سیاستمضامین

یتیم خانے سے لے کر آئی ٹی کمپنی تک

محمد مصطفی علی سروری

راج ناکوراکی کی عمر صرف 23 برس ہے اور یہ نوجوان پانچ تا چھ لاکھ ڈالر مالیتی گھر خریدنا چاہتا ہے۔ قارئین کرام عام طور پر اس عمر کے نوجوان ابھی اپنے والدین کے زیر کفالت رہتے ہیں یا پھر اپنی ملازمت کے ابتدائی دور میں ہوتے ہیں۔ لیکن 23 برس کے راج کو گھر خریدنے کے لیے نہ تو خاندانی دولت ملی اور نہ باپ کا ترکہ کہ وہ ان پیسوں سے اپنے لیے گھر خرید سکے۔ قارئین یہ راج ناکورا کون ہے اور اس کے گھر خریدنے یا نہیں خریدنے سے ہمیں کیوں دلچسپی ہونی چاہیے، آیئے تفصیل سے راج ناکورا کی کہانی کے متعلق بات کرتے ہیں۔ کیونکہ اس نوجوان کی زندگی اور جدوجہد سے ہم سب کے لیے بہت کچھ سیکھنے کا سامان ملتا ہے۔
راج ناکورا کا تعلق ہندوستان سے ہے۔ سال 2017ء میں راج نے اسٹوڈنٹ ویزا پر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے نیوزی لینڈ کے شہر Rotorna کا رخ کیا۔ جہاں پر اس نے Hospitality کی تعلیم حاصل کی۔ اسٹوڈنٹ ویزا پر نیوزی لینڈ آنے کے بعد راج نے صرف تعلیم ہی حاصل نہیں کی بلکہ پارٹ ٹائم جاب بھی کرنے لگا۔ ایک مرتبہ راج کو نیوزی لینڈ میں ایک دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ اپنے دوست کے گھر کو دیکھ کر راج کے دل میں بھی خواہش جاگ اٹھی کہ وہ بھی اپنا گھر خریدے لیکن راج کو معلوم تھا کہ وہ اسٹوڈنٹ ویزا پر نیوزی لینڈ میں مقیم ہے اور وہ اسٹوڈنٹ کے طور پر گھر خرید نہیں سکتا ہے۔ تو راج نے ارادہ بنالیا کہ وہ پہلے نیوزی لینڈ میں مکان خریدنے کے لیے درکار قانونی موقف حاصل کرے گا۔ اس دوران کیا راج نے صرف اپنے لیگل موقف کو تبدیل کرنے کی کوشش کی؟ جی نہیں راج نے پارٹ ٹائم کمانا بھی شروع کردیا۔
nzherald.co.nz کی 14؍ ستمبر کی رپورٹ کے مطابق راج نے ہاسپٹالٹی کے شعبہ میں کام کرنا شروع کیا، کیفوں میں کام کیا، ہوٹلوں، ریسٹورنٹس، Takeaway دوکانات غرض ہر جگہ جہاں بھی موقع ملے کام کرنا شروع کیا۔ نہ دن کا خیال رکھا نہ رات کو رکاوٹ سمجھا۔ راتوں میں اوبر کار میں ڈرائیور کے طور پر کام کیا اور اپنے خوابوں کا گھر خریدنے محنت کی۔
راج کے مطابق اس کو تنخواہ کے طور پر جب بھی چیک ملتا تو وہ سب سے پہلے وہ بچت کی رقم نکالتا تھا۔ بعد میں اپنا کرایہ، کھانے اور دیگر اخراجات کی رقم کا حساب کرتا تھا۔ اگر بچت نکالنے کے بعد دیگر اخراجات پورے نہیں ہوتے تو وہ پارٹ ٹائم جاب میں زیادہ وقت لگاتا تھا۔
راج سے جب پوچھا گیا کہ اس کی کامیابی کا راز کیا ہے ؟ قارئین کرام نیوزی لینڈ ہیرلڈ کی رپورٹ کے مطابق راج نے نہ صرف نیوزی لینڈ میں اپنے اسٹوڈنٹ ویزے کو بدلا اور Permanent ریسڈنٹ کا موقف حاصل کیا۔
اس کے مطابق نیوزی لینڈ آنے کے بعد میں نے جو اصول کو اپنایا وہ صرف کام اور کھیل و تفریح سے پرہیز کا تھا۔ کمانے کی دوڑ میں لگنے کے بعد راج نے اپنی جسمانی صحت کے لیے جم جاکر ورزش کرنے کا معمول نہیں چھوڑا۔
راج سے جب دریافت کیا گیا کہ آخر وہ میں اسٹوڈنٹ ویزا پر آکر پہلے تو تعلیم حاصل کی۔ پھر مستقل رہائش اور اب خود کا گھر بھی خرید لیا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا تو راج نے بتلایا کہ میرے لیے کامیابی کا راز میرے اخراجات کے لیے بچت کی منصوبہ بندی ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے ہر کام کے لیے ٹائم ٹیبل بنایا ہے اور خاص کر مالی معاملات میں بجٹ کے بغیر میں کام نہیں کرتا ہوں۔
