پربھات پٹنائیک
امریکہ کے سلیکون ویلی بینک اور سگنیچر بینک کی ناکامی کی وجوہات کے معاملے میں راز جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس میں بھی راز جیسی کوئی بات نہیں کہ سرمایہ دارانہ دنیا کے پورے بینکاری نظام پر ہی آج خدشات کے بادل منڈلارہے ہیں۔ ایک بار جب کسی نظام کا ایک حصہ خراب ہو جاتا ہے، تو یہ باقی حصوں پر ”زہریلے“ اثاثوں کا بوجھ بن جاتا ہے۔ یہ بوجھ اس نظام میں بیٹھ گئے حصے کی واجبات کا ہی ہوتا ہے۔ اس طرح پورا نظام ”ڈومینو ایفیکٹ“ یعنی تو چل میں بھی آیا سلسلے کی گرفت میں آجاتا ہے۔
تاہم، اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکی سرمایہ دارانہ نظام آخر ایسے حالات میں کیسے پہنچ گیا کہ اس کا بینکنگ نظام اس قدر شدید دباو¿ میں آ گیا ہے؟ چونکہ ان بینکوں کی ناکامی اور خاص طور پر سلیکن ویلی بینک (SVB) کی ناکامی صرف امریکہ کا اندرونی واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک نظامی تضاد کی عکاسی کرتا ہے، یہ تضاد کیا ہے؟
سود کی شرحیں اور بینکوں کا ناکام ہونا:
ان بینکوں کی ناکامی کی خود واضح وجہ شرح سود میں اضافہ ہے۔ تاہم، ہم یہاں خود کو SVB بینک کے معاملے تک محدود رکھیں گے کیونکہ اس کا سیاق و سباق نظامی تضاد کو زیادہ واضح طور پر سامنے لاتا ہے۔ اس کے برعکس، سگنیچر بینک کا معاملہ غیر معمولی ہے کیونکہ یہ کرپٹو کرنسیوں میں کام کر رہا تھا، جو اپنے اتار چڑھاو¿ کے لیے بدنام ہیں۔
شرح سود میں کوئی بھی اضافہ خود بخود بانڈ کی قدر کو کم کر دیتا ہے۔ کسی بھی بانڈ کی قیمت اس کی پوری مدت کے دوران ملنے والی آمدنی کی قیمت کے برابر ہوتی ہے ، کرنٹ سود کی شرحوں کو اس میں سے گھٹانے کے بعد۔ لہٰذا، اگر موجودہ شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے، تو متعلقہ کرنسی میں آمدنی کے اسی سلسلے کے ساتھ بانڈ کی قدر کم ہو جاتی ہے، ۔ اب تمام بینکوں کے پاس مختلف قسم کے اثاثے ہیں، جن میں بانڈز بہت اہم ہیں۔ اس لیے، جیسے جیسے سود کی شرح بڑھتی ہے، جیسے جیسے بانڈ کی قیمتیں گرتی ہیں، بینک کے اثاثے اس کی واجبات کی نسبت قدر میں گر جاتے ہیں، جس سے بینک دباو¿ میں آتا ہے۔
اب اگر بینک اس دباو¿ پر قابو پانے کے لیے کوئی کوشش کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے پوری دنیا کے سامنے دباو¿ میں رہنے کی سچائی کو تسلیم کرنا پڑے گا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو عوام کے لیے اس بینک سے ہی چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ایک اشارہ بن جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بینک کے شیئر کیپیٹل کی قدر گرنے لگتی ہے اور اس سے بینک کے عام ڈپازٹرز میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے اور وہ متعلقہ بینک سے اپنی جمع رقم نکالنے لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بینک سے رقم نکالنے میں بھگدڑ مچ جاتی ہے اور بینک بیٹھ جاتا ہے۔
