تلنگانہسوشیل میڈیا

ٹمریز اداروں میں غیر مسلموں کے تہوار، والدین فکرمند

حکومتوں کو بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ایمان اور شرک کے معاملہ میں مسلمان بہت زیادہ حساس ہوتا ہے اور وہ ایسے امور سے پرہیز کرتا ہے جن میں شرک کا ذرہ برابر بھی شائبہ ہو۔

حیدرآباد: مذہبی ہم آہنگی اور رواداری ایک متنوع سماج کے لئے بہت ضروری ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ایک مذہب کے لوگ دیگر مذاہب کے تہوار منائیں اور ان کی تہذیب و ثقافت کو اختیار کریں بلکہ ایک اچھے شہری کو چاہئے کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرے۔

حکومتوں کو بھی اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ایمان اور شرک کے معاملہ میں مسلمان بہت زیادہ حساس ہوتا ہے اور وہ ایسے امور سے پرہیز کرتا ہے جن میں شرک کا ذرہ برابر بھی شائبہ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ مفکر اسلام سابق صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی علیہ الرحمہ نے ان اسکولس سے اپنے بچوں کو نکال دینے کی ہدایت دی تھی جہاں سرسوتی وندنا پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ہمارے بچے علم سے محروم رہ جاتے ہیں تو رہ جائیں اور ہم اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لینا گوارہ کرلیں گے مگر ایمان کا سودا نہیں کرسکتے۔

اقلیتی طلبہ کو معیاری عصری تعلیم فراہم کرنے کے مقصد سے حکومت تلنگانہ نے ریاست بھر میں اقامتی اسکولس کا ایک جال پھیلادیا ہے جن کو چلانے کے لئے ایک علحدہ تلنگانہ مائنارٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی(ٹمریز) تشکیل دی گئی ہے۔

ان اسکولس میں بچوں کو شریک کروانے کے لئے مساجد کے منبر و محراب سے بھی اپیلیں کی جاتی رہیں چونکہ ہمارے آئمہ و خطیب حضرات کو یہی باور کروایا گیا تھا کہ ان تعلیمی اداروں میں بچوں کے دین کے تحفظ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا اور ہر ہاسٹل میں مقیم بچوں اور بچیوں کے لئے نماز گاہ کی گنجائش رکھی گئی ہے۔

یہی نہیں بلکہ دینیات کے لئے ایک گھنٹہ مختص کیا گیا ہے مگر حقیقت اس کے کچھ برعکس ہے۔اسی طرح ٹمریز کی جانب سے ان اداروں میں مقیم طلبہئ کے لئے جو دن بھر کی مصروفیات مقرر کی گئی ہیں ان میں کسرت اور یوگا کی تو گنجائش رکھی گئی ہے مگر نماز کے لئے کوئی وقفہ نہیں دیا گیا ہے۔ اگرچہ ان اداروں کا قیام اقلیتی طلبہ کے لئے کیا گیا ہے اور داخلہ پالیسی کے مطابق ان اداروں میں 64 فیصد نشستیں مسلمانوں کے لئے مختص ہیں جب کہ عیسائیوں کے لئے 7 فیصد اور دیگر اقلیتوں جین، پارسی، بدھسٹ اور سکھ کے لئے ایک ایک فیصد نشستیں مختص ہیں اور 25 فیصد نشستیں غیر اقلیتی برادریوں کے لئے مختص ہیں مگر ان اداروں میں اساتذہ اور دیگر ملازمین میں مسلمانوں کی شراکت داری 10 فیصد بھی نہیں ہے۔

ان اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ اور ملازمین سیکولرازم اور متنوع تہذیب و ثقافت کے فروغ کے نام پر مختلف مذاہب کے کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ممکن ہے کہ مسلم طلبہئ کو دیگر مذاہب کے تہواروں میں شریک نہیں کیا جارہا ہو مگر ان کی موجودگی میں ان تہواروں اور مخصوص مذہبی پروگراموں کے انعقاد سے مسلمانوں میں یہ تشویش پائی جارہی ہے کہ ان کے بچے ان تمام امور کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں گے جس کے نتیجہ میں ان کے بچے دینی باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جائیں گے اوران کے ملحد ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے، شائد یہی وجہ ہے کہ ان اداروں میں جاریہ سال مسلم بچوں کے داخلہ کی شرح بہت زیادہ گھٹ گئی ہے۔

ان اداروں میں حال ہی میں راکھی اور جنم اشٹمی کے تہوار بھی منائے گئے ہیں۔ یہ شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ان اداروں میں کام کرنے والی کئی مسلم خواتین نے مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی خاطر اپنے غیر مسلم ساتھیوں کے ہاتھ پر راکھی باندھی ہیں۔ غیر مسلم اسٹاف باضابطہ طور پر ان اداروں میں اپنے اپنے مذہبی رسومات انجام دے رہا ہے جس میں دیگر مذاہب کے طلبہئ اور اسٹاف بھی شامل ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ بچیوں کے لئے رنگولی ڈیزائنس کی مشق بھی کروائی جارہی ہے اور اس مرتبہ جشن آزادی کے موقع پر بچیوں نے نادانستگی میں زمین پر رنگولی کے ڈیزائینس میں قومی پرچم کو بھی پیش کیا جو قومی پرچم کی توہین کے مترادف ہے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان اداروں میں کس طرح کا ماحول پنپ رہا ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ مسلمان، اب ان اداروں میں اپنے بچوں کو شریک کروانے میں تحفظات کا شکار ہورہے ہیں۔ اس خصوص میں مولانا محمد عبدالرحیم خرم جامعی نے کہا کہ اسلام میں محرم اور غیر محرم کی تمیز کردی گئی ہے اور کسی مسلم خاتون کے کسی غیر محرم مرد کو بھائی بنالینے سے وہ محرم نہیں ہوجاتا۔ قرآن مجید کے مطابق ایمان کے اعتبار سے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

اگرچہ اسلام ایک مسلمان کو تمام انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی تلقین کرتا ہے مگر ہمارے پاس زبانی اقرار سے حرمت قائم نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مسلمان، غیر مسلموں کے تہواروں اور دیگر ثقافتی پروگراموں میں حصہ لے سکتے ہیں جس میں شرک کا شائبہ نہ ہو مگر ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا۔ اس لئے ہمیں احتیاط کرنی چاہئے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر مذاہب کے بارے میں طلبہ کو آگاہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ نصاب میں ان کو شامل کئے جانے پر بھی کسی کو اعتراض نہیں ہوگا مگر ان تہواروں کا اہتمام کرنے سے گریز کیا جائے، حتیٰ کہ مسلمانوں کے تہوار بھی نہ منائیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا البتہ ان اداروں میں بچوں کو اپنے اپنے مذہب کے اعتبار سے عبادات کرنے کا اختیار دینا چاہئے۔

a3w
a3w