رفیع الدین حنیف قاسمی
کسی بھی ملک کی ترقی حکومتوں کے ٹھوس اور مضبوط فیصلوں اور دوررس وحکیمانہ اقدامات اور دوربین نگاہ لائحہ عمل سے ہوتی ہے ، وہیںاس کے برخلاف کسی بھی ملک کے لیے آمرانہ ، انانیت ، وخود پرستی پر مبنی فیصلے ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے بجائے ملک کے لیے نقصاندہ، اس کی سالمیت کے لیے خطرہ اور اس کی اقتصادی ومعاشی حالت کی ابتری اور عوام اور ملک کے باسیوں کے لیے درد سر اور مصیبت کا پیش خیمہ ہوتے ہیں، اس لیے ملک کے حکمرانوں کو کسی بھی فیصلے کے لینے سے پہلے نہایت ٹھوس مضبوط لائحہ عمل کے ساتھ قدم اٹھانا چاہیے ، دھڑلے سے کوئی ایسا فیصلہ لینا جو نہ صرف ملک کی ترقی کے لیے بلکہ ملک کے عوام کے لیے بے جا تکلیف ومشقت کا باعث بنے ، ملک کے عوام کو سڑکوں پر آنا پڑے، لائینوں میں ٹھہرناپڑے ، دھوپ اور سردی کی شدت کو جھیلناپڑے ،اس قسم کے فیصلے ملک کی ترقی وخوشحالی کے ضامن نہیں ہوتے، بلکہ یہ تو ملک میں بھاگ دوڑ، کسمپرسی ، اضطراب وبے چینی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں، یہی کچھ صورتحال اس وقت ملک کو درپیش ہوئی تھی جب ۸نومبر ۲۰۱۶ءکو ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے نوٹ بندی کا فیصلہ سنایا تھا، وقت اور حالات نے آخرش یہ ثابت کردیا تھاکہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ جو ملک سے کالا دھن واپس لانے کے ادعا پر کیا گیا تھا، یہ کسی بھی طرح درست ثابت نہیں ہوا، یہ فیصلہ عوام کے لئے راحت کے بجائے مشکل اور تنگی کا باعث بنا، سینکڑوںلوگوں کی جانیں چلی گئیں، لقمہ اجل بنے، بہت سارے افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے، نوٹ بندی کے نتیجے میں درپیش کرنسی کی مشکل کو حل کرنے کے لئے اس وقت 2000 کا نیا نوٹ جاری کیا گیا، ابھی اس کے اجراءپر پانچ سال نہیں گزرے تھے کہ یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ یہ نوٹ بھی بند ہوجائے گا، چنانچہ عام عوام نے ا ن نوٹوں کو پہلے سے ہی اپنے پاس رکھنا بند کردیاتھا، آخرش مودی حکومت کا یہ فیصلہ بھی آگیا کہ 2000 کے بھی نوٹ بند ہوجائیںگے، آربی آئی نے 19مئی کو یہ اعلان کیا کہ 2ہزار کے نوٹ کو سرکولیشن سے واپس لیا جائے گا، البتہ اسے 30ستمبر 2023تک تبدیل یا جمع کیا جاسکتا ہے، ویسے 2018، 2019 سے ہی اس کی طباعت بند کردی گئی تھی اور مارچ 2017سے 89 فیصدنوٹ چل رہے تھے، بیان میں کہا گیاہے کہ مارچ 2018میں 6.73لاکھ کروڑ روپئے کے 2ہزار کے نوٹ گردش میں تھے جو کہ زیر گردش کل نوٹوں کا 7.3فیصد تھا، مارچ 2023میں یہ تعداد کم ہو کر 3.62لاکھ روپئے پر آگئی اور کل کرنسی میں اس کا حصہ کم ہو کر 10.8فیصد رہ گیا، اس طرح آخرش اس نوٹ کو چلن سے باہر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
2016کی نوٹ بندی کا فیصلہ بھی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوست اور سابق فیناس سکریٹری ہنس مکھ ادھی کی ایک رپورٹ کی بناءآیا تھا کہ2011سے 2016تک پانچ سو اور ہزار روپیوںکی سپلائی میں 108 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ کالے دھن کی جانب اشارہ کرتا ہے ، اور یہ کالا دھن پانچ ٹریلین روپئے ہوسکتا ہے ، اسطرح ان کے مشورے پر کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بند کرنے پر بیس فیصد بلیک منی پر چوٹ لگ سکتی ہے ، اس طرح نوٹ بندی کا عمل سر انجام پایا، حالانکہ اس وقت یہ بات کہی گئی تھی کہ نوٹ بندی کالے دھن کا کوئی حل نہیں، کالا دھن بیشتر بیرون ممالک ہوتاہے ، کالا دھن ہیرے اور سونے کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے ، زمین ، پراپرٹی کی شکل میںبھی، آر بی آئی نے اس وقت یہ بھی کہا تھا نوٹ بندی کے فیصلہ سے ملک میں افراتفری ہوسکتی ہے ، جس کے توڑ کے لیے 2 ہزار کا نوٹ جاری کیا گیا، جس کے تعلق سے اسی وقت یہ کہا گیا تھا اس2ہزار کی نوٹ کی وجہ سے کالے دھن میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔
سنٹر فارمانیٹرنگ انڈین اکانومی ( سی ایم آئی ای) کے مطابق 2016کی نوٹ بندی کی مہم کی وجہ سے 100زیادہ سے لوگوں کی جان گئی اور تقریباً 15لاکھ ملازمتیں چلی گئیں، صنعتیں تباہ ہوگئیں، اکانومی پر اس کا منفی اثر پڑا۔
اس لئے دہلی کے چیف منسٹر اروند کجریوال نے 2ہزا ر کی نوٹ بندی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ” پہلے کہتے تھے کہ دو ہزار کی نوٹ کے چلن سے رشوت خوری ختم ہوجائے گی اور اب کہا جارہا ہے کہ دو ہزار نوٹوں پر پابندی لگانے سے رشوت خوری ختم ہوجائے گی، اس لیے کہتے ہیں کہ ملک کا وزیر اعظم تعلیم یافتہ شخص ہونا چاہیے۔ناخواندہ وزیر اعظم کو کوئی کچھ بھی کہہ سکتا ہے وہ کچھ نہیں سمجھتے، اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے“ راہول گاندھی نے ٹو ٹ کیا ”بچکانہ فیصلے بند کرو، کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے اپنے ٹوئٹر اکاو¿نٹ سے ٹویٹ کیا کہ ”ہمارے خود ساختہ عالمی گرو، پہلے کرتے ہیں، پھر سوچتے ہیں۔“
ویسے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے تین زرعی قوانین بھی پہلے کسانوں کے لیے مفید بتا کراس کو واپس لے لیے تھے۔
2ہزار کی نوٹ بندی کے اس فیصلہ پر موجودہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آیا، برسر اقتدار پارٹی کے کارکنان نے اسے اچھا فیصلہ قرار دیا تو دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے کارکنان نے اس فیصلہ کو غلط قرار دیاہے، بر سر اقتدار حکومت کی نمائندگی کرنے والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ موجودہ 2ہزار کی نوٹ بندی کے فیصلے سے وہ لوگ ناخوش ہیں، جنہوں نے غیر قانونی طور پر یہ کرنسی اپنے پاس اکٹھا کر رکھی ہے ، جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کا یہ کہنا ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ہی سرے سے درست نہیں تھا، جس کے نتائج آج اس وقت دیکھنے کو مل رہے ہیںکہ کسی بھی ملک کی کرنسی کو اس طرح آسانی سے بند کردینا یہ کوئی ملک کے لیے آسان بات اور فال نیک نہیں ہوتا، اس لئے کہ اس کی وجہ سے نہ صرف ملک کے عوام بلکہ بیرون ملک لوگوں کے یہاں موجود کرنسی بھی بے حیثیت وبے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے۔
اسد اویسی ایم آ©ئی ایم صدر نے وزیر اعظم سے یہ سوال کیا کہ آپ نے پہلے 2ہزار کے نوٹ کیوں متعارف کرائے، کیا ہم آپ سے یہ توقع کریں کہ عنقریب 500کے نوٹ بھی واپس لئے جائیںگے، کانگریس نے سوال کیا کہ آیا یہ ”دوسری نوٹ بندی“ پچھلے غلط فیصلے کی پردہ پوشی کی کوشش ہے ، پارٹی نے سارے نوٹ بندی معاملہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا، ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہواموئترا نے کہا کہ کوئی بھی مہذب ملک اپنے عوام کو کرنسی نوٹ کے ٹائلٹ پیر میں تبدیل ہوجانے کے مسلسل خوف میں نہیں رکھتا، کانگریس میڈیا شعبہ کے انچارج پون کھیڑانے مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جوشخص خود اپنی چھاپی ہوئی نوٹ7سال بھی استعمال نہیں کرسکتا، وہ پوچھتا ہے کہ ملک نے 70سال میں کیا کیا، کانگریس رکن پارلیمنٹ منیش تیواری نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ آیا 2ہزار کے نوٹ 30ستمبر کے بعد لیگل ٹنڈربرقرار رہیںگے یا نہیں؟چیف منسٹر ٹامل ناڈو ایم کے اسٹالن نے کہا کہ 2ہزار روپئے کی کرنسی نوٹ کو گردش سے ہٹانے کا مرکزی حکومت کا اقدام کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی ہزیمت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے ، چیف منسٹر نامل ناڈو نے ایک ٹوئٹ میں یہ بھی کہا کہ : ”500شکوک وشبہات، ایک ہزار اور 2ہزار غلطیاں، کرناٹک اسمبلی انتخابات کی شرمناک شکست پر پردہ ڈالنے ایک منصوبہ“ بلکہ یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے نوٹ بندی کی یہ دوسری کوشش ہے، ڈیم ایم کی رکن پارلیمنٹ اور ڈپٹی سکریٹری کنی مولی نے 2ہزار روپئے کے نوٹ کا ایک فوٹو پوسٹ کیا تھا اور لکھا تھا:”جو اسے تخلیق کرتا ہے وہی اسے تباہ کرتا ہے۔ “
