طنز و مزاحمضامین

یہ کب کی بات ہے؟

عطاء الحق قاسمی

یار عطا تمہیں یاد ہے میں کتنا بانکا سجیلا نوجوان ہوا کرتا تھا، گورا چٹا،گھنگریالے گھنے بال،گھرسے نکلتا تو دریچوں سے روشن چہرے جھانک رہے ہوتے، موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتا تو منزلیں میرا رستہ تک رہی ہوتی تھیں مگر میں کہیں رکتا نہیں تھا،اس دور میں کہیں قیام پسند ہی نہیں تھا میں جلسوں جلوسوں،ریلیوں میں شرکت کرتا لوگوں کے پرجوش نعرے سنتا، مقررین کی خطابت کے کمالات دیکھتا، مختلف ادوار میں ان کی قلابازیوں کو انجوائے کرتا اور صرف انجوائے کرتا،میں علما کرام کی خطابت کا بھی بہت دلدادہ تھا اس میں شیعہ، سنی، اہل حدیث کی کوئی تفریق نہیں تھی شام کو کسی ریستوران میں ان کا دیدار ہوتا یہ اس دور کے کسی یزیدکے ساتھ بیٹھے نظر آتے۔
یار عطا تمہیں یاد ہو گا، میں ان دنوں ٹی ہاؤس میں بھی باقاعدگی سے جایا کرتا تھا۔ وہاں ادیب اور دانشور چائے کے کپ پر علمی اور ادبی گفتگو کر رہے ہوتے یہ کسی کو رگید رہے ہوتے، کسی کو بانس پر چڑھا رہے ہوتے۔ وہاں حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس بھی ہوا کرتے تھے میں ان میں بھی شرکت کرتا یہاں گفتگوؤں میں مغربی دانشوروں کے اقوال زریں کے حوالے دیئے جاتے جو زیادہ حوالے دیتا اسے بڑا دانشور تسلیم کر لیا جاتا تم بھی کبھی کبھی وہاں آیا کرتے تھے تمہیں یاد ہے ایک دفعہ ہمارے ایک مشترکہ دوست نے بہت مزے کی شرارت کی، اس نے ایک ”مغربی دانشور“ کا حوالہ اپنی گفتگو میں دیا اس کے بعد بیشتر دانشور اس کا حوالہ اور اس کی کوٹیشنز سے اپنی گفتگو کو بہت قابل توجہ بناتے رہے اور سامعین ان کے علم کی وسعت سے متاثر ہوتے رہے بالآخر ایک دن ہمارے اس دانشور دوست نے حلقے میں اعلان کیا کہ یارو میں نے جس مغربی فلاسفرکا حوالہ دیا تھا اور اس کے بعد دوسرے دوست بھی اس کی کوٹیشنز ”کوٹ“کرتے رہے وہ کوئی فلاسفر یا دانشور نہیں تھا بلکہ میں نے اس کا نام سگریٹ کے ایک پیکٹ پر پڑھاتھا، جو اس کمپنی کا مالک تھا۔
یار عطا تمہیں یاد ہو گا کالج کے دنوں میں ابراہیم ہمارے ساتھ کیسی کیسی شرارتیں کیا کرتا تھا وہ شدید گرمی کے دنوں میں کالج گراؤنڈ میں میری اور تمہاری کشتی اناؤنس کر دیتا،ہمارے کلاس فیلو تماشائی ہوتے ہم دونوں ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں لگ جاتے ہم پسینو پسین ہو جاتے ہمارا سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگتا ہمارے کپڑے لیرو لیر ہو جاتے ناک سے خون بھی بہنے لگتا اور جب ہم نڈھال ہو جاتے تو پتہ چلتا کہ ابراہیم اور اس کے لائے ہوئے تماشائیوں میں سے وہاں کوئی بھی نہیں تھا، وہ اس وقت یقینا کالج کے گیٹ کے قریب واقع خان کی کینٹین پر ”پلستر“ کھا رہے ہوتے۔یارعطا کیا ہمارے ساتھ آج بھی یہی کھیل تو کھیلا نہیں جا رہا؟
یار عطا تمہیں یاد ہے ان دنوں ہم کبھی کبھی لکشمی چوک میں باہر سڑک پر بیٹھ کر کشمیری چائے بھی پیا کرتے تھے، وہاں تیل بھری شیشیوں کو چھنکاتے مالشئے بھی پھرا کرتے تھے ہم ان سے سر پر چمپی بھی کرواتے اور اس خدمت کے عوض وہ پانچ روپے لے کر بہت خوش ہوتے، وہاں ایک نابینا فقیر بھی ہوتا تھا جب ہم گپ شپ کر رہے ہوتے وہ ہمارے پاس آن کھڑا ہوتا اور انتہائی بْرے لحن میں تلاوت شروع کر دیتا، اس کی کرخت آواز سے محفوظ رہنے کے لیے ہم ابتدا ہی میں اس کی ہتھیلی پر دو روپے رکھ دیتے اور وہ وہاں سے چلا جاتا۔ ایک دن ہم کسی لمبی بحث میں مشغول تھے وہ آکر کھڑا ہوگیا مگر ہمیں اس کی آمد کا پتہ نہ چلا اس نے کچھ دیر انتظار کیا اور پھر کہا ”دیتے ہو کچھ یا پھر تلاوت شروع کروں؟“ یار عطا یہ سلسلہ تو آج بھی جاری ہے۔ آج بھی ”بینائی“ سے محروم لوگ اپنے کرخت لحن میں نظریہ پاکستان کی تبلیغ کرتے ہیں اور نہیں جانتے وہ ہمیں کدھر لے جانا چاہتے ہیں اور ہم کدھر جا رہے ہیں؟
یار عطا تمہیں یاد ہے ایک دن اتوار کے روز میں اپنی موٹر سائیکل پر نسبت روڈ سے گزر رہاتھا اتوار کی وجہ سے سڑک بالکل خالی تھی اور وہاں لڑکے کرکٹ کھیل رہے تھے اور ربڑ کی گیند سے نہیں ”اصلی“ گیند سے اپنی جولانیاں دکھا رہے تھے اس دوران ایک خونخوار قسم کی گیند میرے جبڑوں سے ٹکرائی اور یہ جبڑا ہل کر رہ گیا میں گر گیا کافی چوٹیں آئیں، مجھے اسپتال لے جایا گیا ایمرجنسی میں میری ”مرہم پٹی“ کی گئی میں ٹھیک ہو گیا مگر ابھی تک کرکٹ کے شیدائیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے سڑکیں بند ہو رہی ہیں لوگ زخمی ہو رہے ہیں مگر اسٹروک لگانے والے باز نہیں آرہے۔
میں نے اپنے دوست کی یہ باتیں سنیں تو کہا ”تمہاری سب باتیں صحیح ہیں میں ان کا گواہ ہوں مگر تم نے یہ جو کہا ہے کہ تم بہت بانکے سجیلے تھے گورے چٹے،گھنگریالے بال، گھر سے نکلتے تو دریچوں سے روشن چہرے جھانک رہے ہوتے تھے، یہ مجھے یاد نہیں، ویسے یہ کب کی بات ہے؟