مذہب

فلسطینی مجاہدین کی قربانیاں بیت المقدس کیلئے

معراج کے موقعہ پر رب العالمین نے محمد عربی خاتم النبین ﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا اس وجہ سے بھی امتِ محمدیہ ؐ کے یہاں بیت المقدس مرکز ِتقدس واحترام ہے۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)

بیت المقدس مسلمانوں کاقبلہ اول اور شعائرِ اسلام ومحترم مقامات میں سے ہے، نبی کریم ﷺ ہجرت کے بعد سولہ (۱۶) یا سترہ (۱۷) مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے، جیسا کہ بخاری شریف میںہے: عن البراء رضي اللہ عنہ قال: کان رسول اللہ ﷺ صلّٰی نحو بیت المقدس ستۃ عشر شھراً أو سبعۃ عشر شھراً (بخاری) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ سولہ (۱۶) یا سترہ (۱۷) ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے تھے۔ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ بیت المقدس اہل اسلام کا قبلہ اول ہے ، ابتداء ہی سے اللہ کے رسول ؐ وصحابہ کرامؓ نے اسکی عظمت وحرمت ملحوظ رکھی اور اس کی طرف چہرہ کرکے نماز ادا کرنا شرائط نماز میں سے تھا، مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کی بہت بڑی فضیلت آئی ہے:

عن انس بن مالک قال: قال رسول اللہ ﷺ: صلاۃ الرجل في بیتہ بصلاۃ، وصلاتہ فی مسجد القبائل بخمس وعشرین صلاۃ ۔۔ الخ (سنن ابن ماجہ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا : مرد مومن کو اپنے گھر میںاکیلے نماز ادا کرنے سے ایک نماز کا ثواب ملتا ہے اور محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنے سے پچیس نمازوں کا ثواب حاصل ہوتا ہے اور جامع مسجد میں نماز ادا کرنے سے پانچ سو نمازوں کا ثواب حاصل ہوتا ہے اور مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے پچاس ہزار نمازوں کے برابر ثواب ملتا ہے اور میری مسجد (مسجد نبویؐ) میں نماز پڑھنے کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ملتا ہے اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنے کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ملتا ہے (سنن ابن ماجہ) اس حدیث شریف سے صاف ظاہر ہے کہ اہل اسلام کے پاس مسجد حرام اور مسجد نبوی ؐ کے بعد مسجد اقصیٰ کا مقام ومرتبہ ہے اور اس میں کوئی شخص نماز پڑھتا ہے تو اسے دیگر عام مساجد کے مقابلے میں پچاس ہزار نمازوں کے برابر نماز اد کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اجر وثواب میں اضافہ کرکے مسلمانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی طرف رغبت دلائی ہے ۔

اسی طرح معراج کے موقعہ پر رب العالمین نے محمد عربی خاتم النبین ﷺ کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گیا اس وجہ سے بھی امتِ محمدیہ ؐ کے یہاں بیت المقدس مرکز ِتقدس واحترام ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : سُبْحَانَ الَّذِیْ أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ(سورہ بنی اسرائیل)’’ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھیںہیں‘‘۔

جب اس کا گرد ونواح بابرکت ہے تو خود مسجد اقصیٰ کتنی با برکت ہوگی، برکت سے مراد یہ ہے کہ ملک شام کثیر انبیاء کرام علیہم السلام کی جائے بعثت وپیدائش رہا ہے اور بعد وفات انکی آرام گاہ بننے کا شرف اس کے حصے میں آیا، بالخصوص شبِ معراج کے موقعہ پر رب تبارک وتعالیٰ نے کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام کو مسجد اقصی میں جمع کیا اور ان کی امامت کا شرف ہمارے نبی علیہ السلام کو نصیب ہوا اور وہاں حضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ لاکھوں فرشتوں کو انبیاء کرام علیھم السلام کے استقبال کیلئے نازل فرمایا۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات ہی میں بیت المقدس کی فتح کے متعلق پیشن گوئی فرمائی تھی ، حضرت عوف بن مالک ؓ نے فرمایا کہ رسول ِ اعظم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت بیت المقدس کی فتح ہے (بخاری) خلیفہ ثانی حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کے دور ِ خلافت میں رسولِ انور ﷺ کی پیشن گوئی پوری ہوئی چنانچہ :

رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ بالا بشارت حضرت عمر ؓ کے عہد خلافت میں اس وقت پوری ہوئی جب کہ آپ ؓ نے ملک ِشام کو فتح کرنے والی فوج کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن جرّاح ؓ کو اپنی فوج سمیت بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ انھوں نے خلیفۃ المسلمین کے حکم پر لبیک کہا اور پانچ ہزار فوجیوں کے ہمراہ بیت المقدس کو روانہ ہو گئے جو اس وقت ایلیا کہلاتا تھا۔ جب آپ ؓ اردن پہنچے تو آپ نے اپنے چند نمائندوں کے ہاتھ اہل ایلیا کے نام ایک خط روانہ کیا جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا : ابو عبیدہ بن جراح ؓ مدینہ کی طرف سے ایلیا کے پادریوں اور رہائشیوں کے نام! سلامتی ہے ہر اس شخص کیلئے جس نے سیدھا راستہ اختیار کیا، اللہ پر ایمان لایا اور رسول (ﷺ) کی رسالت کو تسلیم کیا۔

اما بعد! ہم تمھیں دعوت دیتے ہیں کہ’’لا إلہ إلَّا اللَّہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّہِ‘‘ کی گواہی دو، اور تمھیں خبر دار کرتے ہیں کہ قیامت بلا شک آنے والی ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو قبر سے اٹھانے والا ہے، اگر تم ان باتوں کی گواہی دیتے ہو تو ہم پر تمھارا خون، مال اور تمہاری اولاد حرام ہو جائے گی، اور تم ہمارے دینی بھائی ہو جائیں گے، اور اگر تم نے ان باتوں سے انکار کر دیا تو تمھیں ذلیل ورسوا ہو کر ہم کو جزیہ ادا کرنا ہوگا، اور اگر تم نے اس سے بھی انکار کر دیا تو یاد رکھو! میں تمہارے پاس ایسی فوج لے کر آیا ہوں جس کو موت اتنی ہی محبوب ہے جتنی تمھیں شراب نوشی اور خنزیر کا گوشت محبوب ہے، اور یہ بھی یاد رکھو کہ میں اِن شاء اللہ تعالی اس وقت تک نہیں پلٹوں گا جب تک تمہاری فوج کو قتل نہ کر دوں اور تمہاری اولاد کو قیدی نہ بنالوں۔ (اتحاف اخصا للسیوطی )

اس خط میں مذکورہ پہلی دونوں باتوں سے اہل ایلیا نے انکار کر دیا، جس پر ابو عبیدہ ؓ نے اپنی فوج کو بیت المقدس کا محاصرہ کرنے کا حکم دے دیا۔ تقریباً چالیس دنوں تک محاصرہ جاری رہا، بالآخر اہل ایلیا اس شرط پر صلح کرنے کے لیے تیار ہو گئے کہ مسلمانوں کے خلیفہ خود بیت المقدس آئیں اور صلح نامے پر دستخط کریں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں حضرت عمر ؓ کو ایک خط لکھا۔ حضرت عمر ؓ نے خط پڑھ کر صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور متعدد صحابہ کرام کے ساتھ بیت المقدس روانہ ہو گئے۔ دورِ خلافتِ عمرؓ سے بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں رہا، درمیان میں قریب ایک صدی غیروں کے قبضہ میں رہا۔

