حیدرآباد

آندھرا کو 2500 کروڑ کی ادائیگی تلنگانہ کیلئے فائدہ مند: ریونت ریڈی

ریونت ریڈی نے کہا اب آندھرا پردیش کو 2500 کروڑ ادا کرنے سے تلنگانہ کو فائدہ ہوگا، ہم مستقبل میں اسے ایک مثال کے طور پر دکھا سکتے ہیں اور اسے دیگر تمام زیر التوا مسائل پر لاگو کرسکتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ میں چیف منسٹر ہوں۔

 حیدرآباد: چیف منسٹر ریونت ریڈی نے کہا کہ آندھرا پردیش کو بیرونی امدادی پروجیکٹس (ای اے پی) کو  2500 کروڑ روپے ادا کرنے سے تلنگانہ کو فائدہ ہوگا۔ یہ ادائیگی متحدہ آندھرا پردیش کی طرف سے حیدرآباد میں بڑے انفراسٹرکچرپروجیکٹس  جیسے اندرونی رنگ روڈ اور حسین ساگر ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے لیے لیے گئے غیر ملکی قرضوں پر مبنی ہے۔

متعلقہ خبریں
حیدرآباد دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت نہیں رہا
حیدرآباد میں کار ٹسٹنگ سنٹر قائم کرنے ہینڈائی موٹر انڈیا کا فیصلہ
آندھرا پردیش کے کئی مقامات پر موسلادھار بارش
بائیو ڈیزائن سنٹر، تلنگانہ کے ساتھ شراکت داری کا خواہش مند
آندھرا پردیش کے تمام ذخائر آب میں 67 فیصد پانی کا ذخیرہ

 بیرونی امدادی منصوبوں (EAP) کے تحت درجہ بندی کردہ ان قرضوں کا مقصد شہر کے بنیادی ڈھانچوں کو بہتر بنانا ہے لیکن 2014 میں ریاست کی تقسیم کے بعد یہ متنازعہ کا موضوع بن گیا۔

 آندھرا پردیش چاہتا تھا کہ تلنگانہ کے قرضوں کو تلنگانہ منتقل کیا جائے کیونکہ مقام جہاں پروجیکٹس کی تعمیر کی جانی تھی وہ مقام تلنگانہ  تھا۔ تاہم  تلنگانہ نے دعویٰ کیا کہ یہ آبادی کے تناسب کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔ اس قرض پر 10 سال تک، آندھرا پردیش نے سود ادا کیا۔

اب انہوں نے 42 فیصد کی بنیاد پر یعنی آبادی کی بنیاد پر قرض بانٹنے پر اتفاق کیا جو ہمیشہ سے  ہمارا مطالبہ رہا ہے۔ مرکز نے اسے بازار سے حاصل ہونے والے قرضوں کی طرح قرض کے طور پر دیا تھا۔ انہوں نے آبادی کی بنیاد پر ہمارے مطالبہ کے مطابق اسے لیا تھا۔ یہ اس لیے ہوا کیونکہ میں چیف منسٹر  ہوں، بی آر ایس حکومت کے برعکس جس نے اسے 10 سال تک اس مسلہ کو  زیر التواء رکھا۔

ریونت ریڈی نے کہا اب آندھرا پردیش کو 2500 کروڑ ادا کرنے سے  تلنگانہ کو فائدہ ہوگا، ہم مستقبل میں اسے ایک مثال کے طور پر دکھا سکتے ہیں اور اسے دیگر تمام زیر التوا مسائل پر لاگو کرسکتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ میں چیف منسٹر  ہوں۔

مرکز نے آندھرا پردیش  کو اجازت دی اور اے پی نے آبادی کی بنیاد پرقرض تقسیم کرنے سے اتفاق کیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرکز جو اس بات کو  یقینی بنانا چاہئے تھا کہ تلنگانہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔

 نتیجہ  کے طور پر، آندھرا پردیش حکومت اس مدت کے دوران ان قرضوں پر اصل اور سود دونوں ادا کرتی رہی تھی۔ یہ بوجھ آندھرا پردیش کے مالیات پر ایک دباؤ ثابت تھا، خاص طور پر تقسیم کے بعد ریاست کو درپیش  چیلنجوں کے پیش نظر۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر  چندرابابو نائیڈو نے ریاست کی تقسیم کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس دیرینہ مالی تنازعہ کی طرف توجہ دلائی تھی۔

 تلنگانہ کے چیف منسٹر ریونت ریڈی نے بھی تعاون کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ جس سے ان دونوں کی مشترکہ کوششوں کو تقویت ملی۔ اس مسئلہ  کو حل کرنے میں مرکزی وزارت خزانہ نے مداخلت کی اور تلنگانہ حکومت کو ہدایت دی کہ بقایا 2,500 کروڑ روپے آندھرا پردیش کے اکاؤنٹ میں منتقل کرے۔ یہ منتقلی بین الحکومتی منتقلی (IGT) میکانزم کے ذریعہ عمل میں لائی گئی، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ فنڈز براہ راست آندھرا پردیش کو مختص ہو سکیں۔

a3w
a3w