی یہ مثالیں غور طلب ہیں۔ معمولی معمولی وجوہات پراپنی اوردوسرے کی جان کو ہاتھ کا میل خیالی کرکے ضائع کرناکوئی کھیل نہیں ہوتا۔ لڑکوں کو و الدین کے سیل فون نہ دلانے یا چھین لینے پر خود کشی کرلینا کیا معنی رکھتا ہے؟ امتحان فیل ہونے کی وجہ توقدیم ٹھہری، اب تو رزلٹ سے پہلے فیل ہونے کے خوف سے خود کشی کے واقعات ہونے لگے ہیں۔ پسند کے ساتھی سے شادی نہ ہونے پرلڑکی اورلڑکا واپس خدا کے حضور فریاد لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ بیوی جھگڑا کرکے میکہ جانے پر شوہر نامدارمایوس ہوکر خودکشی کرلیتا ہے۔ پڑوسی کے تنگ کرنے اور تنگ دستی سے مجبور ہوکر اورمرض سے بیزار ہوکر بھی لوگ جان دینے میں عافیت جاننے لگے ہیں۔لگتا ہے نوجوانوں میں بتدریج ذہنی اہلیت (Flair)کی کمی واقع ہورہی ہے۔
”دُلہن وہی جو پیامن بھائے۔“ مقولے کے مطابق ذہنی مریض کے آؤٹ آف کنٹرول ہونے کے لیے کسی خاص سبب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے من کو بھانے والا کوئی بے وقعت واقعہ بھی بگڑنے کی تحریک پیدا کرسکتا ہے۔ حد یہ کہ کسی فرضی معاملے کو بھی دلہن بناکر اپنے من مندرمیں سجالیتا ہے تو اس سے نئے گل کھلنے لگتے ہیں۔ ایک تیز طراربیوی کو اپنے شوہر پرشک تھا کہ وہ ایک دوسری کم عمر لڑکی کے ساتھ گزر بسرکررہا ہے۔شوہر بہت کوشش کرکے یقین دلاتا رہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے یہی سمجھاتا رہا، لیکن وہ ماننے تیارنہ ہوتی۔روزبروز اس مسئلے پر جھگڑا بڑھتا گیا۔ والدین کی اس توتو میں میں پر لڑکے اورلڑکیاں بھی تنگ آچکی تھیں، وہ بھی بے بس تھے لیکن ماں آئے دن ان کے والد کے خلاف جارحانہ رویہّ اختیار کرتے ہوئے دلائل اورثبوت پیش کرکے اپنا ہم نوا بناتی رہی۔ فون پر اپنی سوکن کے ساتھ گالی گلوج کرتے ہوئے بھی مشاہدہ کرنے لگے، حدیہ کہ وہ گھر کے باہر جاکر اپنی سوکن کے ساتھ ہاتھاپائی کرکے آنے لگی، گردن،چہرے اورہاتھوں پرکھروچوں کے نشانوں کے بعد تو کسی کو یقین نہ کرنے کی وجہ نہ تھی۔ خود شوہر بے حد حیران اور الجھن کا شکار، تصورات میں گم رہنے لگا۔ زندگی کے اس سانحے کو سمجھنے کا دور دور تک پتہ نہیں تھا۔خلیات کے غیبی سایوں وغیرہ کو یہ سبھی فراڈ خیال کرتے تھے۔ اسی ادھیڑ بن میں سوچ سوچ کر شوہر آٹھوں پہر ذہنی تناؤ کا شکار رہنے لگا۔ ٹووہیلر کے حادثے کے بعد بیوی اور ان کے بچوں کو قرار نصیب ہوا۔زوجہ کے خلل دماغ کی وجہ شاید ہی کسی کے پلے پڑے،یہی نہیں اس قسم کے بے شمار واقعات پرجہالت کی تاریکی چھائی رہتی ہے۔
ذہنی توازن میں خلل واقع ہونے سے عجیب وغریب اورناقابل یقین علامات سامنے آتی ہیں۔ ان کو عموماً سمجھا ہی جاتا ہے اورنہ مناسب علاج کی فکر کی جاتی ہے۔مغربی ملکوں میں ماہرین نفسیات ان امراض سے بخوبی نمٹ لیتے ہیں۔ترقی پذیر ملکوں میں اب بھی روحانی علاج کے نام سے تانترک اور عامل حضرات کی چاندی بنی رہتی ہے۔ انڈین فلموں کے ذریعہ نفسیاتی موضوعات پرفلمیں بھی بنائی جاتی رہی ہیں۔ مثال کے طورپر ”بھول بھلیاں“ نامی فلم پہلی مکمل کہانی اسی مسئلے پر بنائی گئی تھی، لیکن شاید اس کے حقائق تک لوگوں کی نظر جاسکے۔ چند عام شکایات کے نام یہ ہیں۔ آٹزم،بائی پولار، شیزوفرینیا اور سادیت کا جنسی مرض کے علاوہ دوہری شخصیت۔اپنے وجود کی فراموشی،نسیان اورالزائمروغیرہ۔خود پرست (Nareissistic) اور انتشارپرست (Anarcist)جیسے بھی مزیدنفسیاتی مریض پائے جاتے ہیں۔
