اتر کھنڈ کے 41 مسلم خاندانوں نے شہر چھوڑ دیا
اترکھنڈ کے اترکاشی میں پرولا ٹاؤن میں مذہبی تناؤ کے بعد تقریباً 35 مسلم خاندانوں نے دائمی طور پر اور 6 خاندانوں نے علاقہ سے عارضی طور پر نقل مکانی کرلئے ہیں۔

حیدرآباد: اترکھنڈ کے اترکاشی میں پرولا ٹاؤن میں مذہبی تناؤ کے بعد تقریباً 35 مسلم خاندانوں نے دائمی طور پر اور 6 خاندانوں نے علاقہ سے عارضی طور پر نقل مکانی کرلئے ہیں۔
نیوز لانڈری کی ایک رپورٹ کے مطابق پرانا میں پارچہ کی دکان چلانے والے سلیم نے کہا ”بہی خواہوں نے مجھے مقام چھوڑ دینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ بصورت دیگر مسئلہ پیدا ہوگا۔“ علاقہ میں تناؤ ماہ مئی میں اس وقت شروع ہوا جب ایک نابالغ ہندو لڑکی کا مبینہ اغواء کیا گیا۔
دو نوجوان جتندر سائنی اور زاہد ملک کو 26 /مئی کو گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف پوکسو قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس کے فوری بعد مقامی ہندوتوا گروپس نے الزام عائدکیا کہ یہ ’لو جہاد‘ کا ایک کیس ہے۔
بی جے پی اور بجرنگ دل نے 29 / مئی کو پرولا میں ایک ریالی منصرم کی۔ ریالی کے دوران اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے اور دکانات کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے بعد پوسٹرس چسپاں کئے گئے جن میں مسلم دکانداروں کو ’لو جہادی‘ منسوب کرتے ہوئے 15 /جون تک پرولا چھوڑ دینے کی دھمکی دی گئی۔
اس دن مہا پنچایت کا اعلان کیا گیا تھا تاہم پولیس نے اس کے انعقاد کی اجازت نہیں دی اور 14 تا 16 /جون دفعہ 144 نافذ کردیا گیا۔ مسلم خاندان ہنوز خوف زدہ ہیں۔ سلیم نے کہا کہ ”29 /مئی کی توڑ پھوڑ کے بعد میں بہت زیادہ خوف زدہ ہے۔ میں اپنے بچوں کے بارے میں فکر مند ہوں۔
دوسرے دن میں نے دکان خالی کردی اور اپنے خاندان کے ساتھ شہر چھوڑ دیا۔“ بالے خان کا مکان بھی مقفل ہے۔ خان تقریباً 50 برس قبل بجنور سے پرولا آئے تھے۔ پڑوسیوں نے بتایا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ 14/جون کو چلے گئے مگر ان کے اتہ پتہ کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا۔
پرولا نگر پنچایت کے صدر ہری موہن نے نیوز لانڈری کو بتایا ”مسلم دکاندار چھوڑ کر چلے گئے چونکہ صورت حال بگڑ گئی ہے اور ان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔“ بی جے پی پرولا کے قائد راہول دیو نوٹیال نے تاہم کہا کہ اخراج ضروری تھا۔ ”چند لوگ ہماری دیوا بھومی کو گندا کررہے تھے۔
یہاں آکر وہ ’لینڈ جہاد‘ اور ’لو جہاد‘ کیا۔ اس لئے اچھا ہوا کہ وہ چلے گئے۔“ پرولا میں وشوا ہندو پریشدکے سربراہ وریندر سنگھ راوت نے الزام عائد کیا کہ ہندؤں کو بدنام کرنے مسلمانوں نے خود وہ پوسٹرس چسپاں کئے تھے۔ انہوں نے کہا ”ہم نے کسی کو بھی شہر چھوڑنے کے لئے نہیں کہا۔ جو لوگ بھی گئے ہیں وہ اپنی مرضی سے گئے ہیں۔“