مضامین

پروین شاکر جیسا میں نے دیکھا

’’پروین شاکر: جیسا میں نے دیکھا ‘‘ مصنفہ رفاقت جاوید کی تحریر کردہ ایسی کتاب ہے جودوستی کے خوبصورت دنوں پر مبنی یاداشتیں ہیں ۔ پروین شاکر پر بہت کچھ لکھا جا چکاہے لیکن اس کتاب میں مصنفہ نے ایک دوست کی حیثیت سے پروین شاکر کی شخصیت کے بہت سے نئے گوشوں کو متعارف کروایا ہے ۔

رفاقت جاوید

1988ء میں بین الاقوامی اردو کانفرنس نئی دہلی میں منعقد ہورہی تھی، ان دنوں میرے شوہر قاضی جاوید پاکستان ایمبسی میں ایر اٹاچی کے عہدے پر فائز تھے ۔ پاکستان سے مایہ ناز شعرا ، ادبا، انشا پرداز، بے شمار اداکار اور گلوکار بھی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے نئی دہلی تشریف فرما تھے ۔ پاکستانی وفد کو پاکستان ہاؤس ( جو ایمسبڈر کی رہائش گاہ تھی) میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کرنے کے پروگرام بن رہے تھے اور اس سلسلے میں میٹٹنگس بھی خوب زور پر تھی۔ ایمبسی کی خواتین بھی اس تیاری میں پیش پیش تھیں۔

مجھے سب سے بڑھ کر اپنی پسندیدہ شاعرہ ( جس کی میں کالج کے زمانے سے ہی مداح تھی) سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی بے پناہ خوشی تھی ۔ چند سال پہلے والی پروین جس سے نہایت سرسری ملاقات ہوئی تھی ، پیاس بدستور قائم تھی۔ اب اس سے تفصیلاً ملاقات کے مواقع نظر آرہے تھے ، مجھے ہندوستان میں پاکستانی ذہانت اور فطانت کے بیک وقت یکجا ہونے کا فخر بھی تھا۔اس لیے اس دن کا مجھے بے چینی سے انتظار تھا ۔ پاکستانی وفد کو مختلف جگہوں پر ٹھہرایا گیا تھا ۔ پروین شاکر کو بھی ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔

غیر ارادی طور پر میں نے اپنے گھر کا ہر کونہ اور اپنے لان کے پودوں کا ہر پتا چمکا دیا تھا ۔ جیسے پروین میرے گھر ہی تو قیام کرنے والی ہے ۔ ایک عجیب سی کیفیت مجھ پر طاری تھی۔ میں گھر میں چلتے پھرتے اسی کی غزلوں کے اشعار پڑھتے ہوئے محظوظ ہورہی تھی۔

پاکستان ایمبسی اور پاکستان ہاؤس کی عالی شان عمارتیں ، بے مثال آرکیٹکچر کی وجہ سے دور سے ہی پہچانی جاتی تھیں ( پاکستان ہاؤس لیاقت علی خان کا آبائی گھر تھا) سردیوں کی نہایت پر کیف دوپہر نے وہاں کے ماحول کو بے حد مسحور کن بنا رکھا تھا ۔ ایمبسڈر ہمایوں خان صاحب اور ان کی بیگم منور آپا وسیع و عریض لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے معائنہ کررہے تھے اور خاتون خانہ مسلسل ہدایات دئیے جارہی تھیں کیونکہ آج پاکستانی وفد کو پاکستان ہاؤس میں لنچ کے لیے مدعو کیا گیا تھا ، کھانے کے لیے پر تکلف انتظام لان میں ہی کیا گیا تھا۔

پاکستان ہاؤس کے چاروں طرف پھیلے ہوئے سرسبزتناور درخت اور کچھ موسم خزاں کے حملوں کے شکار شدہ درخت بہت بھلے لگ رہے تھے ۔ دیواروں پر سفید اور پیلی چنبیلی کی بیلیں ، گلاب کی تراشیدہ اور کچھ رات کی رانی کی بے لگام بیلیں چڑھی ہوئی تھیں ۔ دھلی ہوئی خوب نکھری اجلی، آنکھوں کو تر و تازہ کررہی تھیں ۔ سردی کی وجہ سے ان بیلوں پر پھول کلیاں تو نہیں تھیں لیکن بوگن ویلیا کے رنگ برنگے پھولوں کے گچھوں نے اس کی کمی کو پورا کردیا تھا ۔ وہاں کے مالیوں نے کیاریوں میں مختلف رنگوں کے امتزاج سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ چار سو موسمی پھولوں کا راج تھا، نہایت سلیقے و قرینے سے رنگے ہوئے گملے دور تک پھیلے ہوئے تھے جن کا ہر پتا چمک رہا تھا اور پھول مسکرا رہے تھے ۔ لان کی گھاس دیکھ کر ایسے گمان ہوتا تھا جیسے کسی نے حد نگاہ سبز رنگ کی مخملیں چادر بچھا دی ہو ، جس پر پاؤں رکھنا بے حرمتی و بے انصافی کے زمرے میں آتا ہو۔ وہاں کی فضا پھولوں کی مسحور کن خوشبوؤں میں نہائی ہوئی اور ہوا شگفتگی اور چمک سے بوجھل جیسے دہلی کی ہوائیں اور فضائیں بھی اپنی مخصوص زبان سے ٓانے والے مہمانوں کی پذیرائی اور مداح سرائی کا تہیہ کرچکی ہوں ۔