کیا 2017ء میں اسٹوڈنٹ ویزا پر نیوزی لینڈ آنے والے راج نے سال 2022ء تک چھ لاکھ ڈالر جمع کرلیے تھے تو اس نے سوال کا جواب قارئین یہ ہے کہ جی نہیں لیکن پھر سوال یہ ہے کہ راج نے گھر کیسے خریدا تو اس کا سیدھا جواب ہے راج نے چھ لاکھ ڈالر کا گھر خریدنے کے لیے بینک سے قرض حاصل کیا اور اپنی بچت سے 40 ہزار ڈالر ڈائون پیمنٹ کے طور پر ادا کیا۔
راج نے جو گھر خریدنے کا سودا کیا ہے۔ وہ اس گھر کا قبضہ اکتوبر 2022 میں حاصل کرلے گا۔ اس گھر میں تین بیڈ روم ہیں۔ اس ایک منزلہ گھر میں بہت بڑا علاقہ Backyard کے طور پر شامل ہے۔
23؍ برس کی عمر میں اپنے ذاتی گھر کے خواب کو عملی طورپر پورا کرنے والا یہ نوجوان کہتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز ممکن ہے۔ انسان کو اپنے مقاصد واضح رکھنے چاہئیں۔ اس کے بعد اگر وہ منصوبہ بندی کرتا ہے تو کامیابی سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ (بحوالہ nzherald.co.nz۔ 14؍ ستمبر کی رپورٹ)
کیا راج ناکورا کے گھر خریدنے کی کہانی سے ہمیں صرف یہی سبق ملتا ہے کہ نوجوانوں کو بیرون ملک جاکر رہائش اختیار کرنی چاہیے۔ وہاں پر گھر وغیرہ خریدنا چاہیے۔ اگر کچھ لوگ یہ سیکھ لیتے ہیں تو بھی خراب بات نہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اصل جو چیز راج کی جدوجہد سے سیکھی جاسکتی ہے وہ اس کا عزم اور ارادہ ہے اور اس کی بجٹ بنانے کی عادت ہے۔جو اس کو ایک غیر ملک میں بھی کامیابی دلانے کا سبب بنی۔
جہاں تک عزم کی اور چاہت کی بات ہے تو کشمیر کی نوجوان خاتون سبرینا خالق کی مثال بھی موزوں ہے۔ جہاں مسلمان خواتین شادی کے بعد اپنے لیے ترتی اور تعلیم کے سبھی راستوں کو بند سمجھنے لگتی ہیں ان کے لیے سبرینا کی ذات سے سیکھنے کا موقع ہے۔
اس کشمیری خاتون کی ہزاروں دیگر مسلم خواتین کی طرح کم عمری میں ہی شادی کردی گئی۔ شادی کے بعد سبرینا نے اپنے اسکول کی تعلیم کو ترک کردیا اور شوہر کی ہوکر رہ گئی۔
شادی کے 9 برس بعد جب اس خاتون کے تین بچے ہوگئے اور دو بچے اسکول جانے لگے تب سبرینا نے ارادہ ظاہر کیا کہ مجھے اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کرلینی چاہیے۔ جب خاتون اپنے بچوں کو اسکول جاتا دیکھی اس کی بھی خواہش دوبارہ جاگ اٹھی کہ مجھے بھی کم سے کم دسویں کا امتحان تو پاس کرلینا چاہیے۔ بڑی لڑکی آٹھ برس کی، دوسری چھ برس کی اور تیسری لڑکی تین برس کی ہوگئی تو سبرینا خالق نے بھی طئے کیا کہ وہ دسویں کا امتحان لکھے گی اور اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ جوڑے گی۔
دسویں کا جب کشمیر میں امتحان ہوا تو 25,078 طلبہ نے اس میں شرکت کی۔ جب نتیجہ آیا تو پتہ چلا کہ 8934 طلباء نے اے گریڈ حاصل کیا اور سبرینا خالق نے 500میں سے 467 مارکس حاصل کرتے ہوئے نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے دو طلباء میں اپنا شمار کروایا۔
شادی کے بعد اسکول کی تعلیم کرنے والی یہ خاتون نے کیسے دسویں کے امتحان میں کامیابی حاصل کی؟ اخبار ہندوستان ٹائمز کی 16؍ ستمبر 2022کو شائع ہوئی رپورٹ کے مطابق اپنے بڑے بچوں کو اسکول بھیجنے کے بعد یا رات میں گھر کے کام سے فارغ ہوکر خالق اپنی نندوں سے پڑھائی کرنے میں مدد حاصل کرتی تھی۔ خاتون کے مطابق اسے یقین تھا کہ وہ دسویں کا امتحان کامیاب کرے گی لیکن میں ٹاپ پوزیشن حاصل کروں گی اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔
