جموں و کشمیر

کشمیر میں ایشیا کا واحد سرخ لکڑی کا درخت موجود

اس دیو ہیکل درخت کا تعلق کوپریسیئس آف نونیفر کے خاندان سے ہے اور یہ ایک بڑے مشروم کی شکل میں ہے، یہ درخت سال بھر ہرا بھرا رہتا ہے اور اپنی ساخت اور خوبصورتی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

سری نگر: شمالی کشمیر کے ٹنگمرگ علاقے میں واقع کونسل آف سائنس اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کے فیلڈ اسٹیشن میں ایشیا کا واحد ریڈ ووڈ درخت موجود ہے حکومت نے اس دیڑھ سو سالہ قدیم اور نایاب درخت کو ہیریٹیج درخت قرار دیا ہے۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف انٹگریٹڈ میڈیسن یاری کھاہ کے انچارج قاضی پرویز نے یو این آئی کے ساتھ اس نایاب درخت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ نایاب درخت شمالی امریکہ اور نویڈا کیلیفورنیا میں پائے جاتے ہیں اور ان کو خطرے سے دوچار درخت قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’اس دیو ہیکل درخت کا تعلق کوپریسیئس آف نونیفر کے خاندان سے ہے اور یہ ایک بڑے مشروم کی شکل میں ہے، یہ درخت سال بھر ہرا بھرا رہتا ہے اور اپنی ساخت اور خوبصورتی سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے‘۔

اس درخت کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ پرندے اس پر گھونسلہ نہیں بناتے ہیں نہ ہی پرندے اس پر بیٹھتے ہیں جو اس کے متعلق ایک راز ہے۔

قاضی پرویز کا کہنا ہے: ’میں گذشتہ بارہ برسوں سے اس فارم میں انچارج کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں میں نے ان برسوں کے دوران اس درخت کا تاریخی پس منظر جاننے کی کوشش کی یہاں اپنے سینئر افسروں ، ملازموں یہاں تک یہاں کام کرنے والے مزدوروں سے بھی اس سلسلے میں بات کی‘۔

انہوں نے کہا: ’ ان سب کا کہنا تھا کہ جب سے ہم یہاں کام کر رہے ہیں تب سے ہم نے اس درخت کو اسی شکل اور سائز میں دیکھا نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا‘۔

ان کا کہنا تھا: ’میں نے جو اس درخت کے متعلق تحقیق کی اس کی رو سے یہ درخت کم سے کم ڈیڑھ سو برس پرانا ہے ہم نے پہلے ہی اس درخت کے نمونے لئے ہیں تاکہ ہم اس کے متعلق مزید جانکاری حاصل کر سکیں‘۔

موصوف انچارج نے کہا کہ جب ہم دیڑھ سو برس پہلے کے حالات پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس وقت یہ پورا علاقہ جنگل تھا اور یہاں ہر طرف درخت ہی درخت رہے ہوں گے لہذا یہ معلوم کرنا کہ اس کو کس نے لگایا اور اس کا نمونہ کہاں سے لایا گیا، مشکل کام ہے۔انہوں نے کہا کہ اس قسم کے درخت شمالی امریکہ اور نویڈا کیلیفورنیا میں پائے جاتے ہیں جن کو وہاں بھی خطرے سے دوچار درخت قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا ہے: ’میں نے اس درخت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن کے لٹریچر کا مطالعہ کیا جس سے یہ معلوم ہوا کہ اس کو خطرے سے دوچار ایک درخت قرار دیا گیا ہے‘۔

مسٹر قاضی کا کہنا ہے کہ اس درخت کے بارے میں دنیا میں کہیں کوئی تاریخ نہیں ملتی ہے بجز اس کے کہ کیلیفورنیا اور نویڈا کے جنگلوں میں ایسے کچھ درخت موجود ہیں۔

انہوں نے کہا: ’یہاں اس فیلڈ اسٹیشن میں یہ واحد درخت ہے اور کشمیر کے جنگلوں میں بھی اس قسم کے درختوں کا کوئی نام و نشان نہیں ہے‘۔

ان کا کہنا تھا: ’میں نے کئی فارسٹ افسروں کے ساتھ اس قسم کے درختوں کی موجودگی کے بارے میں بات کی لیکن سب نے یہی کہا کہ ان کے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ اس قسم کا کوئی درخت یہاں کے جنگلوں میں موجود ہے‘۔انہوں نے کہا: ’کئی افسر یہاں اس فارم میں اس درخت کو دیکھنے کے لئے آئے اور اس کے متعلق جانکاری حاصل کی‘۔

موصوف انچارج نے کہا کہ ہم کھلے میدانوں، پولی ہاؤسز، گرین ہاؤسز اور لیبارٹریوں میں اس درخت کی نازک شاخوں کے پودوں کی افزائش کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فی الوقت اس ضمن میں کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی ایس آئی آر کے ڈائریکٹر جنرل شیکھر سی منڈے نے بھی اس فارم کا دورہ کیا اور اس درخت کو وراثتی درخت قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا انسٹی ٹیوٹ اس درخت کے تحفظ اور اس کی دیکھ ریکھ کو یقینی بنانے کے لئے تمام تر اقدام کرے گا۔