جب ذہنی عارضہ شدت اختیار کرلیتا ہے اورسنگین مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے تو اس سے متاثر لوگوں کی حرکات وسکنات بھی حیران کن ہوجاتی ہیں۔ اس قسم کے پاگل پن میں لطیفے اورچٹکلے بھی سرزد ہوتے ہیں اور لوگ ان سے منسوب کرکے بھی اپناذوق مزاح پورا کرتے جاتے ہیں۔ جیسے یہ ملاخطہ کریں۔ دوپاگل آپس میں باتیں کرتے ہوئے: ان میں سے ایک کہتا ہے ”میں چارمینار خریدنے والا ہوں“ تو دوسرا بڑی لاپرواہی اور سکون سے جواب دیتا ہے ”تم کیسے خریدوگے جب کہ میں فروخت کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتا۔“ ظاہر ہے دوسرا پاگل واقعی اگر اس طرح کا جواب دینے پر قادرہوتو پاگل کس طرح ہوسکتا ہے؟ البتہ سوچوں کا نظم برقرار نہ رہنے کی وجہ سے سب کچھ الٹ پلٹ جاتا ہے اس لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں سامنے آنے لگتی ہیں۔ بازاروں اورگلیوں میں ان کی چلت پھرت سے شریر بچوں کو تختہ مشق بنانے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ اس مرض کی سب سے آخری علامت آمادہ تشدد ہواکرتی ہے۔ سنگ باری وغیرہ کی صورت میں ان کوسوائے پاگل خانہ منتقل کرنے کے دوسرا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ ان کو ابتداء میں کرنٹ شاک پھرسب سے الگ تھلگ رکھ کر دوائیں دی جاتی ہیں۔ پہلے نیند کی گولی 30mgتک دے کر قابو میں کیا جاتا تھا۔ جدید میڈیسن کی ترقی سے اس طریقہ علاج میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔سوچوں کی تیزی کو کم کرکے نارمل حالت میں لانے والی دوائیں بڑی کارگرثابت ہورہی ہیں۔ پاگل پن اگرابتدائی مرحلے میں ہوتو ڈاکٹری علاج سے بتدریج افاقہ بھی ہوجاتا ہے، لیکن لوگ پہلے عامل حضرات اورتانترک،سنیاسیوں کا شکار ہوکر مرض بڑھ جانے کے بعدآخری مرحلے میں صحیح علاج سے رجوع ہوتے ہیں۔
اپنے ایک نوجوان عزیز سے پرائیوٹ منٹل ہاسپٹل میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس یادگار ملاقات کی یادیں اس قابل ہیں کہ دوبارہ کی ہوس باقی نہیں رہی، کیوں کہ اس وقت عاجز نے جوکوشش کی تھی، اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ہاسپٹل کے عملے نے یقین کرلیاتھاکہ اصل پاگل تو میں ہوں، کیوں کہ جس دعوے کولے کر ڈاکٹروں سے نمائندگی کرتا رہا اس سے شرمندگی کے سواء کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ بات یوں ہوئی کہ اس نوجوان عزیز نے اپنی سمجھداری کا یقین کرواتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ساراکھیل ان کے بھائیوں کا جائیداد سے محروم کرنے کاہے۔ پہلے ان کو مارڈالنے کی سازش کی گئی تھی۔ ناکام ہونے پر پاگل بناکر دواخانے کے حوالے کردیاگیا ہے اورپھر ان کے دونوں ہاتھ جو پیچھے بندھے ہوئے تھے اس سے بھی وہ بہت نالاں تھے۔ان کی رقت آمیز صاف صاف باتوں پریقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ غور کرنے پر ان کے حالات میں سچائی عیاں تھی۔ بس ان کی مدد کرنے کا عزم کرکے ڈاکٹروں کومنوانے کا بیٹرا اٹھایا، لیکن ہماری باتوں پران کے کانوں پر جوں بھی رینگتی نظرنہ آنے لگی تھی۔ آخرڈاکٹر وں نے عاجز سے الٹایہ سوال کرڈالا کہ آپ کے نوجوان نے ہم ڈاکٹروں سے کوئی نہ کوئی رشتہ جوڑا ہوگا۔ ہم نے بے ساختہ اعتراف کرلیا جبکہ ڈاکٹر نے کہا بس اس ایک علامت پر یقین کرکے یہاں سے رفع دفع ہوجاؤ اورہم منہ لٹکاکر چپ چاپ لوٹ گئے۔