دسویں کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ کہتی ہیں کہ اب میں گیارہویں کی تعلیم بھی حاصل کروں گی اور آگے بڑھوں گی۔ دسویں کے امتحان میں سبرینا نے شرکت کرنے اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ ثابت کیا کہ اگر عزم محکم ہو تو انسان ہر منزل کو حاصل کرسکتا ہے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ شادی کی وجہ سے جو خواتین اپنی تعلیم کو ترک کیے ہیں اگر وہ پکا ارادہ کرلیں تو اپنے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرسکتی ہیں۔
ردرا ارچنا کا تعلق تھنڈر بالا گائوں، ضلع جگتیال سے ہے۔ بچپن میں جب لڑکی کے والدین کا انتقال ہوگیا تو لڑکی کو گائوں والوں نے ایک سرکاری یتیم خانہ میں داخل کروایا، جہاں پر سبھی یتیم لڑکیوں کی طرح ردرا کو بھی سرکاری اسکول میں داخل کروادیا گیا۔اس طرح یتیم خانے کی لڑکی نے سرکاری اسکول سے دسویں کا امتحان کامیاب کرنے کے بعد پالی ٹیکنیک کے کورس میں داخلہ لے لیا۔
ردرا جانتی تھی کہ ماں باپ کے گذر جانے کے بعد اس کو چاہتے تو سب لوگ تھے مگر ان لوگوں کی چاہت میں کہیں بھی اتنی گنجائش نہیں تھی کہ وہ ردرا کو اپنے ہاں رکھ کر اس کی تعلیم کا انتظام کریں۔ ردرا نے حقیقت کو قبول کیا اور یتیم خانے کے باہر جانے اور ترقی کرنے کے خواب دیکھے اور پڑھائی کرنے میں خوب توجہ دی۔
سال 2019ء میں ردرا نے پالی ٹیکنیک کا امتحان پاس کرلیا اور تین سال کے بی ٹیک کورس کے لیے درخواست داخل کی تو اس لڑکی کو ریاست کے سب سے معروف اور سب سے پہلے خانگی انجینئرنگ کالج CBIT میں داخلہ مل گیا۔
اب اس لڑکی کے لیے فیس کا انتظام کرنا مشکل تھا۔ مشکل کی اس گھڑی میں ریاستی وزیر کے ٹی راما رائو نے اس کی فیس کا انتظام کیا۔ جون 2022ء میں ردرا نے بی ٹیک کمپیوٹر سائنس میں کامیاب کرلیا ۔ کیمپس انٹرویوز میں چار کمپنیوں نے اس لڑکی کو جاب آفر کیا اور ردرا نے ایک کمپنی میں ملازمت جوائن کرلی۔ لیکن جن کے خواب بڑے ہوں جو محنت کرنے سے نہیں شرماتے وہ اپنے لیے نئی منزلیں تلاش کرلیتے ہیں۔ اب آئی ٹی کمپنی کی نوکری ملنے کے بعد ردرا نے ایک نیا منصوبہ بنایا کہ وہ سول سروسس کے لیے تیاری کرے گی۔ بحوالہ اخبار دی ہندو۔ 20؍ ستمبر 2022۔ جن کے حوصلے بلند اور ارادے مضبوط ہوں وہ یتیم خانے میں بیٹھ کر بھی دنیا کے بڑے بڑے منصوبے بناکر کامیابی حاصل کرلیتے ہیں اور جن کو اپنی کوتاہی نظر نہیں آتی اور جو محنت سے کتراتے ہیں وہ لوگ ہر چیز اور ہرمسئلے میں دشمنوں کی سازش کے پہلو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یقینا یتیم کا سفر یتیم خانے سے شروع ہوتا ہے لیکن ختم کہاں ہو وہ یتیم ہی طئے کرتا ہے۔
اور جو نوجوان اپنے باپ دادا کے گھر سے زندگی کا سفر شروع کرتے ہیں یہ انہی کو طئے کرنا ہے کہ ان کی منزل باپ دادا کا گھر ہی ہے یا اس کے آگے کی دنیا وہ خود تعمیر کریں گے۔ اللہ رب العزت ہم سبھوں کو نیک توفیق عطا فرمائے اور ہمارے بچوں کے لیے نفع والے علم کے دروازے کھول دے۔ آمین یارب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com