یہ بالکل واضح ہے کہ ظالم اسرائیلیوں نے اہل فلسطین وغزہ پر انسانی ضرورت کی تمام چیزوں بشمول اشیاء ِ خورد ونوش کو مکمل اپنے کنٹرول میں رکھا ہے ۔ پانی، لائٹ، غِذائی اجناس سب پر اسکا کنٹرول ہے اس کی اجازت کے بغیر بنیادی ضرورت کی چھوٹی سی چیز بھی فلسطینیوں کو حاصل نہیں ہوسکتی جب وہ چاہتا ہے پانی لائٹ ودیگر اشیاء ضروریہ روک دیتا ہے۔سارا عالم جانتا ہے کہ۷؍اکٹوبر؍۲۰۲۳ کو مسجد اقصی کی حرمت بحال کرنے اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا سدِ باب کرنے کی خاطر فلسطینیوں نے انتہائی جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلیوں پر زبردست حملہ کیا، پانچ ہزار سے زائد آتشی راکٹ غزہ کی سرحد سے اسرائیلی مورچوں پر داغے گئے، غزہ کی سرحد پر لگائی ہوئی رکاوٹوں کو بلڈوزروں سے توڑ کر کچھ فلسطینی اسرائیل میں داخل ہوگئے اور چند بحر روم کے ساحلی علاقہ سے چھوٹی تیز رفتار کشتیوں کے ذریعہ داخل ہو کر سہ رخی برّی ‘بحری‘ فضائی زبردست حملہ کیا ، یہ حملہ ظلم کے خلاف اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی خاطر تھا جو اسرائیل کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔

اس ہزیمت (شکست) ورسوائی کا بدلہ ظالم اسرائیل جدید آلات کے ذریعہ خوفناک بمباری سے لے رہا ہے تازہ ترین حملوں میں معصوم بچوں ‘ عورتوں‘ مریضوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ شہر کے الاحلی اسپتال کو نشانہ بنایا گیا جس میں پانچ سو فلسطینی شہید ہوگئے، مسلسل دس بارہ روز حملوں میں ہزاروں جاں بحق شہید ہوگئے، ان کی حالت انتہائی ابتر ہے، نہ وہاں پانی ہے‘ نہ غذاء ‘نہ دواء دستیاب ہے اور نہ ہی رہنے کیلئے کوئی ٹھکانہ باقی ہے کیونکہ ہر طرف خوف اور دہشت کا ماحول ہے، ایسے وقت تمام مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انکے لئے دعاء کا اہتمام کریں اوراپنی صلاحیت واستطاعت کے مطابق مدد کر تے رہیں، کیونکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھا ئی ہے، المسلم اخوالمسلم ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھا ئی ہے۔

آقا نبی کریم ﷺ نے تمام مسلمانوں کو جسد واحد(ایک جسم) کی طرح قرار دیا جس طرح جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا بد ن تکلیف محسوس کرتا ہے اور انسان اس تکلیف سے چھٹکارہ حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح سارے عالم میں رہنے والے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کیلئے خصوصی دعائووں کا اہتمام کریں۔ حدیث شریف میں ہے دعائووں سے’ موت ‘’حیات‘ میں تبدیلی ہوتی ہے، رحمتِ عالم ﷺ نے مسلمانوں پر عام مصیبت کے نزول کے وقت چالیس دن دشمنانِ اسلام کا نام لیکر دعائِ ہلاکت فرمائی، چانچہ حدیث شریف میں ہے: عن النبي ﷺ أنہ قنت شھرا بعد الرکوع یدعو علی أحیاء من بنی سلیم ۔۔۔ الخ (بخاری)

آپؐ نے ایک مہینہ رکوع کے بعد دعائے قنوت پڑھی، آپ بنو سلیم کے کئی قبائل کے خلاف دعا کیا کرتے تھے، حضرت انس نے کہا: آپ ؐنے ستر (۷۰) قارئانِ قرآن مشرکین کی طرف دین کی دعوت دینے کیلئے بھیجے تھے، راستہ میں بنو سلیم ان کے درپے ہوئے، اور انہوں نے ان کو قتل کر دیا، حالانکہ نبو سلیم اور نبی ﷺ کے درمیان معاہدہ تھا، حضرت انس نے بتایا: میںنے کسی کی موت پر نبی ﷺ کو اتنا غم زدہ نہیں دیکھا جتنا ان کی شہادت پر آپ کو غم زدہ دیکھا تھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رعل‘ ذکوان‘ عصیہ اور بنولحیان (قبائل عرب) نے اپنے دشمن کے خلاف رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کی، آپ نے ستر انصار کو ان کی مدد کیلئے بھیجا، ہم ان کو ان کے زمانہ میں ’قراء‘(حفاظ) کہتے تھے، وہ دن میں لکڑیاں کاٹتے تھے اور رات کو نماز پڑھتے تھے حتیٰ کہ جب وہ قراء بیر معونہ میں پہنچے تو ان قبائل نے ان کو قتل کر دیا اور عہد شکنی کی، نبی ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے ایک مہینہ تک فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی، آپ بعض قبائل عرب کے خلاف دعائے ضرر کرتے رہے،وہ قبائل رعل‘ ذکوان‘ عصیہ اور بنولحیان تھے۔

اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ مسلمانوںپر عام آفت آجائے یا حق کی خاطر باطل کے خلاف راہِ خدا میں جہاد ہو یا ظالموں کا ظلم حد سے بڑھ گیا ہو تو دشمنانِ اسلام کی ہلاکت کیلئے دعاء کرنا سنت سے ثابت ہے۔ یقینا دعائووں کا اہتمام وہی لوگ کرتے ہیں جنہیں اپنے مسلمان بھائیوں کی تکلیف ومصیبت کا احساس ہو اور جن کا ضمیر زندہ ہو اور جن کی رگوں میں حمیت اور غیرت کا خون دوڑ رہا ہو وہی مظلوم مسلمانوں کی مدد میں کوشاں رہتے ہیں اور جنہیں ان کی پرواہ ہی نہ ہو انہیں کوئی فکر ہی نہیں ہوتی ، یہاں ایک فقہی مسئلہ قارئین کے گوش گذار کرنا مناسب ہے وہ یہ ھیکہ احناف کے پاس قنوت نازلہ والی نماز میں رکوع سے پہلے دعاء کرنا ہے جبکہ امام شافعی کے پاس رکوع کے بعد دعا کی جاتی ہے، رکوع سے قبل ورکوع کے بعد دعا کرنے کی دونوں حدیثیں احادیث شریفہ کی کتب میں موجود ہیں، موجودہ فلسطینی حالت کے پیش نظر ہر مسلمان پر اپنی صلاحیت واستطاعت کے مطابق ظالم اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنا لازم ہے، اس کی مصنوعات کا بائکاٹ کریں، اسرائیل جن چیزوں کو تیار کر رہا ہے ان کی خرید وفروخت بند کر دیں وہ اپنی کمپنیوں سے تیار کر دہ مال ہمیں فروخت کرکے ہم سے ہی فائدہ اٹھا کر ہمارے خلاف جنگ کر رہے ہیں اور نہتے اور مظلوم مسلمانوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

اگر تمام اسلامی ممالک متفق ہو کر اسرائیل کے خلاف آواز اٹھا ئیں اور اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں تو اسرائیل ضرور ذلیل ورسوا ہو جائیگا، لیکن افسوس صد افسوس اسلامی ممالک کے سربراہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور انہیں اپنے ذاتی مفادات کی پڑی ہے ہر ایک کو اپنی کرسی اور حکم رانی کی فکر ہے، قوم وملت کی انہیں کوئی فکر نہیں، شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ نے مسلمانوں کی سابقہ شان وشوکت یاد دلاتے ہوئے بڑے ہی دل نشین پیرائے میں موجودہ مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو بیدار کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا:

اے مسلماں صاحب شمشیر تھا دنیا میں تو
موجزن تیری رگوں میں تھا حمیت کا لہو
تیری غیرت کا تقاضہ ہے کہ اٹھ بیدار ہو
لب پے پھر اللہ اکبر ہاتھ میں تلوار ہو

یہ خوش آئین بات ہے کہ کچھ اسلامی ممالک اسرائیل کی ظلم وزیادتی کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہیںاور جرأت مندانہ اقدام کرتے ہوئے اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق مظلوم اور نہتے مسلمانوں کی حمایت کررہے ہیں، یقینا ان کا یہ عمل قابل ستائش و قابل تقلید ہے۔ آج ساری امت مسلمہ کو متحد ہو کر کفر وباطل کا مقابلہ کرنا ضروری ہے ۔

بارگاہ یزدی میں دعاء ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کی جان و مال‘ عزت وآبرو کی حفاظت فرمائے ۔ظالم اسرائیل کی باطل طاقت کو نیست ونابودکردے۔ آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔
٭٭٭

a3w
a3w