”مصنوعی رحم“ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ بچہ کی پیدائش کا مستقبل!
آرٹفیشل وُوم، جو کہ عورت کے جسم میں ہونے والے قدرتی حمل کی جگہ کو ہی نقل کرتا ہے، ایک خاص گلاس کی کیپسول کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس میں وہ تمام غذائی اجزاء اور آکسیجن فراہم کی جاتی ہے جو ایک حقیقی ماں اپنے بچے کو دیتی ہے۔
حیدرآباد: کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ جیسے برائلر چوزے فارم میں پالے جاتے ہیں، ویسے ہی بچے بھی جدید فارم جیسے خانے میں رکھ کر پرورش کیے جا سکتے ہیں؟ یہ تصور حقیقت میں بدلنے کے قریب ہے، اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم جلد ہی ایسی ٹیکنالوجی کے دور میں داخل ہونے والے ہیں جسے ”برتھنگ پوڈ“ یا”آرٹفیشل وُوم“ کے ذریعہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
کیا ہے ”آرٹفیشل وُوم“؟
آرٹفیشل وُوم، جو کہ عورت کے جسم میں ہونے والے قدرتی حمل کی جگہ کو ہی نقل کرتا ہے، ایک خاص گلاس کی کیپسول کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس میں وہ تمام غذائی اجزاء اور آکسیجن فراہم کی جاتی ہے جو ایک حقیقی ماں اپنے بچے کو دیتی ہے۔ جب جنین کے دل، دماغ اور دیگر اعضا مکمل طور پر ترقی پا لیتے ہیں، تو انہیں ایک بٹن کے ذریعہ باہر نکال لیا جاتا ہے۔ 2017 میں امریکہ کے شہر فلاڈیلفیا میں محققین نے ”بایو بیگ“ کے نام سے آرٹیفیشل وُوم کا پروٹو ٹائپ تیار کیا، جو کہ کامیابی سے کام کر رہا ہے۔
فلم ساز کی تخلیق
مشہور فلم ساز اور بایوٹیکنالوجسٹ حاشم الغیلی نے ایک ویڈیو تیار کی ہے جو اس سِنتھیٹک وُوم کے بارے میں ہے۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جنین کو برتھنگ پوڈ میں رکھا جاتا ہے، جس کیلئے ان ویٹرو فرٹیلائزیشن (IVF) کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تقریباً 75 لیبز میں 400 کی تعداد میں یہ خانے موجود ہوں گے، اور ان کا مقصد سالانہ 30,000 بچوں کی پیدائش ہے۔ ان خانوں میں AI پر مبنی سینسرز نصب ہوں گے، جو بچے کی دھڑکن، درجہ حرارت، اور آکسیجن کی سطح معلوم کرنے میں مدد کریں گے۔
پہلے سے موجود ٹیکنالوجی
نیدرلینڈ کی ایک یونیورسٹی نے پہلے ہی ناپختہ بچوں کیلئے آرٹفیشل وُوم تیار کیا ہے، جو کہ 28 ہفتے سے کم عمر کے بچوں کیلئے خاص طور پر بنایا گیا تھا۔ یہ ٹیکنالوجی مثبت نتائج دے چکی ہے، اور عالمی کاروباری شخصیات جیسے ایلون مسک، ساہل لاونگیا، اور ویتالک بُیوٹرین اس میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔
اگر پیدائش کی شرح میں اضافہ جاری رہا تو دنیا کو غذائی بحران اور وسائل کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر پیدائش کی شرح کم ہو گئی تو نوجوان آبادی کم ہو جائے گی اور بزرگوں کی تعداد بڑھ جائے گی، جس کے نتیجے میں معاشی بحران کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ آرٹفیشل وُوم اس مسئلے کا ممکنہ حل فراہم کر سکتا ہے، جس کے ذریعے لوگ اپنی مرضی کے مطابق بچوں کی پیدائش کے وقت کا تعین کر سکتے ہیں۔
جینیاتی مسائل کا حل
اگر برتھنگ پوڈ میں نشوونما پانے والا جنین کسی جینیاتی مسئلے کا سامنا کرتا ہے یا والدین بچے کے رنگ یا شکل کے حوالے سے کچھ خاص خواہش رکھتے ہیں تو AI پر مبنی سینسرز کی مدد سے اس میں تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح، کسی بھی نوعیت کے اعضائی نقص کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مکمل آرٹفیشل وُوم تیار ہونے میں مزید دس سال لگ سکتے ہیں۔
یہ تبدیلیاں مستقبل میں انسانی نسل کی افزائش کے طریقوں میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہیں، اور یہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