طنز و مزاحمضامین

پکوان گیس کی قیمت اور ہم

ڈاکٹر محبوب فرید

خبر آئی ہے کہ تیل کمپنیوں نے نان سبسڈی پکوان گیس عرف ایل پی جی سلنڈر کے دام میں 50 روپے اور کمرشیل سلنڈر میں 350 روپے کا اضافہ کردیا ہے۔ پہلے ٹیلی فون اور پکوان گیس متمول لوگوں کے لیے مخصوص تھا۔کم سے کم آٹھ دس سال انتظار کرنا پڑتا تھا۔ پھر آفس جاکر بکنگ کروانے کی ضرورت ہوتی تھی پھر گیس اور فون کی بلیک مارکٹنگ بھی ہوتی تھی۔لوگ عام طور پر لکڑیوں‘کوئلہ اور بھوسے کے چولھے پر پکوان کرتے تھے جو کئی گھنٹے گرم رہتے تھے۔ عموماً مٹی کے برتن میں پکوان ہوا کرتے تھے اور پکوان میں مزہ بھی آتا تھا۔ اب کہتے ہیں کہ لکڑی کے چولھے پر پکوان کرنے سے پھیپھڑوں کی بیماریاں ہوتی ہیں۔اس لیے گیس پر پکوان کی صلاح دی جارہی ہے۔شاید کسی حد تک صحیح بھی ہو۔پھر وقت بدلا‘ زمانہ بدلا‘بہت کچھ بدل گیا۔
پھر سرکار نے گیس کے حصول کو آسان بنادیا ہے۔ بلکہ سفید راشن کارڈ کے حامل عوام کو حکومت کی جانب سے پہلی بار اسٹو اور گیس سلنڈر مفت دیا جارہا ہے۔ ایک دن ہمارے محلہ کے سماجی کارکن چندو بھائی گھر آئے اور بتایا کہ حکومت ہم کو فری گیس کا چولھا اور سلنڈر مفت دے رہی ہے۔ صرف انہیں ایک ہزار روپئے دے دیں باقی کارروائی وہ خود کرلیں گے۔ ہماری بیگم بھی ایسے شاطر لوگوں کی باتوں سے بہت جلد متاثر ہوجاتی ہیں۔ جب ہم نے کہا کہ یہ سہولت صرف وائٹ راشن کارڈ والوں کے لیے ہے، ہمارے پاس تو سفید کارڈ ہے نہ گلابی۔جب ہم نے انھیں حقیقت سے آگاہ کیا تو کہا آپ سب ان پر چھوڑدیں، صرف ایک ہزار روپے انھیں دیں اور دیکھیں۔ایسے معاملات میں ہم ذرا ڈرپوک ہیں۔ دھوکہ دینا ہمارے بس کی بات نہیں،اس لیے اکثر لوگ ہمیں دھوکہ دے جاتے ہیں اور ہم بیوی کے سامنے اس کا ذکر بھی نہیں کرتے۔الٹا بیوی کے سامنے خود کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بے چاری اب تک ہم کو ہیرو ہی سمجھتی ہے۔ یہ اس کا بھولا پن ہے ورنہ ہمارے جیسوں کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوتا۔ ہمارے پڑوس میں خان صاحب رہتے ہیں، ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور ان کے گھر میں چھ ماہ کے اندر مفت میں چولھا اور گیس سلنڈر آگیا۔ تب سے اب تک بیگم نے سو بار کہا ”دیکھا…………آپ نے چندو بھائی کی بات نہیں مانی ورنہ ہمارے پاس بھی مفت کا چولھا اور گیس سلنڈر ہوتا۔“ ہم نے کہا…………اب دیکھو آگے کیاہوتا ہے…………؟ ایک ماہ میں گھر میں نئے نئے پکوان ہوئے۔ اس کی خوشبو ہمارے گھر کا سینہ چیر کر اندر آجاتی اور ہم میاں بیوی میں جنگ کا آغاز………… تم نے چند و بھائی کی بات نہیں مانی ورنہ …………ایک ماہ بعد اچانک ان کے گھر کا سلنڈر اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ خان کے گھر اچانک ایک دن اداسی چھا گئی۔ ہم تو ڈر گئے کہیں کچھ ایسا ویسا تو نہیں ہوگیا …………خان سے پوچھا تو انہوں نے کہا…………نہیں ایسی کوئی بات نہیں ……صرف پکوان گیس ختم ہوگئی ہے۔ میں نے پوچھا پھر…………بولے دو چار دن بعد دیکھیں گے۔…………!! ایک ہفتہ ہوگیا‘ چولھا ٹھنڈا پڑا تھا۔ ادھر ادھر سے گزارا ہورہا تھا۔
