ہسپتال کے بغیر صحت مند گاﺅں کاتصور کیسے کریں؟

نیہا راول۔ اتراکھنڈ
کپکوٹ بلاک کا بگھر گاؤں اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع ہے جو کہ بلاک سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی وادیوں میں آباد ہے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کی آبادی دو سو کے لگ بھگ ہے۔ یہ اس علاقے کا آخری گاؤں ہے۔ اس کے بعد آگے انسانی بستی کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دور دراز ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ حکومت کی نظروں سے بھی اوجھل ہو گیا ہے کیونکہ اس گاؤں میں تقریباً تمام بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے نہ تو سڑک ہے اور نہ ہی ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولت موجود ہے۔ حالت یہ ہے کہ گاؤں میں ہسپتال تک نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے گاؤں کے کئی لوگ مناسب وقت پر علاج نہ ہونے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گاؤں میں کوئی اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو بھراری یا باگیشور کے اسپتال لے جانا پڑتا ہے۔ جو اس گاؤں سے بہت دور ہے۔ دوری اورسڑکوں کی خستہ حالی کے باعث کئی بار مریض راستے میں ہی دم توڑ دیتا ہے۔
اس گاؤں میں اسپتال کا بحران اتنا گہرا ہے کہ گاؤں کے لوگوں کو عام نزلہ، کھانسی یا بخاربھی ہو تو دوا لینے کے لیے بھراری یا باگیشور جانا پڑتا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں بارش بہت ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں۔ بارش کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ کا واقعہ ہوناعام بات ہے۔ جس کی وجہ سے سڑک بھی کئی دنوں تک بند رہتی ہے۔ جبکہ اس گاؤں تک پہنچنے کا واحد راستہ بذریعہ سڑک ہے۔ ایسے میں اس کے بند ہونے کے بعد گاؤں تک پہنچنے کے لیے پہاڑ پر چڑھنا ہی ایک واحد راستہ رہ جاتا ہے۔ ایسے میں مریض کو کیسے لایا جاتا ہوگا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کی لڑکیوں سونیا اور نینا کا کہنا ہے کہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے جب سڑک بند ہو جاتی ہے تو اس وقت کوئی بیمار پڑ جائے تو گاڑیوں تک پہنچنے کے لیے گاؤں سے 25 کلومیٹر دور پیدل چلنا پڑتا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت مشکل وقت ہوتاہے۔
دوسری جانب گاؤں کی خواتین گنگا دیوی اور جانکی کا کہنا ہے کہ ہمارے گاؤں میں ماضی میں کینسر کی وجہ سے خواتین کی موت ہو چکی ہے۔ گاؤں میں اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے وہ وقت پر علاج نہیں کروا پاتی تھی، جب کہ پیسے کی کمی کی وجہ سے وہ شہر کے بڑے اسپتال تک نہیں جا سکتی تھی۔ وقت پر مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔ جس کی وجہ سے ان کے بچوں اور اہل خانہ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ایک حاملہ خاتون ممتا دیوی کا کہنا ہے کہ جب اچانک میرے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو میں جلد علاج کی سہولت حاصل نہیں کر پاتی ہوں کیونکہ یہاں کوئی ہسپتال نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے مجھے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ بروقت چیک اپ اور الٹراساؤنڈ نہ ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے پیدا ہونے والے بچے کی صحت کے حوالے سے بھی خدشات رہتے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں اپنے ہونے والے بچے کی جسمانی ساخت کے بارے میں بھی خدشات لاحق ہوتے ہیں لیکن ڈاکٹر کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ معلوم نہیں ہو پاتاہے۔ چیک اپ نہ ہونے کی وجہ سے مناسب ادویات ملنا بھی مشکل ہوتاہے۔ یہاں کی حاملہ خواتین کو ڈیلیوری کے وقت اور بھی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب رات کے وقت اچانک درد زہ شروع ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں گاؤں میں اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے صبح تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مشکل وقت میں ماں اور بچے دونوں کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔
گاؤں کے بزرگوں کو بھی اسی مسئلے کا سامنا ہے۔ ایک بزرگ کھوگتی دیوی کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گاؤں اور اپنے بچوں کا روشن مستقبل چاہتے ہیں، لیکن گاؤں میں اسپتال نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے بچے بھی کئی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ رات کو کوئی اچانک بیمار ہو جائے تو سڑک اور ہسپتال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی جان بھی چلی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک بزرگ دامودر سنگھ کا کہنا ہے کہ میں نابینا ہوں۔ بڑھاپے کی وجہ سے میں اکثر بیمار رہتا ہوں اور جب بھی بہت بیمار ہوتا ہوں تو مجھے ہسپتال جانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی دوران ایک اور بزرگ نارائن سنگھ کا بھی کہنا ہے کہ بڑھاپے کی وجہ سے ہم گاڑی سے لمبا فاصلہ طے کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ یہ ہمیں اور بھی بیمار کرتا ہے۔ اگر ہمارے گاؤں میں ہسپتال ہوتا تو ہمیں اپنا علاج کروانے میں کوئی دقت پیش نہ آتی جس سے ہماری صحت ٹھیک رہتی۔
اس سلسلے میں گاؤں کے واحد میڈیکل اسٹور کی مالکن منگلا دیوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک چھوٹا میڈیکل اسٹور ہے جس میں زیادہ سہولیات نہیں ہیں۔ یہاں صرف سر درد اور بخار جیسی معمولی ادویات دستیاب ہیں۔ کوئی بڑی بیماری یا حادثہ ہو جائے تو مریض کو ہسپتال لے جانا پڑتا ہے، لیکن وہ اتنی دورہے کہ وہاں تک پہنچنے سے پہلے مریض کا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خدشہ بنا رہتاہے۔ اس حوالے سے گاؤں کی سرپنچ آشا دیوی کا کہنا ہے کہ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے گاؤں کی نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو حیض کے دوران کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں وقت پر نیپکن آسانی سے دستیاب نہیں ہوپاتے ہیں اور وہ گندے کپڑے استعمال کرنے پر مجبورہو جاتی ہیں۔ جو مستقبل میں ان کی صحت کے نقطہ نظر سے کافی نقصان دہ ہے۔
تاہم ریاستی حکومت صحت خدمات کو بہتر بنانے کے لاکھ دعوے کرے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی پہاڑی اضلاع میں صحت کی خدمات مکمل طور پرمیسر نہیں ہے۔ نہ سڑکیں ہیں نہ ہسپتال، ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے ان پہاڑی لوگوں کی زندگی کوخداکے بھروسے چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت گاؤں والوں کے پاس بھی اس سے بہتر کوئی
آپشن نہیں ہے۔ خواتین اور بچوں کو ان سنگین حالات کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن کا دکھ کوئی سننے والا نہیں ہے۔