دہلی

الہ آباد ہائیکورٹ کے جج کا متنازعہ بیان، سپریم نے تفصیلی معلومات طلب کرلی

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ سے تفصیلی معلومات طلب کی ہیں اور اس پر غور کیا جا رہا ہے۔

نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو کے متنازعہ بیانات پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا ہے اور تحقیقات کا آغاز کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے الہ آباد ہائی کورٹ سے اس معاملے پر رپورٹ طلب کی ہے۔ جسٹس شیکھر یادو نے وشو ہندو پریشد (VHP) کی لیگل سیل کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی، جہاں ان کے ایک خاص طبقے کے خلاف دیے گئے بیان پر تنازعہ پیدا ہو گیا۔

متعلقہ خبریں
مشین چوری کیس، اعظم خان اور بیٹے کی درخواست ضمانت مسترد
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے
کشمیر اسمبلی میں 5 ارکان کی نامزدگی سپریم کورٹ کا سماعت سے انکار

سی جے آئی جسٹس سنجیو کھنہ کو جوڈیشل اکاؤنٹیبلیٹی اینڈ ریفارمز (CJAR) تنظیم نے خط لکھا، جس میں جسٹس شیکھر یادو کے خلاف اندرونی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ تنظیم کے کنوینر پرشانت بھوشن نے الزام لگایا کہ جسٹس یادو نے عدالتی اخلاقیات اور آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ خط میں کہا گیا کہ ان کے بیانات نے ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا اور جج کے عہدے اور عدالتی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔

جسٹس یادو نے مشترکہ سول کوڈ (UCC) پر منعقدہ وی ایچ پی کے لیگل سیل کے پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اکثریتی عوام کی خواہشات کے مطابق چلتا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ "یہاں چار شادیاں کرنے، حلالہ کرنے اور ٹرپل طلاق دینے کے حقوق ذاتی قوانین کے تحت نہیں چل سکتے۔” اپنے خطاب میں انہوں نے "کٹھ ملا” جیسے الفاظ بھی استعمال کیے، جس پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "UCC کوئی وی ایچ پی یا آر ایس ایس کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ ہے اور اس پر سپریم کورٹ بھی بات کر چکا ہے۔”

جسٹس یادو کے ان بیانات پر مختلف حلقوں میں غم و غصہ پایا جا رہا ہے اور یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک جج کو اس طرح کے متنازعہ بیانات دینے کا کیا حق ہے۔