ہماری بیگم نے خان صاحب کی اہلیہ سے پوچھا…………بھابھی…………آج کل آپ کے گھر سے نئے نئے پکوان کی خوشبو نہیں آرہی ہے۔ کیا بات ہے…………غصہ سے ان کی طرف دیکھ کر بولیں ………… سرکار کی گیس ختم ہوگئی۔اب ہم خریدیں گے تو نو سو روپے گیس کے سرویس چارج سو روپے جملہ ایک ہزار روپے دینے ہوں گے۔ اب ہر ماہ ایک ہزار روپے ہم کہاں سے لائیں۔ ہم سوچ رہے ہیں پھر پرانے طرز پر ہی پکوان شروع کریں۔سرکار اگر غریبوں کو ہر ماہ کم سے کم ایک سلنڈر مفت دیتی تو بہتر ہوتا۔ ہم نے کہا……………… یہ بات آپ چندو بھائی سے کرکے دیکھیے شاید و ہ کوئی راستہ نکالیں …………مگر انہیں بھی تو ان کے سرویس چارجس دینے پڑیں گے۔
ہم شہر کے ایک نامور اخبار کے دفتر میں 2تا 8 کی شفٹ میں کام کررہے تھے۔ ہمیشہ کی طرح تھکے ماندھے گھر پہنچے۔ گھرمیں سنسنی خیزسناٹا تھا۔ ہم تو ڈرگئے کہ کہیں ………… سب ایک ایک کونے میں بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔ہم نے بھی کسی سے کچھ نہیں کہا۔ فریش ہوکر سیدھا کھانے کی میز پر اس نیت سے بیٹھ گئے کہ بیگم گرما گرم پراٹھے‘ چکن مصالحہ‘ کھٹی دال اور سادہ چاول بنائی ہوگی۔ ہم نے تو کھانے کی دعا بھی پڑھ لی تھی۔مگر یہ کیا …………بیگم منہ پھلائی‘گپ چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا عموماًگھر میں ایسا بہت کم ہوتا تھا۔ہم نے پوچھا ………… ”بیگم! اللہ تم سے راضی ہو …………کیابات ہے ……“؟ان کے ساتھ ان کی بی۔ٹیم بھی خاموش کھڑی تھی۔کیا مجال گھر میں کوئی پرندہ بھی پر مار سکے۔ ہم نے دوبار ہ سنجیدگی سے پوچھا………… جان من کیا بات…………؟ کیا میکے سے کوئی ایسی ویسی خبر آئی ہے؟تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بیگم نے شاہانہ انداز میں اعلان کیا کہ ”پکوان گیس“ ختم ہوگئی ہے۔تو ہم نے کہا ……اس میں ہمار ا کیا قصورہے؟
تمہار قصور یہی ہے کہ تم ایک صحافی ہو۔ہم نے پوچھا اگر شاعر یا ادیب یا لیڈر ہوتے تو کیا ہوجاتا؟ گرج کر بولیں ”پکوان گیس ختم ہوتے ہی گھر آجاتا“ ہم نے پوچھا وہ کیسے؟ کیا تم نے گیس ختم ہوتے ہی گیس ایجنسی کو فون کیا تھا؟ ہاں شام چار بجے سے فون کر رہی ہوں۔ پھر کیا ہوا…………؟
فون پر کوئی خاتون تھی جو خود ہی بولے جارہی تھی۔میری کوئی بات سن ہی نہیں رہی تھی۔وہ صرف بولنے والی خاتون تھی سننے والی نہیں …………میں نے کہا اس میں تعجب کی کیا بات ہے ہر عورت ایسی ہی ہوتی ہے۔تم اس کی بات پوری طرح سن تو لیتی……………… مگروہ بھی خاتون اور میں بھی خاتون دونوں بولنے والے خاموش کیسے رہ سکتے تھے؟۔ پھر بیگم نے کہا………… میں کچھ دیر صبر کرکے چپ رہ گئی………… میں نے کہا ”یہ تم نے بہت اچھا کیا۔