ڈاکٹر علیم خان فلکی
اچھا؛ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ لوگ نکاح اور ولیمہ کو ایک ہی دن منعقد کرنے کی تحریک کی اتنی سختی سے مخالفت کیوں کررہے ہیں۔ ہم نے سمجھا تھا کہ ان کے پاس کوئی شرعی دلیل ہوگی، لیکن پتہ چلا کہ باپ دادا بلکہ پڑدادا اور سکّڑدادا سے چلی آرہی روایت کو باقی رکھنا ضروری ہے۔ وہ روایت یہ ہے کہ شادی کے دن شیروانی اور ولیمہ کے دن سوٹ پہننا ہماری آبائی شان ہے۔ہم تو سمجھ رہے تھے کہ ولیمہ کو نکاح کے اگلے دن کرنے میں شائد سنّت کی کوئی دلیل ہوگی، لیکن معاملہ دلیل ولیل کا نہیں، معاملہ شیروانی ، سوٹ، کھڑے دوپٹے اور غرارے یا بنارسی ساڑی کی ضد کا ہے۔
اس دلیل پر ہم متفق ہیں۔ باپ دادا کی شان کو باقی رکھنا بہرحال ہمارا قومی فریضہ ہے۔ اب نہ ہمارے پاس سرکاری عہدے رہے نہ قابلِ فخر حیثیتیں۔ اگر گھر پر سرکاری گاڑی ڈرایﺅر کے ساتھ کھڑی ہوتی اور ہمارے لوگ مہمانِ خصوصی بن کر جاتے تو اس میں شیروانی یا سوٹ میں جانے کی شان بھی ہوتی، لیکن اب جب کہ نظام سرکار کے لٹنے کے بعد سبھی نواب اور نوابوں کے چمچے روڈ پر آچکے ہیں، تو پھر ان شیروانیوں اور سوٹوں کا کیا کرتے؟ اس لیے ضروری تھا کہ نکاح کے دن شیروانی اور ولیمہ میں سوٹ کی روایت قائم کرکے اِنہیں زندہ رکھا جائے۔ اس لیے اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ سوٹ تو سلوالیتے ہیں تاکہ دوسروں کے ولیموں میں پہننے کے کام آئے، لیکن شیروانیاں کرائے پر لی جاتی ہیں۔ جب شادی کے دو چار سال بعد پیٹ باہر نکل آتا ہے تو یہ سوٹ برسوں الماری میں لٹکا رہتا ہے۔ اب باپ دادا کا ہمارے پاس رہا ہی کیا جس پر ہم شان کریں سوائے دھوم دھام سے شادیا ں کرنے کے۔ چونکہ ہمارے دادا اور نانا نے جائدادیں بیچ کر ہمارے محترم پھوپھا جانوں اور خالو پاشاو¿ں کو خریدا، پھر اس کے بعد جو تھوڑا بہت ابا جان کو ملا تھا انہوں نے بیچ کر ہمارے بھائی جانوں کو خریدا ، اس لیے یہ روایت باقی رکھنا ضروری ہے۔اب اگلی نسل اپنی اولاد کی شادیوں کے لیے چاہے خود بِک جائے، چاہے لڑکیاں بھاگ جائیں لیکن شیروانیوں کی شان باقی رکھنے کے لیے لڑکی کے باپ سے نکاح کے دن کا کھانا لینا ضروری ہے۔ اگر لڑکے والے منع بھی کریں تو لڑکی والوں کی سائڈ کے شیروانیاںوالے اعتراض کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری بیٹی کی شادی کے کھانے پر توآپ نے شیروانی استعمال کرلی، اب ہم کو کیسے محروم کرسکتے ہیں؟ آپ نے اکثر لڑکے والوں سے یہ پارسانہ جملہ سنا ہوگا کہ بھئی ہم نے تو کھانے کی دعوت سے منع کیا تھا لیکن لڑکی والوں کا اصرار تھا۔ ایسی شادیوں میں باپ دادا کی اور بھی سنّتیں ہیں جن کوپورا کرتے کرتے قوم کی کمر ٹوٹ چکی ہے، لیکن جھوٹی شان کو باقی رکھنے کے لئے پھر بھی ہم قرضوں ، خیرات و زکوٰة کا سہارا لے کر اُس شان کو باقی رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی باپ دادا کی شان کو باقی رکھنے کے لیے ہمارے پاس شادیوں کے علاوہ اور رہا بھی کیا؟ اسی لیے ہم نے چہلم، برسی، ختنہ ، چِھلّہ چھٹّی اور برتھ ڈے وغیرہ سبھی کو مِنی شادی کی تقریبات میں تبدیل کردیا۔ فرق یہ ہے کہ اِن تقریبات میں سوٹ یا شیروانی کی ضرورت نہیں۔ ہاں بعض لوگ جن کو ممتاز نظر آنے کی چول ہوتی ہے، وہ ضرور یہ پہن لیتے ہیں۔ اِن تقریبات کی وجہ سے جو پیسہ کی بربادی کے ساتھ دکھاوے کی لعنت بڑھتی جارہی ہے ہمارے بعض معصوم NRIs بڑے پیارے پیارے مشورے دیتے ہیں، جیسے شادی کو آسان کرنا چاہیے ، لڑکی والوں پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے۔ ہر شخص یہ ”چاہیے چاہیے“ جیب میں رکھ کر پھرتا ہے۔ کیا اسے یہ نہیں معلوم کہ ہمارے باپ دادا نے ہی سکھایا ہے کہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے، لہٰذا اس میں بارہ خون معاف ہوتے ہیں۔ آن جائے پر شان نہ جائے، شادی کے موقع پر کسی پر نہ نصیحت کام کرتی ہے نہ وعظ۔ اگر جٹھانی کی بیٹی کی شادی دس لاکھ کی ہوئی ہے تو دیورانی اپنے شوہر کو وارننگ دیتی ہے کہ اپنی لڑکی کی شادی کم سے کم گیارہ لاکھ کی ہونی چاہیے، چاہے تم ڈاکہ مارو یا بھیک مانگو۔ یہاں سارے ”چاہیے چاہیے“ ناکام ہوجاتے ہیں، کیوں کہ ہمارے باب دادا کا سسٹم ہے، اور کوئی باپ دادا کے سسٹم سے ارتداد کرنے تیار نہیں، چاہے مایوس ہوکر لڑکیاں ہی ارتداد پر آمادہ کیوں نہ ہوجائیں۔ بے چارے NRIs کو کیا پتہ کہ ایک لڑکی کی شادی خاندان کو کتنے سال پیچھے کردیتی ہے۔پھر بھی اِن دعوتوں کے بھوکڑوں کے پاس ایسی دعوتوں کے جائز ہونے کی دوسری دلیل یہ ہوتی ہے کہ یہ صدیوں سے چلی آرہی ہمارے باپ دادا کی شان ہے۔
یقینا یہ برسوں نہیں بلکہ صدیوں پرانی مسلم تہذیب ہے ، لیکن یاد رہے یہ اسلامی تہذیب نہیں۔ مہارانی جودھا بائی اپنے ساتھ خوب رسمیں لائیں ، لیکن درباری علما میں یہ ہمت نہیںتھی کہ اعتراض کرتے، لہٰذا ان کو مسلم تہذیب کا سرٹیفکیٹ دے دیا گیا۔ اور آج بھی اگر مولوی ان رسموں کو ناجائز کہہ دیں اور ایسی شادیوںکا بائیکاٹ کردیں تو نہ صرف امیر ان کو دعوت دینا چھوڑ دیں گے بلکہ ان کے چندے بھی بند ہوجائیں گے۔ عام آدمی کو تو بریانی اور بگھارے بیگن کی لالچ ہوتی ہے، وہ بے چارا حلال یا حرام کے چکر میں پڑے گا تو ہفتہ میں ایک آدھ بار گوشت کھانے کوملتا ہے اس سے بھی محروم ہوجائے گا۔ ہاں ایسی دعوتوں کو مسلم تہذیب کہنے کی دلیل سلیمان سکندر ؒ اور عبدالرحیم قریشی ؒ سے بھی لائی گئی ہے۔ اور یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ بڑے بڑے علما ایسی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں۔ علما کی مسجدیں الگ ہیں لیکن شادی خانوںمیں یہ سب ایک ہیں۔ ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جس شخصیت کی یاد میں لاکھوں کے جلوسِ میلاد نکالتے ہیں، جن کے نواسوں کے غم میں ماتم کرکے سینے لہولہان کرلیتے ہیں، جن کی خاطر شب برات میں مسجدوں کو بقعہ نور بناتے ہیں، جن کے فرمان ”النکاح من سنتی“ کو رقعہ پر چھاپتے ہیں، جن کی سنّت کو کوئی ہمارے طریقے سے ہٹ کر کرے تو اس کو کافر، بدعتی، مشرک، فاسق اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیتے ہیں، آخر اس شخصیت کی شادی یا ان کے نواسوں کی شادیاں ہمارے لیے دلیل کیوں نہیں بن سکتیں؟