دہلی

بنگلور چرچ بم دھماکہ کیس: سپریم کورٹ نے 20 ملزمین کی ضامنت منظور کرلی، جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے قانونی امداد کی فراہم

دہشت گردی کے الزامات کے تحت گذشتہ 24 سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے بیس ملزمین کو گزشتہ کل سپریم کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کردیئے ۔

نئی دہلی: دہشت گردی کے الزامات کے تحت گذشتہ 24 سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر قید بامشقت کی سزا کاٹ رہے بیس ملزمین کو گزشتہ کل سپریم کورٹ نے مشروط ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کردیئے ۔

متعلقہ خبریں
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے
کشمیر اسمبلی میں 5 ارکان کی نامزدگی سپریم کورٹ کا سماعت سے انکار
برج بہاری قتل کیس، بہار کے سابق ایم ایل اے کو عمر قید

جاری ریلیز کے مٓطابق گذشتہ کل سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس اروند کمار نے سال 2000میں کرناٹک کے مختلف شہروں بشمول بنگلور میں ہوئے چار بم دھماکہ معاملے میں نچلی عدالت اور ہائی کورٹ سے عمر قید کی سزا پانے والے ملزمین کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے، ملزم کی ضمانت عرضداشت پر ایڈوکیٹ آر مادھون نے بحث کی۔ عدالت نے ملزمین کے جیل میں گذارے ایام کے مد نظر ملزمین کی ضمانت عرضداشت منظور کی۔

ضمانت منظور کرنے سے قبل عدالت نے جیل حکام سے ملزمین کے جیل ریکارڈ طلب کئیے تھے، جیل حکام نے عدالت میں ملزمین کے جیل ریکارڈ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ ملزمین کا رویہ جیل میں اطمینان بخش اور بہت اچھا ہے ۔ سپریم کورٹ نے جیل رپورٹ اور ملزمین کی طویل قید کے مدنظر ملزمین کو ضمانت پر رہا کیئے جانے کا حکم دیا ۔

اس سے قبل دوران سماعت ایڈوکیٹ مہادیون نے عدالت سے گذارش کی تھی کہ ملزمین کو معافی دی جا ئے یا انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے ، ایڈوکیٹ مہادیون نے راجیو گاندھی کے قاتلوں کو ریاستی حکومت کی جانب سے ملنے والی معافی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت سے ملزمین کو جیل سے رہا کیئے جانے کی گذارش کی تھی۔

دیگر ملزمین کے لیئے ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے بحث کی جبکہ تین ملزمین کا جیل میں انتقال ہوچکا ہے ۔سپریم کورٹ نے ملزمین اور ریاستی حکومت کی اپیل پر فروری 2025 میں سماعت کئیے جانے کا حکم جاری کیا۔

واضح رہے کہ2000 میں ہونے والے بم دھماکوں کے الزامات کے تحت تحقیقاتی دستوں نے تعزیرات ہند کی دفعہ 120-B,121,121-A,153 ، ایکسپلوزیو سبسٹنس ایکٹ کی دفعہ 3,4,5 اور ایکسپلوزیو ایکٹ کی دفعہ 5,9-B کے تحت 27؍ ملزمین کے خلاف مقدمہ قائم کیا تھا، آٹھ سالوں تک مقدمہ کی سماعت خصوصی عدالت میں چلنے کے بعد 21؍نومبر 2008کو خصوصی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 4؍ ملزمین کو باعزت بری کردیا اور بقیہ ملزمین کو عمر قید با مشقت کی سزا ء سنائی تھی۔

ایک جانب جہاں ملزمین نے عمر قید کی سزاؤں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی وہیں ریاستی حکومت نے مقدمہ سے بری ہونے والے ملزمین کے خلاف اپیل اور عمر قید کی سزائوں کو پھانسی کی سزائوں میں تبدیل کرنے کی اپیل بھی داخل کی تھی جس پر سپریم کورٹ نے ملزمین کو نوٹس جار ی کیا تھا۔

ملزمین کی اپیلوں کو سماعت کے لیئے قبول کرنے کے بعد عدالت نے تمام اپیلوں پر یکجا سماعت کیئے جانے کا حکم جاری کیا تھا۔نچلی عدالت سے ملی عمر قید کی سزاء کو ملزمین نے کرناٹک ہائی کورٹ کی بنگلور بینچ میں چینلج کیا، جہاں12؍ دسمبر2012 کو ہائی کورٹ نے ملزمین کی سزائوں کو برقرار رکھا، جس کے بعد ملزمین نے جمعیۃ علماء کے توسط سے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی جس پر سماعت نہیں ہو پارہی تھی جس کے بعد ملزمین کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت داخل کی گئی تھی۔

ملزمین محمد عقیل احمد(ایک مقدمہ)، بشیر احمد(تین مقدمہ)، سیدعباس علی(ایک مقدمہ)، شمس الزماں(دو مقدمہ) ، محمد شرف الدین(تین مقدمہ)، منیر الدین ملا(تین مقدمہ)، عبدالحبیب(دو مقدمہ)، غیاث الدین(ایک مقدمہ)، کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی ہے۔