پاکستان ہاؤس کے بڑے داخلی گیٹ کے اندر لان میں خوبصورت شوخ رنگوں سے مزین (Welcome) ہر مہمان کی توجہ کا مرکز تھا ، سماں بہت روح افزا تھا ۔ کھانے کا انتظام عقبی لان میں کیا گیا تھا ۔ جو وسیع وعریض سر سبز و شاداب موسمی پھولوں سے لدا ہوا تھا ۔ یہاں کا منفرد انداز مگر دل کو لبھانے والا تھا ۔ لان کے اطراف موتیے کی باڑ جو گرمیوں میں سفید کلیوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آراستہ ہوتی تھی۔ موسم سرما کی راتوں کی دھند اور کہر کے باوجود تر و تازہ اور شگفتہ نظر آرہی تھی ۔ وسیع برآمدے میں طویل میز پر کھانا چن دیا گیا تھا۔ہندوستانی اور پاکستانی کھانے کی ورائٹی میز پر موجود تھی۔

تمازت میں کھانے کے مزے کو دوبالا کرنے کا مکمل بندوبست کیا گیا تھا جو قابل ستائش تھا ۔ ایمبسی کے عملے نے ربط و ضبط ور مہمان نوازی کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے تمام مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا جن میں ہندوستانی اداکار ، آرٹسٹ اور تمام ایمسبڈر بھی شامل تھا ۔ پاکستانی مہمانوں کے چہروں پر اپنے ملک کی نمائندگی کا فخر اور بھرپور اطمینان و مسرت ہویدا تھی۔ تمام مہمان آچکے تھے مگر مجھے جس کا بے چینی سے انتظار تھا وہ ابھی تک نظروں سے اوجھل تھی۔

پروین شاکر کی آمد کی خبر تو دہلی میں پل بھر میں آگ کی مانند پھیل چکی تھی ، نجانے وہ ابھی تک کیوں نہیں پہنچی؟ کئی سوالات ذہن میں ابھر رہے تھے ۔ انتظار میں ا پنی پسندیدہ شاعرہ سے ملنے کا تجسس بڑھتا جارہا تھا جب کہ شاعری کے ذریعے تو آئے دن اس سے گھنٹوں ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔ پسندیدگی کے لحاظ سے اسی پر اکتفا کرجانا ممکن تھا کیوں کہ شوق ملاقات ہوش و حواس پر غالب آچکا تھا جیسے دیدار کی تشنگی نظم و غزل پڑھنے کے بعد بڑھ جایا کرتی تھی ، آج ایسا ہی حال تھا۔

جب کوئی پسندیدہ ہستی ذہن و قلب پر بری طرح چھا جائے تو پھر اس کی زندگی کے ہر لمحے پر قابض ہوجانے کو دل چاہتا ہے ۔ اس کی اپنی زندگی پرائی لگنے لگتی ہے ۔ اس سے ملاقات کرنے ، بات کرنے اور اس کی شخصیت کی ہر خوبی اور خامی کی کھوج لگانے کی تمنا بھی تو ایک قدرتی امر ہے ۔ وہاں موجود ہر مہمان ایک دوسرے سے پروین کی غیرموجودگی کی وجہ دریافت کررہا تھا لیکن خاطر خواہ جواب کسی طرف سے سننے میں نہ آیا تھا۔تمام مہمان اپنی اپنی نشستوں کی طرف جا چکے تھے ، میں نے بھی طوعاً و کرہاً اپنے لیے پلیٹ میں کھانا نکالا اور اپنی مخصوص نشست کی جانب چلی گئی ۔ میری کرسی کے بائیں جانب شبنم شکیل صاحبہ اور دائیں جانب کی کرسی خالی تھی جوپروین کے لیے تھی۔

آخر انتظار کی کوفت اور بیزاری سے نکلنے کی غرض سے میں نے شبنم شکیل صاحبہ سے پروین کی غیر حاضری کے بارے میں پوچھ ہی لیا تو انہوں نے پہلے تو ایک بہت خوبصورت شعر سنایا جس کی آمد میرانام سنتے ہی ہوئی تھی مجھے وہ شعر یاد نہیں لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ اس شعر میں تین بار میرا نام آیا اورمیں ان کی اس سرعت اور ذہانت سے بہت متاثر ہوئی تھی ، وہ میٹھا دھیما مسکرا رہی تھیں۔

شبنم آپا نے مجھے پروین کی دو پریشانیوں سے آگاہ کیا تھا۔

پہلا مسئلہ یہ ہے کہ پروین کے ہمراہ اس کا بیٹا اور آیا بھی ہے ، وہ بیٹے کو ہوٹل کے کمرے میں اکیلا چھوڑنا نہیں چاہتی ، اسی سوچ بچار میں ہے کہ کیا کیا جائے۔