یہاں ریکارڈ کرنے والی بات یہ ہے کہ جب کوئی بینک اس طرح کے دباو¿ میں آجاتا ہے، اس کے بعد چاہے وہ کچھ بھی کرے، اس کے سامنے مستقبل تاریک ہی رہتا ہے۔ اگر متعلقہ بینک اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتا ہے، تو عملی طور پر وہ دیوالیہ ہونے کا انتخاب کرے گا۔ لیکن، اگر وہ اپنی حالت میں بہتری کے کوئی قدم اٹھاتا بھی ہے تب بھی اس کے آخر کار بیٹھ ہی جانے کے کافی امکانات رہتے ہیں۔ ایسے حالات میں بینک کے ڈوبنے کے لیے صرف بینک کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ بینک کے ڈوبنے کو ایسے میکرو اکنامک عوامل سے سمجھنا ہوگا، جو کہ متعلقہ بینک کے کنٹرول سے باہر ہیں۔
امریکی شرح سود میں تیزی سے اضافہ کیوں؟
اس دلیل سے کسی کو یہ لگ سکتا ہے کہ سود کی شرحوں میں کوئی بھی اضافہ بینک کے ڈوبنے کی نوبت لادے گا۔ لیکن، ظاہر ہے یہ سچ نہیں ہے۔ تاہم، مرکزی بینک کے احکامات کے ذریعے شرح سود میں جو تبدیلیاں کی جاتی ہیں، وہ عام طور پر چھوٹے اضافے اور کمی کی صورت میں آتی ہیں۔ اور اگر شرح سود میں تھوڑا سا اضافہ بھی ہوتا ہے تو اس سے آنے والا دباو¿ بینکوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بینک ”مارکیٹ“ میں کوئی خاص گھبراہٹ پیدا کیے بغیر اتنے زیادہ دباو¿ کو ہینڈل کرتے ہیں۔ لیکن، جب مرکزی بینک کی طرف سے طے شدہ شرح سود میں اچانک ایک بڑی رقم کا اضافہ کر دیا جاتا ہے، تو بینکوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ کہ اپنے یہاں پیدا ہوئے کسی اثاثہ جات۔واجبات عدم توازن کو بغیر زیاد ہ شور کیے اور منظم طریقے سے سنبھال لیں۔
اور پچھلے کچھ سالوں میں امریکہ میں شرح سود میں بہت اضافہ کیا گیا ہے۔ فیڈرل فنڈز کی شرح سود، جو فروری 2022 میں 0.25 فیصد تھی، فروری 2023 تک بڑھ کر 4.25 فیصد ہوگئی۔ اتنے کم وقت میں شرح سود میں اتنے بڑے اضافے سے بینکوں کے لیے اپنے لین دین کا توازن آرام سے برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ تو، اصل سوال یہ ہے کہ یو ایس فیڈرل ریزرو بورڈ جو کہ امریکہ کا مرکزی بینک کے برابر ہے، شرح سود میں اس طرح اضافہ کیوں کرتا ہے؟
اس سوال کا بنیادی جواب یہ ہے کہ نیو لبرل ازم کے تحت معیشت میں مداخلت کے لیے ریاست کے ہاتھ میں صرف ایک ہی ہتھیار رہ جاتا ہے یعنی مانیٹری پالیسی کا ہتھیار۔ بلاشبہ، دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور میں، مالیاتی پالیسی ایک طویل عرصے تک معیشت میں ریاستی مداخلت کا اہم ذریعہ رہی، لیکن نیو لبرل ازم کے تحت اسے پس منظر میں لے جایا گیا۔ تمام حکومتیں اب مالیاتی سرمایہ کی عالمی نقل و حرکت کے باعث مجبور ہو گئی ہیں کہ وہ اپنے مالیاتی خسارے کی جی ڈی پی کے تناسب کے طور پر حد مقرر کریں۔ اور اسی وجہ سے، یعنی دنیا میں گھومتا پھرتا مالی سرمایہ کے ناراض ہونے کے خوف سے ، سرمایہ داروں پر اور عام طور پر امیروں پر کوئی بھی اضافی ٹیکس لگانا، نیو لبرل ازم نظام میں گناہ ہی سمجھا جاتا ہے ، معیشت میں اور جان ڈالنے کی حکومت کی کوئی بھی کوشش، سود کی شرحوں کو گھٹانے کا واحد راستہ ہی لے سکتی ہے۔