اس طرح کے بے شمار ملے جلے رد عمل حکمران جماعت کے نمائندوں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی طرف سے سامنے آئے بلکہ بعض اپوزیشن لیڈرس نے یہ مطالبہ کیا کہ 2016کی نوٹ بندی بالکل غیر مو¿ثر رہی اور 2ہزار کی اس نوٹ کو بر سر اقتدار حکومت کی جانب سے کالے دھن پر سرجیکل اسٹرائیک قراردینے کو مضحکہ خیز قرار دیااور مرکز سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ 2ہزار کی کرنسی متعارف کرانے او ران نوٹوں کو واپس لینے کے پس پردہ مقاصد سے عوام کو واقف کرائے۔
2016کی نوٹ بندی کے بعد عوام کے پاس سے صرف 0.7 فیصد کرنسی متروک پائی گئی جو حکومت کی توقعات کے برخلاف رہی، یعنی جن کے پاس کالا دھن تھا،انہوں نے برسرار اقتدار حکومتی کارندوں سے ساز باز کرکے اپنے کالے دھن کو سفید کرلیا، اس کے علاوہ نوٹ بند ی کا ملک کی معیشت پر منفی اثر پڑا، جس کی وجہ سے کئی نوکریاں چلی گئیں، صنعتیں بند ہوگئیں اور قومی شرح نمو میں 1.5 فیصد کی گرواٹ درج کی گئی، اس کے علاوہ حکومت نے 500اور دو ہزار کے نئی کرنسی نوٹوں کے اجراءکے لیے 13ہزار کروڑ روپئے خرچ کیے ، اب اس 2ہزار روپئے کی نوٹ بندی کے ذریعہ کہاں سے توقع کی جاسکتی ہے ، کالا دھن ختم ہوجائے گا، ملک کی معیشت درست ہوگی، اس سے ملک کی اقتصادی حالت مضبوط ہوگی، اس کے بدلے دوسری کرنسی جاری کرنے پڑے گی، جس میں کروڑوں کے اخراجات ہوںگے، اس نوٹ بندی سے نقصان تو عوام ہی کا ہوگا، بلکہ بڑے مالدار اور خوشحال لوگ حکومتی سطح پر ساز باز کے ذریعے اپنے کالے دھن کو بآسانی سفید کروا لیںگے ، مصیبت اور دقت کا سامنا تو عوام کو ہوگا، جنہوں نے بڑی محنت اور جستجو سے ، خون پسینے کی کمائی سے پائی پائی کو جمع کیا ہوگا، انہیں کو بینکوں کے چکر کاٹنے ہوںگے ، وہی قطاروں میں لگیں گے، انہیں دھوپ کی تمازت وشدت اور گرمی کی حرارت اوراپنے اوقات کی قربانی دینی ہوگی، بڑے سرمایہ دار مالدار تو اپنے گھربیٹھے حکومتی ساز باز کے ذریعے اپنی کرنسی تبدیل کرالیں گے بلکہ اس وقت یہ خبر سننے میں آرہی ہے کہ 2ہزار کے کرنسی نوٹوں کے ذریعے ڈالر کی خریداری ہورہی ہے ، جس میں فی ڈالر 10روپیئے اورسونے کی خریدی بر فی تولہ 8ہزار مزید ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے ۔
اسی لیے کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکز ی وزیر فینانس پی چدمبرم نے کہا کہ 2ہزار روپئے کی کرنسی نوٹس کی چلن سے دستبرداری کے مرکزی حکومت کے فیصلہ سے انہیں خوشی ہوئی ہے ، اس لیے کہ انہیں اپنی غلطی کی د رستگی کے لیے سات سال درکار ہوئے ، بلکہ کہا کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ایک غلطی تھی، بلکہ ایک عجلت پسندانہ فیصلہ تھا، اس طرح حکومت نے عوام کو اب بھی اپنے اس تغلقی فرمان کے ذریعہ سے الجھن میں ڈال دیا ہے ۔
بہرحال ملک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، جب وہ برسراقتدار ہوں تو حکومت اور اقتدار کے نشہ میںانانیت، خودپرستی اور جوش وجذبہ میں آکر کوئی فیصلہ نہ لیں، بلکہ ہر کام سے پہلے عوام کا نفع نقصان پیش نظر رہے، پارلیمنٹ ہی نہیں سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی سطح پر مہم کے ذریعے بھی لوگوں کے موڈ کو جانچا اور پرکھا جاسکتا ہے ، اس طرح فیصلے لیے جاسکتے ہیں، عوام اورحکمرانوں کی شراکت سے ملک کی ترقی ہوتی ہے ۔