تفصیلی مباحث کے بعد تلنگانہ اسمبلی میں تصرف بل منظور
اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کے سی آر نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت اوران کی کارکردگی پرشدید تنقید کی اور کہاکہ آج ملک میں عجیب وغریب حالات ہیں‘ملک کی صورتحال پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔
حیدرآباد: تلنگانہ قانون سازاسمبلی میں تفصیلی مباحث کے بعد 2,90,390 کروڑ(2.90 لاکھ کروڑ) روپے پر مشتمل تصرف بل کو منظور کرلیاگیا۔قبل ازیں چیف منسٹر نے حکومت کی جانب سے گزشتہ 8سالوں کے دوران ریاست کی ترقی اورعوام کی فلاح وبہبود وخوشحالی کے لئے کئے گئے اقدامات پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
انہوں نے مرکزی حکومت پرجنونیت اورتکبرمیں کام کرتے ہوئے من مانی کرنے‘عدم رواداری اور فرقہ وارانہ منافرت کوفروغ دینے کا الزام لگایا اورکہاکہ سماج کی بھلائی پر موجودہ حالات پرغوروخوص کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بی بی سی کی ڈاکیو منٹری پرامتناع عائد کرنے پرشدید ردعمل کرتے ہوئے کہاکہ اظہارخیال کی آزادی پر قدغن نہیں لگایاجاناچاہئے۔چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے کہاکہ مرکزمیں برسر اقتدار بی جے پی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے تلنگانہ کو30لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہواہے۔
آج اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کے سی آر نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت اوران کی کارکردگی پرشدید تنقید کی اور کہاکہ آج ملک میں عجیب وغریب حالات ہیں‘ملک کی صورتحال پر سنجیدگی سے غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بہترین قدرتی اور انسانی وسائل کے باوجودملک اپنے لئے سمت متعین کرنے میں ناکام رہاہے۔
ملک کے حکمرانوں کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے۔ حکومتوں کا مقصد جھگڑاکرانا‘فساد کرانا حیلے بہانوں کے ذریعہ اقتدار حاصل کرناہوکر رہ گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں دنیا کے بہترین موسم ہیں جس کی وجہ سے ملک میں سیب اورآم دونوں کی کاشت کی جاتی ہے۔
ملک دنیا بھرکے لئے اجناس کابھنڈار ثابت ہوسکتا ہے مگران مقاصد کوچھوڑ کر حکومت خود سرائی میں مصروف ہے۔اپنے تابعداروں کے مفادات کا تحفظ اور انکار کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔ کے سی آر نے کہاکہ ملک کوآزادہوئے 75 سال مکمل ہوچکے ہیں مگر اس کے بعد بھی صورتحال جیسی کی ویسی ہی ہے۔
فرضی قوم پرستی کے نام پرعوام کوگمراہ کیاجارہاہے۔ نعروں کے ذریعہ جذبات مشتعل کئے جاتے ہیں۔وفاقی جذبہ کوقدموں تلے رونداجارہا ہے۔ مرکزی بجٹ کوہندسوں پر مشتمل کتابچہ میں تبدیل کردیاگیا۔ ریاستوں کے ساتھ انصاف کرنے کے بجائے فنڈس کی اجرائی کاجارہاہے۔
تلنگانہ کے ساتھ شدید ناانصافی کی گئی‘گزشتہ 8سالوں کے دوران ایک میڈیکل کالج‘نرسنگ کالج تک منظور نہیں کیاگیا۔تلنگانہ کے حصہ کے 495 کروڑ روپے آندھراپردیش کودے دیئے گئے مگر اس معاملہ میں کانگریس کارویہ بھی دکھاؤے پر مبنی ہے۔
ملک کاصدر مقام دہلی پینے کے پانی کے مسئلہ سے جوجھ رہا ہے جبکہ ملک میں بہترین آبی وسائل موجود ہیں۔ مرکز بین ریاستی آبی تنازعات کاحل دریافت کرنا نہیں چاہتا۔ ملک کے موجودہ آبی تقسیم کے قوانین ناقص ہیں اور ان کو خلیج بنگال میں پھینک دینے کی ضرورت ہے۔
