اسدالدین اویسی نے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے تحفظ کا مطالبہ کیا
انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کے فیصلے کو بنیاد بنا کر ملک میں دیگر مذہبی مقامات، خاص طور پر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو نہ صرف آئینی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
حیدرآباد: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے صدر اور رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے پارلیمنٹ میں 1991 کے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون (Places of Worship Act, 1991) اور مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر چل رہے مقدمات کے تعلق سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کے فیصلے کو بنیاد بنا کر ملک میں دیگر مذہبی مقامات، خاص طور پر مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو نہ صرف آئینی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ ملک کے سیکولر ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
اویسی نے کہا:”1991 کا عبادت گاہوں کا قانون اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام مذہبی مقامات کی حیثیت ویسی ہی برقرار رہے جیسی وہ 15 اگست 1947 کو تھی۔ اس قانون کا مقصد مذہبی تنازعات کو روکنا اور قومی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔ لیکن حالیہ مقدمات، خاص طور پر گیان واپی مسجد اور دیگر مقامات کے حوالے سے، یہ قانون توڑنے کی کوششیں ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں میں ان مقدمات کی سماعت سے نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے بلکہ ملک کے آئینی اصولوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔
اویسی نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ 1991 کے قانون کو مضبوطی سے نافذ کرے اور ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے جو مذہبی منافرت پھیلانے اور سماجی توازن بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا:”میں پارلیمنٹ اور حکومت سے سوال کرتا ہوں کہ کیا 1991 کا قانون صرف کتابوں میں رہنے کے لیے بنایا گیا تھا؟ بابری مسجد کا فیصلہ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کا ایک واضح مثال تھا، اور اب اس کی بنیاد پر دیگر مساجد اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ ملک کے آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے۔”
اویسی نے تمام سیاسی جماعتوں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ان کوششوں کے خلاف متحد ہوں اور ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار کا تحفظ کریں۔