کٹر ایماندار پارٹی کے وزراءبد عنوانی کے الزام میں گرفتار!
محمد ہاشم القاسمی
دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو سی بی آئی نے 26 فروری کو دہلی حکومت کی شراب پالیسی میں مبینہ گھوٹالے کے الزام میں گرفتار کر لیا ۔ سی بی آئی نے انہیں پیر کو راو¿ز ایونیو کورٹ میں پیش کیا، جہاں سے انہیں 5 دن کی سی بی آئی حراست میں بھیج دیا گیا۔
راو¿س ایونیو کورٹ نے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کے ریمانڈ پر بھیجتے ہوئے ہدایت دی کہ ریمانڈ کی مدت کے دوران عام آدمی پارٹی (عآپ) کے رہنما سے پوچھ گچھ کسی ایسی جگہ پر کی جائے جہاں سی سی ٹی وی کوریج ہو اور سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق ہو۔ فوٹیج سی بی آئی محفوظ رکھے گی۔ “ منیش سسودیا پر، رشوت لینے اور ثبوت مٹانے کا الزام عائد کیا گیا ہے، عدالت نے کہا کہ یہ درست ہے کہ ان سے خود ساختہ بیانات دینے کی توقع نہیں کی جا سکتی، لیکن انصاف اور منصفانہ تفتیش کے مفادات کا تقاضا ہے کہ وہ ان سوالات کے جائز اور تسلی بخش جوابات دیں جو تفتیشی افسر ‘ ان سے پوچھ رہے ہیں۔” عدالت نے مزید کہا کہ” ان کے ماتحتوں میں سے بعض نے کچھ ایسے حقائق کا انکشاف کیا ہے جو ان کے خلاف قابل جرم قرار دیے جا سکتے ہیں، اور ان کے خلاف کچھ دستاویزی ثبوت بھی سامنے آ چکے ہیں، اور ایک مناسب و منصفانہ تحقیقات کا تقاضا ہے، کہ ان کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات کے حقیقی اور جائز جوابات دیں اور اس لیے عدالت کا خیال ہے کہ یہ صرف ملزم سے حراست میں پوچھ گچھ کے دوران ہی کیا جا سکتا ہے۔”دلائل پیش کر نے کے دوران سی بی آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ” اس معاملے کی موثر تحقیقات کے لیے دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ کی حراست میں پوچھ گچھ ضروری ہے۔“
واضح رہے کہ مئی 2020ء میں، دہلی حکومت نے اسمبلی میں ایک نئی شراب پالیسی پیش کی تھی، جسے نومبر 2021ء سے نافذ کیا گیا تھا۔ جو بعد میں واپس لے لیا گیا تھا، حکومت نے نئی شراب پالیسی کو لاگو کرنے کے پیچھے 4 اہم دلائل دیے تھے۔ (1)دہلی میں شراب مافیا اور بلیک مارکیٹنگ کا خاتمہ۔(2)دہلی حکومت کی آمدنی میں اضافہ کرنا۔(3)شراب خریدنے والے لوگوں کی شکایات کا ازالہ (4)ہر وارڈ میں شراب کی دکانوں کی مساوی تقسیم ہوگی۔
جولائی 2022ء میں، ایل جی نے شراب پالیسی کیس میں گھوٹالے کا معاملہ اٹھایا تھا۔ 22جولائی 2022ءکو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے نئی شراب پالیسی کے حوالے سے منیش سسودیا کے خلاف سی بی آئی انکوائری کا مطالبہ کیا تھا، گورنر سکسینہ نے کجریوال حکومت کے وزیر سسودیا پر قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے بدعنوانی کا الزام لگایا تھا، دوسری طرف بی جے پی نے الزام لگایا تھا کہ نئے ٹینڈر کے بعد شراب کے ٹھیکیداروں کے 144کروڑ روپے غلط طریقے سے معاف کر دیے گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ نئی شراب پالیسی کیا تھی جس کی وجہ سے یہ ہنگامہ شروع ہوا؟ شراب گھوٹالہ کیسے ہوا؟ بی جے پی کے کیا الزامات ہیں؟ سی بی آئی کی چارج شیٹ میں کیا ہے؟ الزامات پر عآپ کی حکومت کا کیا ردعمل ہے؟
تو پہلے جانیے کہ دہلی کی نئی شراب پالیسی کیا تھی؟
17 نومبر 2021 کو دہلی حکومت نے ریاست میں شراب کی نئی پالیسی نافذ کی۔ اس کے تحت دارالحکومت میں 32 زون بنائے گئے تھے اور ہر زون میں زیادہ سے زیادہ 27 دکانیں کھولی جانی تھیں۔ اس طرح کل 849 دکانیں کھولی جانی تھیں۔ نئی شراب پالیسی میں دہلی کی تمام شراب کی دکانوں کو پرائیویٹ کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے دہلی میں شراب کی 60 فیصد دکانیں سرکاری اور 40 فیصد نجی تھیں۔ نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد یہ سو فیصد پرائیویٹ ہو گئیں۔ حکومت نے دلیل دی تھی کہ اس سے 3500 کروڑ روپے کا فائدہ ہوگا۔