نئے قوانین تدوین کرتے ہوئے تمام ریاستوں کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت ہے۔ کے سی آر نے کہاکہ آج ملک کے عوام کی بڑی تعداد ہندوستانی شہریت ترک کرنے تیار ہے‘ مودی دورحکومت میں 20لاکھ ہندوستانی شہریوں نے بیرون ممالک کی شہریت حاصل کی۔ یہ بدترین حالات آنے کی وجہ کیا ہے؟۔ روپے کی قدروقیمت میں مسلسل گراوٹ کی وجہ کیاہے؟۔
ملک میں جاری معاشی انحطاط کے لئے کون ذمہ دار ہے؟۔ اڈانی کی پشت پناہی کیوں کی جارہی ہے؟۔ اسکامس پرلب کشائی سے کیوں گریزکیاجارہا ہے؟۔ ان تمام سوالات کا این ڈی اے حکومت کے پاس جواب نہیں ہے۔این ڈی اے ”نوڈاٹا اولیبل) میں تبدیل ہوگئی۔مودی کامیک ان انڈیا جوک ان انڈیا میں بدل گیا۔ملک کی معیشت کو6ٹریلین ڈالربنانے کا مضحکہ خیز دکھائی دے رہاہے۔ملک میں ہر طرف چائنہ بازار کی بھرمارہے۔
اس کے باوجود بی جے پی قائدین اپنے قائد کو وشوا گرو بتانے میں مصروف ہیں جبکہ ملک کوصرف گروؤں کی ضرورت ہے۔ عوام نے وشواگرو کوگھربھیجنے کافیصلہ کرلیاہے۔ چیف منسٹر نے کہاکہ مودی اس مفروضہ میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے ملک کے عوام کے لئے بہت کچھ کیاہے۔ ان کومعلوم ہوناچاہئے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ان سے زیادہ کیامگر کبھی انہوں نے اپنی تشہیر نہیں کی۔
کے سی آر نے دی لاسٹ ڈیکیڈنامی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اس کتاب میں گزشتہ ایک دہے کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیاگیا۔ مودی کی کامیابی کے بعدملک میں صنعتیں مسدود ہوتی جارہی ہیں۔ شرح ترقی گرتی جارہی ہے۔ مہنگائی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کتاب میں کہاگیا کہ اگرچہ کہ مودی کامیاب رہے مگر ملک کے عوام ہارگئے۔
ملک ہر شعبہ میں انحطاط کاشکار ہے۔ پارلیمنٹ میں مودی کی تقریر مایوس کن رہتی ہے۔وہ اڈانی پر بات کرنے تیار نہیں ہیں جبکہ اڈانی کے روپ میں ملک پر خطرہ منڈلارہاہے۔ دنیا سے جا چکے نہرو‘اندرااورراجیوگاندھی پر وہ بات کرتے ہیں۔ راہول گاندھی اور مودی نے پارلیمنٹ کوایک دوسرے پر تنقید کا پلاٹ فارم بنالیا ہے۔
کے سی آر نے کہاکہ دوسری طرف تلنگانہ ہے جوتمام رکاوٹوں کودور کرتے ہوئے مرکز کے عدم تعاون‘اپوزیشن پارٹیوں کی تنقیدوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ترقی کی سمت گامزن ہے۔ اگرچہ تلنگانہ ملک کا صرف تین فیصد رقبہ اور 3.2 فیصد آبادی پر مشتمل ہے مگر ملک کی جی ڈی پی میں تلنگانہ کاحصہ 4.9فیصد ہے۔
ہم ایسی ہی کارکردگی دوسری ریاستوں میں دیکھناچاہتے ہیں۔ہمارا نظریہ ہے کہ ہم اسی عظیم ملک کے شہری ہیں اور ہر شہری کوترقی کرتاہواخوشحال دیکھنا چاہتے ہیں۔ تلنگانہ کے کسانوں کی طرح ملک کے تمام کسانوں کوخوشحال بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے اب کی بار کسان سرکار کا نعرہ دیاگیا۔ ہم زبانی جمع خرچ کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔
ہماری کارکردگی ہمارے جذبہ‘سنجیدگی اور عزائم کا ثبوت ہے۔ اسی لئے ہم ٹی آرایس کو بی آرایس میں تبدیل کرچکے ہیں اور مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ پارلیمنٹ انتخابات میں مودی اوربی جے پی کوگھر کا راستہ دکھایا جائے گا اور بی آرایس اور اس کی ہم خیال جماعتوں کی حکومت بنئے گی۔ہم ملک کی موجودہ درگت سے باہر نکالیں گے۔ عوامی ایجنڈے پرعمل کریں گے۔