“ پھر اس خاتون نے کہا ………… ہندی میں بات کرنی ہو تو ایک دبائیں‘ تلگو میں بات کرنی ہوتو دو دبائیں اور انگریزی میں بات کرنی ہوتو تین دبائیں۔میں نے گھبراہٹ میں تین دبا دیا …………اس نے کہا نئے سلنڈر کے لیے ایک دبائیں‘ ری فیلنگ کے لیے دو دبائیں‘ سپلائی میں تاخیر ہوتو تین دبائیں۔ہم نے پوچھا پھر کیا ہوا………………وہی ہوا جو ہونا تھا ……میں نے غصہ میں آکر فون بند کردیا۔ہم نے بیگم سے کہا۔آپ سے یہی غلطی ہوئی۔ اب زمانہ بدل گیا ہے وقت کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی بدلنا ہوگا۔ اس نے جوکرنے کو کہا تھا وہ کردیتی تو آج یہ حال نہ ہوتا۔ بیگم یہ کال سینٹر تھا۔ جو چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے۔ چلو میں گیس بک کروادیتا ہوں۔دوسرے ہی دن گیس سلنڈر گھر آگیا۔ نا م پوچھ کر سلنڈر گھر کے سامنے رکھ دیا اور بل نو سو روپے کا دے کر کہا کہ ہزار روپے دیجئے۔ بیگم نے پوچھا سو روپے کس لے …………؟کہا یہ سرویس چارجس ہیں۔بیگم نے کہا سرویس چارجس تو میں تمہیں نہیں دے سکتی وہ صاحب سے لینا وہ ابھی آرہے ہیں۔ انتظار کرو۔ بیگم نے ہمیں نیند سے جگاکر کہا ………… وہ سرویس چارجس سو روپے مانگ رہا ہے؟ ہم نے کہا ………… اللہ تم سے راضی ہو ………… سور وپے دے دو؟ بیگم نے پوچھا …………آپ کے پاس سو روپے چلر ہیں؟ جب ہم نیند سے جاگے۔ اور جاکر پوچھا …………میاں یہ سرویس چارجس کیسے؟ اس نے نہایت ادب احترام کے ساتھ کہا نہیں صاحب ……یہ سرویس چارجس نہیں …………آپ خوشی سے کچھ بھی دے دیجئے۔ہم نے اسے پچاس روپے دئیے اور وہ سلوٹ کرکے چلا گیا۔
پہلے لوگ لکڑی کے چولھے پر پکاتے اور مٹی کے برتن میں کھاتے تھے۔اس کی وجہ سے لوگوں میں عجز و انکساری کا عنصر نمایاں تھا۔پھر انسان ترقی کرتا گیا تو کوئلوں پر پکوان کرنے لگا، پھر لکڑی کے بھوسے (سیگڑی) کا دور آیا۔ چند سال بعد گیس اسٹو اور پھر بتیوں کا چولھا منظر عام پر آیا، اس میں گیس کے تیل کی ضرورت ہوتی تھی مگر سہولت بہت تھی۔ یہ چولھا کہیں بھی گرم ہوسکتا تھا، جنگل بیاباں میں بھی پکوان کی خوشبو بکھیرتا تھا۔انسان مزید سہولت پسند اور سست ہوتا گیا تو بازا ر میں الکٹر ک چولھے آگئے مگر اس سے خواتین کو بجلی کے جھٹکے بھی لگتے تھے۔اور اب پکوان گیس عرف بوٹا گیس عرف ایل پی جی کا دور ہے۔ ہم نہیں تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ ہر چولھے پر پکوان کا مزہ الگ الگ ہوتا ہے۔ آپ بھی تجربہ کرسکتے ہیں، مگر آج کل ہر طرف پکوان گیس کی دھوم ہے، بڑی بڑی دعوتوں میں بھی لکڑیوں کی جگہ پکوان گیس نے لے لی ہے۔ہر چیز کے کچھ فائدے ہیں تو کچھ نقصانا ت بھی ہیں۔ پکوان گیس سلنڈر کبھی کبھی غصہ کی وجہ سے آپے سے باہر ہوجاتاہے۔ایسا تو ہر محنت کرنے والا کرتا ہی ہے جس سے جانی و مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ ا س کوقابو میں رکھنے کے لیے اب سرکار نے کم وزن والے محفوظ سلنڈر کا بھی اعلان کیا ہے۔ہم حکومت کے اس اقدام کے ممنون و مشکور ہیں۔