حکومت نے شراب لائسنس فیس میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا۔ L-1 لائسنس جس کے لیے پہلے ٹھیکیداروں کو 25 لاکھ روپے ادا کرنے تھے، نئی شراب پالیسی کے نفاذ کے بعد ٹھیکیداروں کو 5 کروڑ روپے ادا کرنے تھے۔ اسی طرح دیگر کیٹیگریز میں بھی لائسنس فیس میں نمایاں اضافہ ہوا۔
اس پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا الزام ہے کہ نئی شراب پالیسی سے عوام اور حکومت دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ساتھ ہی شراب کے بڑے کاروباریوں کو فائدہ پہنچانے کی بات کہی جا رہی ہے۔ اس میں گھوٹالے کا معاملہ تین طرح سے سامنے آرہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے آئیے کچھ اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ (1)لائسنس فیس میں بے تحاشہ اضافہ کرکے بڑے تاجروں کو فائدہ پہنچانے کا الزام (2) ٹھیکیداروں کو شراب کی فروخت کے لیے لائسنس لینا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت نے لائسنس کی فیس مقرر کر دی ہے۔ (3)حکومت نے کئی زمرے بنائے ہیں۔ اس کے تحت شراب، بیئر، غیر ملکی شراب وغیرہ فروخت کرنے کا لائسنس دیا جاتا ہے۔ یہ بھی الزام ہے کہ دہلی حکومت نے شراب کے بڑے تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر لائسنس فیس میں اضافہ کیا ہے۔ جس کی وجہ سے چھوٹے ٹھیکیداروں کی دکانیں بند ہوگئیں اور بازار میں صرف بڑے شراب مافیا کو لائسنس ملے۔ اپوزیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ اس کے عوض شراب مافیا نے عام آدمی پارٹی کے لیڈروں اور افسروں کو بھاری رقم رشوت دی۔“
دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کی گرفتاری کے بعد عام آدمی پارٹی نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ” یہ جمہوریت کے لیے سیاہ دن ہے۔ بی جے پی کی سی بی آئی نے دنیا کے بہترین وزیرتعلیم منیش سسودیا کو جھوٹے معاملے میں گرفتار کرلیا ہے، جو کہ لاکھوں بچوں کا مستقبل سنوار رہے ہیں۔ بی جے پی نے انہیں سیاسی مخالفت کی بنیاد پر گرفتار کیا ہے۔“ واضح رہے کہ سی بی آئی دفتر میں سسودیا سے شراب گھوٹالہ معاملے 9گھنٹے تفتیش کی گئی اور اس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے اس دن گھر سے نکلنے سے پہلے اپنی ماں سے ملاقات کی اور ان کا آشیرواد لیا۔ اس کے بعد وہ روڈ شو کرتے ہوئے سی بی آئی کے دفتر پہنچے۔ سسودیا کے ساتھ ان کے ہزاروں حامی بھی تھے۔ سبھی حامی سی بی آئی ہیڈ کوارٹرز کے قریب دھرنے پر بیٹھ گئے اور مرکزی حکومت کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ بڑھتے ہوئے احتجاج کو دیکھتے ہوئے دہلی پولیس نے دفعہ 144نافذ کردی، دہلی حکومت کے وزیر گوپال رائے اور عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجے سنگھ سمیت کئی حامیوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں اس لیے حراست میں لیا گیا ہے تاکہ امن و امان خراب نہ ہو۔ سی بی آئی کے دفتر جانے سے پہلے سسودیا نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا کہ وہ 7-8 ماہ کے لیے جارہے ہیں۔ خود کو بھگت سنگھ کا پیروکار بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”وہ تو ملک کے لیے شہید ہوگئے، جھوٹے الزامات میں جیل جانا ہمارے لیے چھوٹی بات ہے۔“ سسودیا کو صبح 11بجے دہلی کے لودھی روڈ پر واقع سی بی آئی ہیڈ کوارٹر پہنچنا تھا، لیکن وہ تقریباً 15منٹ تاخیر سے پہنچے۔ نائب وزیراعلیٰ نے کہا ”بچوں کو محنت سے پڑھنا چاہیے۔“
سی بی آئی کے دفتر پہنچنے سے پہلے انہوں نے لوگوں کے نام ایک پیغام میں کہا، جب میں ٹی وی چینل میں تھا۔اچھی تنخواہ تھی، اینکر تھا۔ زندگی اچھی گزر رہی تھی۔ سب کچھ چھوڑ کر کجریوال جی کے ساتھ آیا۔ کچی آبادیوں میں کام کرنے لگا۔ آج جب وہ مجھے جیل بھیج رہے ہیں تو میری بیوی گھر میں اکیلی ہوگی۔ وہ بہت بیمار ہے۔ بیٹا یونیورسٹی میں پڑھتا ہے۔ آپ کو دھیان رکھنا ہوگا۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے اسکولوں میں پڑھنے والے بچے بہت پسند ہیں۔ یہ مت سمجھو کہ منیش چاچا جیل گئے تو چھٹی ہوگئی۔ چھٹی نہیں ہو گی۔اتنی محنت کرنا جتنی مجھے توقع ہے۔ من لگا کر پڑھنا۔ اچھے سے پاس ہونا۔ اگر معلوم ہوا کہ ہمارے بچوں نے لاپروائی کی تو مجھے برا لگے گا اور میں کھانا چھوڑ دوں گا۔“