دوسرا اس نے علی گڑھ یونیورسٹی کی طرف سے منعقد ہونے والے مشاعرے کی دعوت بھی قبول کرلی ہے ۔ اب سخت پریشان ہے کیونکہ مسئلہ ویزے کا ہے ۔

پروین کے دونوںمسائل ایسے گمبھیر تو تھے نہیں کہ حل نہ ہوپاتے، میں نے کھانے کے دوران سنجیدگی سے حل سوچا اور مطمئن ہوگئی۔

سب کھانا کھا چکے تھے، جب سویٹ ڈش کی باری آئی تو میں نے دور سے پروین کو آتے ہوئے دیکھا۔ چہرے پر فکر مندی کا تاثر نمایاں تھا اور وہ چال سے کچھ بوکھلائی بوکھلائی سی لگ رہی تھی۔ اتنے سال پہلے جس پروین کو میں نے دیکھا تھا۔ آج ظاہراً کچھ بدلی بدلی سی لگی تھی۔ نہ چہرے پر وہ شگفتگی تھی نہ ہی آنکھوں میں تابناکی تھی ۔ بال بھی گردن تک تھے اور پہنا وا بھی توجہ اور دلچسپی سے محروم لگا تھا ۔ میں کچھ ایسی ہی سوچوں کے ہمراہ اس کی طرف چل دی۔ جاوید مجھے دیکھ کر ساتھ ہی چل پڑے ۔ میں نے پروین کے مسائل اور ان کا حل جاوید کے گوش گزارکیا اور ان کی طرف سے حمایت کے انتظار میں خاموش ہوگئی کیونکہ فیصلے پرمیرا اختیار تو نہیں تھا ۔ اتنی دیر میں پروین ہمارے سامنے پہنچ چکی تھی ، رسمی علیک سلیک کے بعد جاوید نے اس سے مسئلہ پوچھا اس نے تھوڑا سا جھجک کر میری طرف دیکھا تو میں مسکرا کر اپنائیت سے بولی ’’ پروین ! جاوید کو اپنا مسئلہ بتائیے ، ہوسکتا ہے ہم آپ کی مدد کرسکیں ۔‘’ میرے منہ سے یہ بات سن کر اس کے چہرے پر سکون کی ایک لہر دوڑ گئی۔

ہوٹل کا قیام خاصا اذیت دہ تھا ، وہ قطعا خوش نہیں تھی۔میں نے اسے تسلی دی اورکھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم پروین کو لے کر ہوٹل گئے جہاں گیتو اپنی آیا بی بی کے ساتھ کمرے میں قید تھا۔ اس نے بیڈ کی ہر شئے کو فرش پر پھینک رکھا تھا ۔ وہ چھلانگوں ، مکوں اور گھونسوں سے اپنا دل بہلانے کی کوشش کررہا تھا ۔ بی بی خاموشی سے ایک کونے میں تماشائی بنی بیٹھی ہوئی تھی ۔ جاوید نے میرے مشورے کو سراہا اور میری شاعرہ ، گیتو اور بی بی کے ہمراہ ہمارے غریب خانے پر چند دن قیام کرنے پر بآسانی رضا مند ہوگئی ۔ میری پسندیدہ شاعرہ کے ساتھ گزرے ہوئے چند شب و روز ہمارے لیے ناقابل فراموش ہوگئے ۔

مراد ( گیتو) کو میرے گھر میں ایڈجسٹ ہونے میں ایک لمحے کے لیے بھی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑا کیونکہ میں بھی تو تین عدد ذہین شیطانوں کی ماں تھی ۔ چوتھے شیطان کی موجودگی انہیں خاصی بھلی لگی تھی ۔ عمر گیتو سے دو سال بڑا تھا تو حمزہ گیتو سے دو سال چھوٹا اور سفیان گیتو سے پانچ سال چھوٹا تھا ۔گیتو، سفیان کے بال اٹھانے اور باقی احکام بجا لانے میں خود کو بہت بڑا اور معتبر سمجھتا رہا اور یوں چاروں کی دوستی چند دنوں میں اتنی گہری ہوگئی کہ کبھی ان میں جھگڑا نہ ہوا۔ ہماری غیر موجودگی میں انہوں نے وہ شرارتیں کیں جنکا ہم نے تصور بھی نہ کیا تھا ۔ ازل سے ہی اولاد اپنے والدین کو ایسے ہی چکمے دیتی آئی ہے ، یہ نیا انکشاف نہ تھا ، اس لیے مجھے حیرت بھی نہ ہوئی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ان شرارتوں کے باوجود چاروں کی جان سلامت رہی اور گھر کی ہر شئے بھی توڑ پھوڑ سے بچی رہی ۔ واپسی پر گھر کو دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے اس گھر میں کسی کا گزر ہی نہ ہوا ہو، بڑا ہونے کے ناتے عمر ایسی پردہ داری میں خوب مہارت رکھتا تھا ۔
٭٭٭