امریکہ کی کیا مجبوری ہے؟
بے شک امریکہ میں اس طرح کا کوئی ”شاہی خزانہ کی ذمہ داری“ یا ”مالیاتی ذمہ داری“ قانون لاگو نہیں ہے۔ اس طرح اس کے لیے کوئی قانونی مجبوری نہیں کہ وہ اپنے مالیاتی خسارے کو قابو میں رکھے اور نہ ہی ایسی کوئی عملی مجبوری ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو مالیاشتی سرمایہ اپنی جگہ سے اڑ جائے۔ امریکہ کو سرمایہ کے ذریعہ جس طرح اپنا انتہائی محفوظ ٹھکانہ مانا جاتا ہے وہاں سے مالی سرمایہ کی اس طرح کی ہجرت شاید ہی کبھی ہوتی ہوگی۔ پھر بھی امریکہ کے لیے معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے اپنے مالیاتی خسارہ کو بڑھانے کا مطلب اپنا بیرونی قرض بڑھانے کی قیمت پر پردیس میں روزگار پیدا کرنا ہوتا ہے کیو ںکہ امریکہ میں گھریلو خرچ کا ایک اچھا خاصا حصہ پردیس سے آنے والے مال اور خدمات کی مانگ کے طور پر کھسک کر اس کی حدود سے باہر ہی نکل جاتا ہے۔ بے شک کورونا وباءکے دوران امریکہ کے مالیاتی خسارے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا اور کچھ لوگ اسے امریکہ میں موجودہ بلند افراط زر کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ پھر بھی افراط زر میں وہ اضافہ تو وباءکے سایہ کے رہتے ہوئے ہی کی گئی تھی۔ اس سے پہلے، ہاو¿سنگ کے بلبلے کے بیٹھنے کے بعد کے دور میں ایک طویل عرصے تک، امریکہ میں معیشت کو متحرک کرنے کے لیے استعمال ہونے والا اہم ٹول سود کی شرح کو نیچے لے جانا تھا، اور درحقیقت انہیں صفر کے قریب پہنچادینے کا ہی استعمال کیا جارہا تھا۔ہاو¿سنگ بلبلہ 2008 میں بیٹھا تھا۔ اور 2009 کے اواخر سے 2022 تک، امریکہ میں شرح سود کم و بیش 0.25 فیصد کے نشان پر اٹکی ہوئی تھی۔ یقیناً 2016 اور 2020 کے درمیان ایک مختصر وقفہ تھا، جب فیڈرل فنڈز کی شرح سود کو مرحلہ وار تقریباً 2 فیصد تک بڑھایا گیا۔ اس طرح، انتہائی سستے مالیات کی دستیابی کے اس غیر معمولی طور پر طویل عرصے نے امریکی اولیگوپالسٹوں کے لیے اپنے منافع اور قیمتیں بڑھانے کا جوکھم گھٹانے کے ذریعہ موجودہ افراط زر میں بے شک تعاون کیا ہے۔ پھر بھی، یہ سب امریکی معیشت کو روزگار کے خاطر خواہ طور پر اعلیٰ سطح کے آس پاس تک بھی نہیں پہنچاسکتا ہے۔
بے شک، امریکہ میں سرکاری طور پر بے روزگاری کی شرح 4 فیصد کی نسبتاً کم سطح پر آ گئی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی لیبر فورس میں حصہ داری کی شرح بھی تو نیچے کھسک گئی ہے۔ لیبر فورس میں حصہ داری کی شرح 2008ءکے وسط کی سطح پر ہی قائم رہی ، اسے تسلیم کرنے پر مبنی اعداد و شمار کے حساب سے بے روزگار ی کی شرح 2008ءکے بعد سے پورے دور میں بلند ہی برقرار رہی تھی۔