تفتیش کے لیے روانہ ہونے سے پہلے سسودیا نے کہا ”میں آج پھر سی بی آئی کے دفتر جا رہا ہوں،تفتیش میں پورا تعاون کروں گا۔ لاکھوں بچوں کی محبت اور کروڑوں ہم وطنوں کا آشیرواد ساتھ ہے۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ مجھے چند ماہ جیل میں رہنا پڑے۔بھگت سنگھ کاپیروکار ہوں، بھگت سنگھ تو ملک کے لیے پھانسی چڑھ گئے تھے۔ ایسے جھوٹے الزامات کی وجہ سے جیل جانا چھوٹی سی بات ہے۔“ منیش سسودیا نے ضمانت کے لیے 28 فروری کو سپریم کورٹ کا رخ کیا تھا، لیکن چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے اس معاملے کو سننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انھیں ہائی کورٹ جانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے منیش سسودیا کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ”آپ براہ راست سپریم کورٹ سے ضمانت اور دیگر راحت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ نے ارنب گوسوامی اور ونود دُوا کیس کا حوالہ دیا ہے، لیکن وہ اس سے بالکل مختلف معاملے تھے۔ آپ کو ذیلی عدالت سے ضمانت لینی چاہیے، ایف آئی آر رد کروانے کے لیے ہائی کورٹ جانا چاہیے۔” سسودیا کی طرف سے پیش وکیل ایڈوکیٹ اے ایم سنگھوی نے اپنی بات بنچ کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ” مجھے صرف تین منٹ بولنے دیجیے۔” پھر انھوں نے کہا کہ” مجھے (سسودیا کو) صرف دو بار پوچھ تاچھ کے لیے بلایا گیا۔ گرفتاری سے پہلے ارنیش کمار معاملے میں آئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہوا۔ نہ مجھ پر ثبوت سے چھیڑ چھاڑ کا الزام ہے، نہ میرے بھاگنے کا اندیشہ تھا۔” ان باتوں کو سننے کے بعد چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ” یہ باتیں درست ہو سکتی ہیں، لیکن سیدھے سپریم کورٹ اسے نہیں سن سکتا۔” جسٹس پی ایس نرسمہا نے عرضی دہندہ کے وکیل سے کہا کہ” یہ معاملہ دہلی کا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سیدھے سپریم کورٹ آ جائیں۔” سنگھوی نے اس پر کہا کہ سپریم کورٹ بنیادی حقوق کا محافظ ہے۔ اس پر سی جے آئی نے پوچھا کہ کیس کس دفعہ سے جڑا ہوا ہے۔ جواب میں سنگھوی نے بتایا کہ انسداد بدعنوانی ایکٹ کی دفعہ 7 سے جڑا ہے۔ پھر سی جے آئی نے کہا کہ ”آپ جو بھی کہہ رہے ہیں، وہ ہائی کورٹ کو کہیے۔ ہم نہیں سنیں گے۔“ جب سنگھوی نے بنچ کو یہ خبر دی کہ روسٹر کے حساب سے ہائی کورٹ میں جس جج کے پاس معاملہ جانا ہے، وہ ایک ٹریبونل کا بھی کام دیکھ رہے ہیں اور مصروف ہیں، تو بنچ نے واضح لفظوں میں کہا کہ اس کی فکر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کریں گے، انھیں اپنی پریشانی بتائیے۔ سپریم کورٹ سے راحت نہ ملنے پر منیش سسودیا نے دہلی کے نائب وزیراعلیٰ اور وزیر تعلیم کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ وہیں منی لانڈرنگ کیس میں تہاڑ جیل میں 9 ماہ سے بند کجریوال حکومت میں وزیر صحت کی ذمہ داری سنبھالنے والے ستیندر جین نے بھی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا محکمہ تعلیم سمیت 18 محکموں کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔ وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے اپنے دونوں کابینی رفقاء کا استعفیٰ منظور کرلیا ہے۔ اب منیش سسودیا کا عہدہ کیلاش گہلوت کو جب کہ ستیندر جین کی جگہ راج کمار کو اضافی قلمدان سونپ دیا گیا ہے۔
کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کا دعویٰ کرنے والے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجریوال دہلی کے علاوہ پنجاب میں بھی حکومت سازی میں کامیاب تو ہوگئے لیکن اپنے دعوے میں کہاں تک کھرے اتر پائے ہیں، اب یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