شمالی بھارت

تاج محل میں سیاحوں پر بندروں کے حملے

عہدیداروں نے کہا کہ وہ بندروں کو پکڑنے کے لئے آگرہ میونسپل کارپوریشن اور بعض غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی مدد لینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن تاحال کسی کے پاس بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔

آگرہ: تاج محل میں سیاحوں پر بندروں کے حملوں کے 12 کیسس نے وزیٹرس میں خوف کی لہر دوڑادی ہے۔ سیکوریٹی سروس اب جاگ گئی ہے اور نظر رکھنے لگی ہے لیکن بندروں کے غول تاج کے شہر آگرہ کے حکام کے لئے بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔

محکمہ آثارِ قدیمہ (اے ایس آئی) نے ہورڈنگس اور کٹ آؤٹس لگاکر سیاحوں کو خبردار کیا کہ وہ بندروں سے دور رہیں کیونکہ بعض سیاح بندروں کے قریب جاتے ہیں اور سیلفیاں لیتے ہیں۔

عہدیداروں نے کہا کہ وہ بندروں کو پکڑنے کے لئے آگرہ میونسپل کارپوریشن اور بعض غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی مدد لینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن تاحال کسی کے پاس بھی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ ریاستی محکمہ جنگلات و جنگلی حیات بندروں کو پکڑنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

مقامی لوگوں نے حملہ کرنے والے بندروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے پرانے شہر کے علاقوں میں لوگوں کی زندگی عذاب کردی ہے۔ آگرہ شہر اِن دنوں آوارہ گائے بیلوں‘ کتوں اور بندروں سے پریشان ہے۔

 2 سال قبل اُس وقت ہنگامہ مچا تھا جب آگرہ سے 20کیلو میٹر دور ایک موضع میں بندر نے ایک ماں کی گود سے اس کا دودھ پیتا بچہ چھین کر پھینک دیا تھا۔ ضلع حکام نے اس وقت کئی وعدے کئے تھے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

مقامی رکن اسمبلی پرشوتم کھنڈیلوال نے اپنی بے بسی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ منتخبہ نمائندوں نے مسئلہ کو نظرانداز کیا ہے لیکن حالات بہت خراب ہیں۔ شہری‘ بندروں کے مسلسل خوف میں جی رہے ہیں۔ دریا یمنا کے کنارے اس علاقہ میں ہزاروں بدمعاش بندر رہتے ہیں کیونکہ دھارمک(مذہبی) لوگ انہیں کیلے اور روٹی کھلاتے رہتے ہیں۔ ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم ستیہ میو جیتے کے ٹرسٹی مکیش جین نے کہا کہ ہم اپنی تجاویز لے کر حکام سے باقاعدہ رجوع ہورہے ہیں۔

ہم نے مالی مدد کی تک پیشکش کی لیکن بعض عجیب وجوہات کی باعث انتظامیہ پیچھے ہٹ رہا ہے۔ بندروں کو جنگل منتقل کرنے کی دو مرتبہ کوششیں ہوئیں لیکن گرین کارکنوں نے اسے روک دیا۔ صورتِ حال سنگین ہے۔ اندازہ ہے کہ بندروں کی تعداد 20 ہزار تا 1 لاکھ ہے۔

 پرانے شہر کے علاقوں میں جہاں گلیاں تنگ ہیں اور چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں‘ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اب لوگ ان کے خوف سے چھتوں پر نہیں جارہے ہیں کیونکہ یہ بندر‘ عورتوں اور بچوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ غذا چھیننے کے ہر طرح کے حربے آزماتے ہیں۔

گرین کارکن ڈاکٹر دیواشیش بھٹاچاریہ نے کہا کہ جنگل گھٹتے جارہے ہیں‘ پھلدار درخت نہیں لگائے جارہے ہیں جس کی وجہ سے مسئلہ بڑھ گیا ہے۔ آرائشی پودوں کے بجائے پھلدار درخت لگانے کی ضرورت ہے۔ بندر بھی ایکو سسٹم کا حصہ ہیں‘ ان کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔ انہیں کوسنے کے بجائے کچھ دیا جائے۔ ٹورسٹ گائیڈ اب وزیٹرس کو بندروں کے تعلق سے الرٹ کرنے لگے ہیں۔