گھریلو استعمال کا سلنڈر تقریبا ً چودہ کیلو ہوتا ہے۔ تول مول کا کیا کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ایجنسی والے کہتے ہیں کہ سلنڈر گھر پر آئے تو تول کر دیکھ لیں مگر ایسا کبھی ہوا نہیں۔ ہم نے ڈیلیور ی بوائے سے ہماری یہ دیرینہ تمنا پوری کرنے کی خواہش ظاہر کی مگر اس نے ہر بار ہماری بات ٹال دیا۔البتہ گیس لیک leakہونے کا خدشہ ظاہر کریں تو سلنڈر واپس ہوسکتاہے۔
پکوان گیس ہم اپنی من مانی استعمال نہیں کرسکتے، کیوں کہ پہلے سلنڈر پر سرکا ر سبسیڈی دیتی ہے۔ اس کے بعد یہ سہولت خو د بخود ختم ہوجاتی ہے۔ پہلے تو گیس ایجنسی ہم سے پوری قیمت وصول کرلیتی ہے۔بعد میں سبسیڈی یعنی جزوی اعانت بینک کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے۔کہتے ہیں کہ یہ رقم بینک کے نئے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے اور بینک آدھار سے لنک ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ پکوان گیس کی قیمت بیگم کے بجٹ ادا کی جا تی ہے اور سبسڈی میاں کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی ہے۔
پکوان گیس کی سربراہی یا عدم سربراہی کے بہانے سے ہماری کالونی کے صدر صاحب کا دیدار ہوجا تا ہے ورنہ عام طور پر وہ صرف الیکشن کے موقع پر ہی دکھائی دیتے ہیں۔کبھی کبھی ان کے سلنڈر ان کے گھر اور ان کا سلنڈ ر ان کے گھر پہنچ جاتاہے۔پڑوسیوں کے ساتھ تعاو ن تو بہرحال کرنا ہی پڑتا ہے۔ جس طرح بجلی اچانک گل ہو جاتی ہے، اسی طرح گیس سلنڈربھی ٹُھس ہوجاتا ہے یہ دن دیکھتا اور نہ رات۔ سردی دیکھتا اور نہ گرمی۔ عورت کی مجبوری دیکھتا ہے اور نہ مرد کی۔ اس آفت ناگہانی سے بچنے کے لیے بعض ہم خیال پڑوسیوں کے ساتھ یہ امن معاہدہ ہو ا کہ اگر کسی کے ہاں اچانک پکوان گیس اپنی آخری منزل کو پہنچ جائے تو ایک دوسرے کے ساتھ حتی الامکان تعاو ن کریں گے۔ پہلی صورت یہ ہوگی کہ پڑوسی کے گھر پکوان ہونے کے بعد ان کا سلنڈر مستعار لے لیں۔ دوسری صورت میں ا ن کے گھر آکر اپنا پکوان مکمل کرلیں، آخری صور ت یہ کہ جس کے گھر گیس ختم ہوگئی ہو، ان کے گھر والو ں کو دو وقت کی روٹی بھیج دیں۔ چاول اور چائے کی پابندی نہیں،پڑوسی کے صواب دید پر منحصر ہوگا۔ ابتد اء میں سب جوش و خروش کے ساتھ معاہدے میں شامل ہوگئے مگر دیگر معاہدوں کی طرح یہ معاہدہ بھی اپنے آخری انجام کو پہنچ گیا، اس دوران ہمارے بھائی کی عمر بھی اٹھارہ سال ہوگئی تب ہم نے ایک اور گیس سلنڈر خرید لیا۔ ہم نے اس کو اضافی سلنڈر کا نام دیا ہے۔ تب سے ہمارے گھر میں گیس سلنڈر کی وجہ سے ہونے والے ہنگا مے تھم گئے ہیں۔ آج کل پکوان گیس آسانی سے دستیاب ہورہی ہے جس کے لیے ہم ایجنسی کے ممنون ہیں، اگر قیمت بھی کم از کم اسی مقام پر رک جائے تو ہم سرکار کے بھی مشکور ہوں گے۔ورنہ ہم بہ دل نہ خواستہ گیس کی ہر قیمت دینے تیار ہیں۔یار زندہ صحبت باقی…………!!