نچلی عدالتیں ٹکڑوں میں فیصلہ کرتے ہوئے ہندو فریق کے دعوے کو مضبوط کررہی ہیں: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وارانسی ڈسٹرکٹ جج نے اپنی سروس کے آخری دن آج گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ایک ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی۔
نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وارانسی ڈسٹرکٹ جج نے اپنی سروس کے آخری دن آج گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں ایک ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی۔
کورٹ نے دیئے آڈر میں ضلع مجسٹریٹ سے کہا ہے کہ وہ مدعی اور کاشی وشواناتھ ٹرسٹ کے نامزد پجاری کے ذریعہ پوجا راج بھوگ کا اہتمام کرائے۔ ڈسٹرکٹ جج کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لئے ہرگز بھی قابل قبول نہیں ہے اور وہ اسے الہ آباد ہائی کورٹ میں چالینج کریں گے۔
آج یہاں جاری ایک بیان کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے وارانسی ڈسڑکٹ جج کے فیصلہ پر سخت حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ انتہائی غلط اور بے بنیاد دلیل کی بنیاد پر دیا گیا کہ گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں 1993 تک سومناتھ ویاس کا پریوار پوجا کرتا تھااور اس وقت کی ریاستی سرکار کے حکم پر اسے بند کردیا گیا تھا۔24 جنوری کو تہہ خانے کو ضلعی انتظامیہ نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
عدالت نے اس وقت اپنے آرڈر میں یہ بھی کہا تھا کہجوں کی توں حالت برقرار رکھی جائے۔ آج اس میں ترمیم کرکے پوجا کی اجازت دے دی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد اس کیس میں کیا بچ جاتا ہے۔ دوسری افسوس ناک بات یہ ہے کہ مدعی علیہ کو اس میں اپیل کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ مزیدبرآں سپریم کورٹ کے اس حکم کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ یہ کیس 1991کے قانون کے تحت چل بھی سکتا ہے یا نہیں۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا اس فیصلہ کو غلط انداز میں پیش کرکے عوام کو گمراہ کررہا ہے کہ ہندوفریق کو مسجد میں پوجا کی اجازت دے دی گئی۔ہم یہ بات واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس تہہ خانے میں کبھی بھی پوجا نہیں ہوتی تھی۔ ایک بے بنیاد بات کو بنیاد بناکر ضلعی جج نے اپنی سروس کے آخری دن انتہائی قابل اعتراض اور بے بنیاد فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ7دنوں کے اندر پوجا کاانتظام کرایا جائے۔
مسجد انتظامیہ کمیٹی اس فیصلہ کوالہ آباد ہائی کورٹ میں چالینج کررہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ نچلی عدالتیں ٹکڑے ٹکڑوں میں فیصلہ کرکے اصل کیس کو ہندو فریق کے حق میں مضبوط کرتی جارہی ہیں۔ پہلے 5 ہندو خواتین نے اگست 2021 میں مقامی عدالت میں درخواست دے کر کہاکہ یہ ایک ہندو مندر تھا جہاں پر باضابطہ پوجا ہوتی تھی، جسے اورنگ زیب نے منہدم کرکے مسجد تعمیر کرادی اور ہمیں پوجا کی اجازت دی جائے۔
جب مسجد انتظامیہ نے اسے یہ کہہ کر سپریم کورٹ میں چالینج کیا کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991کے قانون کے تحت اس مسجد کو تحفظ حاصل ہے تاہم سپریم کورٹ نے اسے پھر ڈسڑکٹ کورٹ کے حوالہ کردیا اور ڈسڑکٹ کورٹ نے فیصلہ دیا کہ اس پر نہ تو عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کا قانون اور نہ ہی وقف ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔
اس کے بعد عدالت نے مسجد کے اندر سروے کا حکم دے دیا، جس میں سروے ٹیم نے حوض کے فوارہ کو شیو لنگ قرار دے کر حوض کے استعمال پرپابندی لگادی۔ ابھی معاملہ یہاں پر تھما نہیں تھا کہ ایک اور آر ڈر میں مسجد کے سروے کا محکمہ آثار قدیمہ کو حکم د ے دیا گیا، جس نے اپنی رپورٹ میں مسجد کے نیچے ایک بڑے مندر کے آثار برآمد کرلئے اور اب ایک تیسرے فیصلہ میں مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دی جارہی ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے اپنے بیان میں مزید کہا بابری مسجد کے مقام پر مسجد تعمیر کرلینے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اب ملک کے مختلف علاقوں کی متعدد مساجد کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے، چاہے وہ کتنی ہی قدیم مساجد ہی کیوں نہ ہوں۔ دہلی میں سنہری مسجد کا معاملہ ابھی تھما ہی نہیں تھا کہ کل دہلی میں ڈی ڈی اے نے علی الصبح مہرولی کے علاقہ میں ایک قدیم مسجد کو بل ڈوزکردیا۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ سے اپیل کی کہ اگر وہ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو سختی سے نافذ کرنے کی حکومت کو ہدایت دے اور نچلی عدالتوں کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ اس قانون کی موجودگی میں مسجدوں سے متعلق کسی بھی نئی درخواست کو قبول نہ کریں۔ بصورت دیگر اندیشہ ہے کہ اقلیتی فرقوں کی عبادت گاہیں نہ تو محفوظ رہ پائیں گی اور نہ ہی ملک میں امن و امان باقی رہے گا۔