دہلی

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی موقف، نئی بنچ طئے کرے گی

سپریم کورٹ نے جمعہ کے دن کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) کے اقلیتی موقف کا پیچیدہ قانونی سوال نئی بنچ حل کرے گی۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 1967 کا فیصلہ رد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ یہ مرکزی قانون کے تحت قائم ہوئی ہے۔

نئی دہلی (پی ٹی آئی) سپریم کورٹ نے جمعہ کے دن کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی(اے ایم یو) کے اقلیتی موقف کا پیچیدہ قانونی سوال نئی بنچ حل کرے گی۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے 1967 کا فیصلہ رد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ یہ مرکزی قانون کے تحت قائم ہوئی ہے۔

متعلقہ خبریں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی موقف پر سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے
کشمیر اسمبلی میں 5 ارکان کی نامزدگی سپریم کورٹ کا سماعت سے انکار

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی دستوری بنچ نے 4:3 کے اکثریتی فیصلہ میں کہا کہ مذہبی یا لسانی اقلیتوں کی طرف سے تعلیمی ادارے قائم کرنے یا انہیں چلانے میں بھیدبھاؤ کرنے والا کوئی بھی قانون دستور کی دفعہ 30(1) کے تحت الٹراوائرس ہے۔ آرٹیکل 30 تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کے اقلیتوں کے حق سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 30(1) میں کہا گیا کہ مذہبی ہو یا لسانی تمام اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے اپنی اور جسٹس سنجیو کھنہ‘ جسٹس جے بی پاڑدی والا اور جسٹس منوج مشرا کی طرف سے 118 صفحات کا فیصلہ لکھتے ہوئے 1967 کا عزیز باشا فیصلہ رد کردیا۔

ایس عزیز باشا۔ یونین آف انڈیا 1967 کیس میں 5 رکنی دستوری بنچ نے کہا تھا کہ اے ایم یو سنٹرل یونیورسٹی ہے اور اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ مذہبی یا لسانی اقلیتوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے اپنی کمیونٹی کے لئے جو تعلیمی ادارہ قائم کیا وہ آرٹیکل 30(1) میں درج مقاصد کے لئے قائم کیا گیا ہے۔

آرٹیکل 30(1) میں جس حق کی ضمانت دی گئی وہ ان یونیورسٹیز پر بھی لاگو ہوگا جو دستور لاگو ہونے سے قبل قائم ہوئی تھیں۔ سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ کیس کا ریکارڈ ریگولر بنچ کے سامنے رکھا جائے۔ 7 رکنی دستوری بنچ کے 3 دیگر ججس جسٹس سوریہ کانت‘ جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ستیش چندر شرما نے علیحدہ فیصلہ لکھا۔

جسٹس دتہ نے اپنے 88 صفحات کے فیصلہ میں لکھا کہ اے ایم یو کو اقلیتی ادارہ نہیں قراردیا جاسکتا۔ آئی اے این ایس کے بموجب سپریم کورٹ کی 7 رکنی دستوری بنچ نے 4:3 کے فیصلہ میں جمعہ کے دن اپنا 1967 کا فیصلہ رد کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ سنٹرل یونیورسٹی ہونے کے ناطہ اقلیتی ادارہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت دستوری بنچ نے کہا کہ مستقل بنچ کو اے ایم یو کے اقلیتی موقف کا فیصلہ کرنا چاہئے۔ جسٹس سنجیو کھنہ‘ جسٹس جے بی پاڑدی والا‘ جسٹس منوج مشرا اور جسٹس ایس سی شرما نے اس سے اتفاق کیا۔ بنچ نے اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی‘ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا‘ سینئر وکلاء راجیو دھون‘ کپل سبل اور دیگر کی دلیلیں سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