اور جب مہنگائی کی ضرب پڑی تو شرح سود میں اچانک اضافہ کر دیا گیا۔ اس لیے مہنگائی میں اس بظاہر غیر منطقی اتار چڑھاو¿ ، سود کی شرحوں کے اس طرح یو یو کی طرح اتارچڑھاﺅں کی وجہ، اس حقیقت میں ملے گی کہ عالمی طور پر تیز رفتار مالیاتی سرمایہ کے دور میں اس کے سوا اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ یہ ظاہری غیر معقولیت حکومت کی کسی من مانی سے پیدا نہیں ہو رہی۔ یہ غیر معقولیت عالمی مالیاتی سرمائے کے غلبے کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔
عالمی مالیاتی سرمائے کی مسلط کردہ غیر معقولیت:
اس طرح کے بھاری اتار چڑھاﺅ کو، ایک اور عنصر ہے جو مزید بڑھارہا ہے۔ جب شرح سود میں کمی آتی ہے اور بانڈ کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں تو اس کا معیشت پر محرک اثر ہو سکتا ہے یا نہیں، کم از کم اس سے بینکنگ سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ بینک کے اثاثوں کی قدر میں اضافہ اسے کسی بھی طرح کمزور نہیں بناتا، لیکن، جب سود کی شرح بڑھ جاتی ہے اور بانڈ کی قدریں گرتی ہیں، تو بینک کے اثاثوں کی واجبات کے مقابلے قدر میں کمی آتی ہے۔ یہ ”مارکیٹ“ میں ردعمل کو بھڑکاتا ہے جو متاثرہ بینک کو دیوالیہ ہونے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ بڑھتی ہوئی اور گرتی ہوئی شرح سود کے بینک پر اثرات کا یہ عدم توازن بینکاری نظام کے کمزور ہونے میں مزید معاون ہے۔
یہ صرف امریکہ کے بینکنگ سسٹم کے بارے میں نہیں ہے۔ ہر جگہ افراط زر سے نمٹنے کے لیے ریاستی پالیسی کے جواب کے طور پر سود کی شرح میں تیزی سے اضافہ پوری سرمایہ دارانہ دنیا میں بینکاری نظام کے لیے خطرہ ہے۔ مزید یہ کہ کریڈٹ سوئس جیسے معروف بینکوں کو بھی حال ہی میں اپنے حصص کے سرمائے کی قیمتوں میں زبردست کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسے حریف UBS کے ذریعے حاصل کیا جا رہا ہے۔
مزید یہ کہ سرمایہ دارانہ دنیا کے بینکاری نظام کے لیے خطرہ کسی بھی طرح اپنے عروج پر نہیں پہنچا۔ بحران شروع ہونے سے پہلے، فیڈرل ریزرو بورڈ نے افراط زر سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں مزید اضافہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دو امریکی بنکوں کے بیٹھنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ وہ اس راستے پر ذرا آہستہ آہستہ آگے بڑھے۔ لیکن، چونکہ مہنگائی برقرار ہے، اس کے پاس شرح سود بڑھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مہنگائی سے لڑنے کا واحد راستہ بیروزگاری پیدا کرنا ہے۔ ان دنوں عام طور پر یہ کام سود کی شرحوں کو ڑھانے کے ذریعہ ہی کیا جاتا ہے۔ اب جبکہ سرمایہ دارانہ نظام بحران میں لڑکھڑارہا ہے ، یوروپ بھر میں محنت کش طبقے کے مظاہرے اس حقیقت کو مزید واضح کر رہے ہیں کہ اپنے نیو لبرل ازم مرحلے میں سرمایہ دارانہ نظام، بند گلی میں پہنچ گیا ہے۔٭٭٭