مذہب

اللہ کی عظیم کتاب ’’قرآن کریم‘‘ میں ذکر رسولؐ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عالی مقام ومرتبہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر حتی کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

خالق کائنات نے اپنے حبیب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں عمومی طور پر یَا اَیُّہَا النَّبِیُّ، یَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ، یَا اَیُّہَا الْمُدِّثِر اور یَا اَیُّہَا الْمُزِّمِّلُ جیسی صفات سے خطاب فرمایا ہے، حالانکہ دیگر انبیاء کرام کو ان کے نام سے بھی خطاب فرمایا ہے۔ صرف چار جگہوں پر اسم مبارک محمد اور ایک جگہ اسم مبارک احمد قرآن کریم میں آیا ہے۔ اور محمد ایک رسول ہی تو ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ (سورۃ آل عمران: ۱۴۴)(مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۰) اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں، اور ہر اُس بات کو دل سے مانا ہے جو محمد پر نازل کی گئی ہے،اور وہی حق ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، اللہ نے ان کی برائیوں کو معاف کردیا ہے اور ان کی حالت سنوار دی ہے۔ (سورۃ محمد : ۲) محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے رحم دل ہیں۔ ( سورۃ الفتح: ۲۹) اور وہ وقت یاد کروجب عیسیٰ بن مریم نے کہا تھا کہ: اے بنو اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات (نازل ہوئی) تھی ، میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اُس رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہے۔ (سورۃ الصف: ۶) معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ ہی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی تصدیق فرمادی تھی۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عالی مقام ومرتبہ: اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ایسا عظیم الشان مقام عطا فرمایا ہے کہ کوئی بشر حتی کہ نبی یا رسول بھی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: (اے پیغمبر! ) کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟ اور ہم نے تم سے تمہارا وہ بوجھ اتاردیا ہے، جس نے تمہاری کمر توڑ رکھی تھی۔ اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کردیا ہے۔ (سورۃ الشرح: ۱۔ ۴) دنیا میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں ہزاروں مسجدوں کے مناروں سے اللہ کی وحدانیت کی شہادت کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے کی شہادت ہر وقت نہ دی جاتی ہو اور لاکھوں مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجتے ہوں۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اس دنیا میں لکھا، بولا، پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب حوض کوثر: خالق کائنات نے صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آپؐ کو حوض کوثر عطا فرماکر قیامت کے روز بھی ایسے بلند واعلیٰ مقام سے سرفراز فرمایا ہے جو صرف اور صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔ لہٰذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لئے نمازپڑھو اور قربانی کرو۔ یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے یعنی جس کی نسل آگے نہ چلے گی ۔ (سورۃ الکوثر: ۱۔۳) کوثر جنت کے اُس حوض کانام ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں دی جائے گی اور آپ کی امت کے لوگ قیامت کے دن اس سے سیراب ہوں گے۔ حوض پر رکھے ہوئے برتن آسمان کے ستاروں کے مانند کثرت سے ہوں گے۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام: اللہ تعالیٰ نے نہ صرف زمین میں بلکہ آسمانوں پر بھی اپنے نبی کو بلند مقام سے نوازا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ تعالیٰ نبی پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور فرشتے نبی کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی نبی پر درود وسلام بھیجا کرو۔ (سورۃ الاحزاب: ۵۶) اس آیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مقام کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپؐ کو حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپؐ کا ذکرفرماتا ہے اور آپؐ پر رحمتیںبھیجتا ہے۔ اور فرشتے بھی آپؐ کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی آپؐ پر درود وسلام بھیجا کریں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان ہے:کیسا عالی شان مقام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا کہ آپ کا کلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی ہوتا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتا ہے: اور یہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے، یہ تو خالص وحی ہے جو ان کے پاس بھیجی جاتی ہے۔ (سورۃ النجم: ۳۔۴)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لوگوں کی ہدایت کی فکر: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی ہدایت کی اس قدر فکر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کئے جارہے ہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے! (سورۃ الشعراء: ۳) ۔ ہمارے نبی کافروں اور مشرکوں کو ایمان میں داخل کرنے کی دن رات فکر فرماتے اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش فرماتے، لیکن آج بعض مسلمان اپنے ہی بھائیوں کو کافر اور مشرک قرار دینے میں بڑی عجلت سے کام لیتے ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت بناکر بھیجے گئے: رب العالمین نے اپنے نبی کو رحمۃ للمسلمین یا رحمۃ للعرب نہیں بنایا بلکہ رحمۃ للعالمین بنایا ہے جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔ (سورۃ الانبیاء: ۱۰۷) جس نبی کو سارے جہاں کے لئے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا گیا ہو، اس نبی کی تعلیمات میں دہشت گردی کیسے مل سکتی ہے؟ آپؐ نے ہمیشہ امن وامان کو قائم کرنے کی ہی تعلیمات دی ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں: آپؐ نبی ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے جاری نبوت کا سلسلہ آپؐ پر ختم ہوگیا، یعنی اب کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (مسلمانو!) محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں۔ (سورۃ الاحزاب: ۴۰) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالمی رسالت سے نوازا گیا: متعدد آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے آپؐکی عالمی رسالت کو بیان کیا ہے، یہاں صرف دو آیات پیش ہیں: (اے رسول! ان سے) کہو کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں جس کے قبضے میں تمام آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔ (سورۃ الاعراف: ۱۵۸) اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور (اے پیغمبر!) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لئے ایسا رسول بناکر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے۔ (سورۃ سبا: ۲۸)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ بنی نوع انسان کے لئے: چونکہ آپؐ کو عالمی رسالت سے نوازا گیا ہے، اس لئے آپؐکی زندگی قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے نمونہ بنائی گئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے: حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اللہ سے اور یوم آخرت سے امید رکھتا ہو۔ اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہو۔ (سورۃ الاحزاب ۲۱) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے نمونہ ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کریں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع: اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کے اسوہ میں دونوں جہاںکی کامیابی وکامرانی مضمر رکھی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی اتباع کو لازم قرار دیا، فرمان الٰہی ہے: (اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دوکہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ (سورۃ آل عمران: ۳۱) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات میں اپنی اطاعت کے ساتھ رسول کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے۔ ان سب جگہوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ فرمانِ الٰہی کی تعمیل کرو اور ارشاد نبویؐکی اطاعت کرو۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر یہ بات واضح طور پر بیان کردی کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔

قرآن کے مفسر اول: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم : اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے: یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے کہ لوگوں کی جانب جو حکم نازل فرمایا گیا ہے، آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں، شاید کہ وہ غوروفکر کریں۔ (سورۃ النحل: ۴۴) اسی طرح فرمان الٰہی ہے: یہ کتاب ہم نے آپؐ پر اس لئے اتاری ہے تاکہ آپؐ ان کے لئے ہر اس چیز کو واضح کردیں جس میں وہ اختلاف کررہے ہیں۔ (سورۃ النحل ۶۴) اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیات میں واضح طور پر بیان فرمادیا کہ قرآن کریم کے مفسر اول حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ آپؐامت مسلمہ کے سامنے قرآن کریم کے احکام ومسائل کھول کھول کر بیان کریں۔ اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال کے ذریعہ قرآن کریم کے احکام ومسائل بیان کرنے کی ذمہ داری بحسن خوبی انجام دی۔

تاریخ کا سب سے لمبا سفر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام: تاریخ کے سب سے لمبے سفر ( اسراء ومعراج) کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام (سورۃ الاسراء) میں بیان فرمایا ہے جس میں آپؐ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ کے سفر کو اسراء کہتے ہیں۔ اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے۔اس واقعہ کا ذکر سورۂ نجم کی آیات میں بھی ہے۔ سورۃ النجم کی آیات ۱۳۔۱۸ میں وضاحت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس موقع پر) بڑی بڑی نشانیاں ملاحظہ فرمائیں ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز: اللہ تعالیٰ کا پیار بھرا خطاب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے کہ آپ رات کے بڑے حصہ میں نماز تہجد پڑھا کریں: اے چادر میں لپٹنے والے! رات کا تھوڑا حصہ چھوڑکر باقی رات میں (عبادت کے لئے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ یا آدھے سے کچھ کم ،یا اُس سے کچھ زیادہ۔ اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ ( سورۃ المزمل: ۱۔۴) اسی طرح سورۃ المزمل کی کی آخری آیت میں اللہ رب العزت فرماتا ہے: (اے پیغمبر!) تمہارا پروردگار جانتا ہے کہ تم دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات (تہجد کی نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہو اور تمہارے ساتھیوں (صحابۂ کرام) میں سے بھی ایک جماعت (ایسا ہی کرتی ہے)۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے نبی کے اخلاق کے متعلق فرماتا ہے: اور یقینا تم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہو۔ (سورۃ القلم: ۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپؐ کے اخلاق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: آپؐ کا اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (بخاری ومسلم)
٭٭٭